سیاسی انجینئرنگ: منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے


انجینئرنگ کسی بھی کام کو سائنسی اصولوں کے ساتھ کرنے کو کہتے ہیں ”سیاسی انجینئرنگ“ کی اصطلاح سے مراد معاشرے میں صاحب اقتدار قوتوں کا دوسروں کو دبانے کے لیے طاقت کے ذریعے من پسند نتائج سے اپنے مرضی کے مطابق معاشرے کو چلانا۔

پاکستان میں پولیٹیکل انجنیئرنگ کی ایک طویل تاریخ ہے۔ مختلف ادوار میں سیاسی جماعتوں اور اتحادوں کی تشکیل میں اسٹیبلشمنٹ پر انگلیاں اٹھتی رہیں۔ ماضی میں عمران خان کی طرح دوسرے سیاسی لیڈرز بھی پولیٹیکل انجینئرنگ سے اقتدار میں آتے رہے۔ ایم کیو ایم کا قیام اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی، ایم کیو ایم حقیقی، پاک سرزمین پارٹی کا قیام، الطاف حسین کے مرکز 90 کی بندش اور ایم کیو ایم کا الطاف سے اظہار لا تعلقی زیادہ پرانے واقعات نہیں۔

پولیٹیکل انجینئرنگ سے ہی نواز شریف اور بے نظیر بھٹو برسر اقتدار آتے اور جاتے رہے۔ 1985 ءسے 2013 ءتک ملک میں 9 عام انتخابات ہوئے، جن میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے ملک کا سیاسی نظام چلایا۔ آج آمریت کے خلاف لمبی چوڑی تقریریں کرنے والے سیاست دانوں کا جنم اسٹیبلشمنٹ کی نرسری میں ہی ہوا۔ جنرل ضیاء کے زمانے میں بے نظیر اور نصرت بھٹو کو قید اور 1984 ءمیں لندن جلاوطنی گزارنا پڑی۔ اپریل 1986 ءمیں بے نظیر بھٹو اپنے والد کے سوشل ازم کے بجائے لبرل ازم کے نئے نظریے کے ساتھ لاہور ائر پورٹ پر اتریں تو لاکھوں افراد ان کے استقبال کے لیے موجود تھے۔ کچھ لوگوں کا کہنا تھا کہ وہ استقبال ایم آر ڈی اور بے نظیر کی بحالی جمہوریت کی تحریک کا نتیجہ تھا، لیکن ایک نکتہ نظر یہ بھی تھا کہ یہ بھی پولیٹیکل انجینئرنگ کا ثمر تھا ورنہ بے نظیر کا ایسا شاندار استقبال ممکن نہ تھا۔

حالیہ بحران کے ڈانڈے بھی اسٹیبلشمنٹ کی پولیٹیکل انجینئرنگ سے ملائے جاتے ہیں، جس کا آغاز عمران خان کی احتجاجی تحریک سے ہوا۔ عمران نے اگست 2014 ء میں لاہور سے اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ اور 126 دن کا دھرنا دیا اور نواز شریف سے 2013 کے انتخابات میں دھاندلی کرانے پر مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا۔ حالانکہ انتخابات کی نگرانی کرنے والے اداروں کی رپورٹس میں ان انتخابات کو 1988 ء سے ہونے والے تمام انتخابات میں سب سے زیادہ صاف ’شفاف اور غیر جانبدار قرار دیا۔ عمران خان کے مطالبے پر سپریم کورٹ کے ایک رکنی کمیشن نے بھی اس کی تصدیق کی کہ ایسی کوئی دھاندلی نہیں ہوئی جو انتخابات کے نتائج پر اثر انداز ہو سکتی۔

16 دسمبر 2014 ء کو آرمی پبلک سکول حملے سے عمران خان نے اپنا دھرنا تو ختم کیا لیکن وہ حکومت گرانے کی اپنی کوششوں سے پیچھے نہیں ہٹے۔ 2016 ء میں پانامہ پیپرز میں نواز شریف کے بیٹے حسین نواز کی ایک آف شور کمپنی کا ذکر آیا جس کی بنیاد پر عمران خان نے نواز شریف پر کرپشن اور منی لانڈرنگ کا الزام لگا کر پھر استعفیٰ کا مطالبہ اور اسے منوانے کے لیے وفاقی دارالحکومت سمیت ملک خصوصاً پنجاب کے شہروں کی ناکہ بندی کا اعلان کر دیا۔

جس سے ملک میں سیاسی عدم استحکام اور معاشی نقصان ہوا۔ چینی صدر شی جن پنگ کے دورے کا التوا اور پاک چین اکنامک کاریڈور معاہدے پر دستخط میں ایک سال کی تاخیر ہوئی۔ سپریم کورٹ کے فیصلے سے نواز شریف کو وزارت عظمیٰ سے الگ کر کے تاحیات سیاست کے لئے بھی نا اہل قرار دیا گیا اور لندن فلیٹس کی ملکیت جائز اور قانونی ثابت کرنے میں ناکامی پر طویل قید سنائی گئی۔ مریم نواز کو بھی سات سال کی قید کی سزا دے کر جیل میں ڈالا گیا۔

نیب کے جج ارشد ملک کے انکشافات اور مریم نواز کے اسلام آباد ہائی کورٹ سے بری ہونے سے ثابت ہوا کہ نواز شریف کو اس مقدمے میں قید کرنے اور سزا سنانے کا جواز نہ تھا۔ یہ فیصلہ شروع سے ہی متنازع چلا آ رہا تھا۔ اب سابق چیف جسٹس ثاقب نثار اور قمر جاوید باجوہ کے بیانات سے یہ حقیقت عیاں ہو رہی ہے کہ یہ سب کچھ ایک ”گرینڈ پلان“ کے تحت ہوا جس کا مقصد نواز شریف کو اقتدار سے ہٹانا اور عمران خان کو مسند اقتدار پر لانا تھا۔

2018 ء کے انتخابات سے پہلے پولیٹیکل انجینئرنگ اور انتخابی عمل کو مختلف طریقوں سے متاثر کرنے کی کوششیں اسی ڈیزائن کا حصہ تھیں۔ تمام اہم کردار آہستہ آہستہ بے نقاب ہو رہے ہیں کہ اس پلان کا سب سے زیادہ فائدہ عمران خان کو پہنچایا گیا۔ اب یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ 2014 ء میں عمران خان کی احتجاجی تحریک اور ایمپائر کی انگلی اٹھنے کی باتیں ہی حالیہ بحران کا نقطۂ آغاز تھا۔

2018 ء کے انتخابی نتائج پر متعدد حلقوں کے تحفظات تھے اسی کی بنیاد پر عمران خان کو سلیکٹڈ کا خطاب دیا گیا۔ مولانا فضل الرحمن قومی اسمبلی کے بائیکاٹ اور عمران خان حکومت کے خلاف تحریک چلانے کے حق میں تھے، اسی لیے جب عمران کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کا امکان پیدا ہوا تو اپوزیشن نے اپنا قانونی اور آئینی استعمال کیا۔

نواز شریف کے ادوار حکمرانی میں تعمیر و ترقی کے کئی میگا پراجیکٹس مکمل ہوئے، پاکستان ایٹمی طاقت بنا، معاشی صورت حال قدرے بہتر تھی بیورو کریسی اپنی اوقات میں رہی۔ اسلامی ممالک خصوصاً سعودی عرب وغیرہ کے ساتھ تعلقات بہتر تھے۔ مسئلہ افغانستان میں بھی پاکستان کے مفادات مقدم رہے۔ دہشت گردوں کے خلاف نیشنل ایکشن پروگرام سے دہشت گردی پر قابو پا یا گیا۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ ختم ہوئی۔ پنجاب میں شہباز شریف نے ترقیاتی کام کیے ۔

ترکی کے ساتھ شراکت داری قائم کی گئی۔ سی پیک کے ذریعے چین کے ساتھ دوستی کو فائدہ مندی کی شکل دی گئی۔ معاملات بہتری کی طرف رواں دواں تھے، کہ نواز شریف کے خلاف اسٹیبلشمنٹ نے ایک محاذ کھول دیا جس میں نیب، ایف آئی اے اور عدالتیں سب شریک کر لی گئیں۔ نواز شریف کے خلاف اب تک کچھ ثابت نہ کیا جا سکا انہیں وہ رقم ظاہر نہ کرنے پر نا اہل کیا گیا جو انہوں نے بیٹے سے وصول ہی نہیں کی۔ اب عمران خان نے اسٹیبلشمنٹ کو آئندہ انتخابات میں پولیٹیکل انجنئیرنگ کے الزامات کے ساتھ کٹہرے میں لا کھڑا کیا ہے اور اس وقت وہ ”جائے رفتن نہ پائے ماندن“ کی کیفیت سے دوچار ہے۔ حضرت علی کی طرف ایک قول منسوب ہے کہ ”جس پر احسان کرو اس کے شر سے بچو“ اسٹیبلشمنٹ اسی سیاسی انجنئیرنگ کے احسان کے نتائج بھگت رہی ہے :

نیرنگی سیاست دوراں تو دیکھئے
منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے

خان نے ملک کو معاشی اور سیاسی عدم استحکام سے دوچار کر رکھا ہے وہ افراد ہی نہیں اداروں کو اپنے مفادات کی بھینٹ چڑھا رہے ہیں، ریاست کے ساتھ ان کے سلوک کا یہ عالم ہے۔

بستی جلی تو اس طرح شائع ہوئی خبر
آتش زنوں کے تیل کا نقصان ہو گیا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments