کسان کو سستا نہ کرتے تو سستا آٹا لوگوں کی جان نہ لیتا



زمانہ قدیم سے انسان کے دو پیشے رہے ہیں۔ کاشتکاری، اور گلہ بانی، دونوں ہی انسان کے لیے انتہائی فائدہ مند اور ماحول دوست پیشے رہے ہیں۔ آپ کے اور میرے آبا و اجداد زمین سے اپنا اناج حاصل کرتے تھے اور پہننے اوڑھنے کے لوازمات مال مویشیوں سے۔ راوی چین ہی چین لکھتا تھا، غربت کا ناچ بھی اس قدر وحشیانہ نہیں تھا اور نہ ہی آپا دھاپی کا ماحول تھا۔ زمین کی گود ہری بھری رہتی تھی اور زمین کے سینے سے وافر مقدار میں آب حیات ابلتا تھا۔

زمیندار، کاشتکار اور کسان سال بھر کی روزی روٹی کا بندوبست کر ہی لیتے تھے۔ یہاں تک کہ ہاری مزارعے بھی سال بھر کی گندم کما لیتے تھے۔ سال بھر کے تمام اہم کام مثلاً شادی بیاہ یا کوئی اور اہم اجتماع نئی فصل آنے کے بعد رکھے جاتے تھے کیونکہ اس وقت ہر امیر غریب کے گھر میں قدرے خوشحالی ہوتی تھی۔ برصغیر کے اکثر تہوار نئی فصل کی مناسبت سے ملیں گے۔ عرس اور میلے نئی فصل کے موقع پہ منعقد ہوتے تھے۔

جانوروں یہاں تک کہ کیڑے مکوڑوں کے بل بھی گندم سے بھر جاتے تھے۔ نئی فصل گھر لانے سے پہلے کھیت میں ہی اس کے مختلف حصے کیے جاتے، اللہ رسول سادات کا حصہ، پیر فقیر صوفی بزرگان کا حصہ، دھی دھیانی بہن بیٹی کا حصہ، غریب مسکین یتیم کا حصہ، مسافروں کا حصہ، یہاں تک کہ گاوٴں دیہات کے چھوٹے چھوٹے بچوں کا بھی نئی فصل میں حصہ ہوتا تھا۔ گاوٴں دیہات کے بچے اپنے کرتے کا دامن پھیلائے ہر اس کھیت میں جاتے تھے جہاں نئی گندم کا ڈھیر لگا ہوتا اور جھولی بھر کے گندم اپنا حق سمجھ کے وصول کرتے تھے۔

اور زمیندار کسان بھی ننھے فرشتوں کو خالی لوٹانا بہت بڑا گناہ سمجھتے تھے۔ گزرگاہوں میں اکثر گندم کے دانے گرے ملتے جنہیں کیڑے مکوڑے اٹھا اٹھا کے لے جا رہے ہوتے تھے۔ نئی فصل آنے کے بعد گھر کا اکثر سامان گندم فروخت کر کے خریدا جاتا تھا۔ بیٹی کے جہیز کی چیزیں گندم بیچ کے تیار کی جاتی تھیں۔ گاوٴں دیہات کی اکثر خواتین گندم کی فصل کٹنے کے بعد کھیتوں میں جاتیں اور گندم کی بالیاں یا سٹے چنتیں جو فصل کٹنے کے بعد کھیت میں پڑے رہ جاتے ہیں۔ ان خواتین کی ذاتی ضرورت کا اکثر سامان اسی مختصر سی محنت اور کمائی سے ہی مل جایا کرتا تھا۔

وقت بدلا، ترجیحات بدلیں، رہن سہن بدلا، رسم و رواج اور انداز زندگی بدلا تو ضروریات بھی تبدیل ہو گئیں۔ رفتہ رفتہ پانی کم پڑنے لگا، ہمیشہ پانی سے چھلکنے والی نہریں موسمی نالوں میں بدلنے لگیں، اپنی باری کے لیے لڑتا ہوا کسان سوچنے لگا کہ میری پانی کی باری پہ پانی تو کھیت تک پہنچنے کی بجائے کھالوں اور نالوں میں ہی جذب ہو جاتا ہے۔ ہر دو سے تین ایکڑ کے فاصلے پہ گہرے بور والے بڑے ٹیوب ویل لگنے لگے۔ پانی جب بجلی اور ڈیزل کی قیمت سے خرید کے آبپاشی شروع ہوئی تو آدھے کھیت اور آدھے کسان خاموشی سے مرنے لگے یا پھر اپنے حق سے دستبردار ہوتے ہوئے چھوٹے کسانوں نے اپنی زمینیں فروخت کرنا شروع کر دیں۔ پانی اور کھاد کے خرچے، سپرے اور ٹریکٹر سمیت جدید مشینوں کے خرچے برداشت کرنا چھوٹے کسانوں کے لیے ممکن نہیں تھا۔

ملہڑ ملی ہوم میڈ کھاد کا زمانہ نہیں تھا، نہری پانی سے آبپاشی کا دور گیا، فصل کی بوائی اور کٹائی کے پرانے طریقے اب مستعمل نہیں رہے تھے۔ جو لوگ نئی فصل کی مناسبت سے اپنے اہم تہوار اور اہم امور ترتیب دیتے تھے انہوں نے کمانے کے دیگر طریقوں پہ زیادہ توجہ دینا شروع کی۔ رفتہ رفتہ سال بھر کی گندم جمع کر کے بے فکر ہو جانے والے کسان اور مزارعے سکون کی نیند سے محروم ہوتے گئے۔ اب وہ مثل مشہور نہیں رہی کہ جنہاں دے گھر دانڑے انہاندے کملے وی سیانڑے، یعنی جن کے گھر گندم ہو ان کے بے وقوف بھی عقل مند شمار کیے جاتے ہیں۔

فصل کی تیاری کے لوازمات جتنے مہنگے ہوتے گئے فصل کی قیمت اس مناسبت سے نہیں بڑھائی گئی۔ چار سے پانچ ماہ کی مسلسل محنت اور انتہائی نگہداشت میں تیار ہونے کی فصل جب کارخانے اور فیکٹری والوں نے کوڑیوں کے مول خریدنا شروع کی تو کسان نے بھی زمین کو ماں کے برابر سمجھنا چھوڑ دیا۔ اکثر چھوٹے قطعہ اراضی ٹھیکے پہ بڑے زمین داروں کے پاس چلے گئے اور چھوٹے کسان دیہاڑی دار مزدوروں کے برابر آن کھڑے ہوئے۔ اکثر زمینیں پراپرٹی کا کاروبار کرنے والوں نے خریدیں اور ون سونے محلات، مارکیٹس، شاپنگ پلازے اور ہاوٴسنگ سوسائٹیز بنا ڈالیں۔ زمین کی ہریالی پہ کنکریٹ کی سختی غالب آ گئی۔ کسان زمیندار کاشتکار جس کا ایک معیار اور وقار ہوتا تھا وہ بمشکل اپنی سفید پوشی کا بھرم بناتا رہ گیا۔

وہ کھیت کھلیان جہاں جانور حیوان بھی پیٹ بھر کے چرتے تھے اور وہ زمین جہاں کیڑے مکوڑوں کے بل بھی گندم سے بھرے رہتے تھے آج اسی کے باسی دس دس کلو آٹے کے لیے اپنی جان سے جا رہے ہیں۔

ذرا تسلی سے سوچیے کہ یہ کسان کو مسلسل ذلیل کرنے کی سزا نہیں ہے؟ ذرا سوچیے کہ یہ زمین کی ہری بھری گود اجاڑنے کا عذاب نہیں ہے؟ یہ پانیوں کو برباد کرنے کا کفارہ نہیں ہے؟

آپ نے کبھی کاشتکاری کو فائدہ مند اور پرکشش پیشہ نہیں بننے دیا۔ آپ نے کسان کے لیے کوئی مضبوط منصوبہ بندی نہیں کی۔ آپ نے زراعت کے لیے کبھی بڑا بجٹ مختص نہیں کیا۔ آپ نے کبھی پانی کے مسائل اور زمینی کٹاوٴ کے متعلق سنجیدہ اقدامات نہیں کیے۔ زرعی ملک ہونے کے باوجود دوسرے ممالک سے گندم خریدتے ہوئے آپ کو کبھی شرم نہیں آئی۔ خیر گندم تو بڑی بات ہے آپ تو لہسن اور پیاز بھی باہر سے منگوا لیتے ہیں اور آپ کا اپنا کسان کوڑیوں کے بھاوٴ اپنی محنت فروخت کرنے پہ مجبور ہے۔ اپنی گندم اور دیگر اجناس آپ باہر مہنگے داموں بیچتے ہیں اور کسان سے اس کی لاگت کے عوض بھی نہیں خریدتے۔ ہر ملک کے پاس زرعی بہترین منصوبہ جات موجود ہیں سوائے ہمارے۔ ہر ملک ماحولیات کے متعلق کام کر رہا ہے سوائے ہمارے۔ ہر ملک پہلے اپنے کسان کو اور عوام کو ریلیف دیتا ہے سوائے ہمارے۔

سندھی پنجابی کسان اک دوسرے کے بارے میں بدگمانی میں مبتلا ہیں اور سمجھتے ہیں کہ دوسرا فریق زیادہ پانی استعمال کر رہا ہے۔ جبکہ حقیقت تو یہ ہے کہ دونوں کے ساتھ ظلم ہو رہا ہے۔ کئی سالوں سے آپ نے جو ظلم زمین اور زمینداروں کے ساتھ کیا ہے وہ اب پورے معاشرے کو برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔ آپ کسان کو سستا نہ کرتے تو سستا آٹا آپ کے لوگوں کی جان نہ لیتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments