پارلیمانی اینٹی بایوٹک


یہ جو بھی کچھ آج ہو رہا ہے یہ خود رو اور کسی اور گینگ سیاسی عمل کا پھل نہیں ہے بلکہ عرصہ بارہ سال سے حالات و معاملات کو آرٹیفیشلی اس رخ پر گھمایا گیا ہے جہاں وہ آج کھڑے ہیں۔ ایک جملے میں اسے سیاسی انجینئرنگ یا غیر سیاسی اسٹبلشمنٹ کی طرف سے غیر قانونی غیر آئینی الیکشن مینجمنٹ کہا جا سکتا ہے۔

ہمیں ان بارہ برسوں کو ایک دن کے پیمانے پر صبح آٹھ سے شام چھ بجے تک جاری رہنے والی پولنگ کے دوران کی گئی دھاندلی کے طور پر پرکھنا ہو گا۔ دھاندلی کا یہ پورا پروسس فاول تھا اور کسی بھی میدان یا شعبے میں فاول پلے کی بنیاد پر جو گول بنائے جاتے ہیں ان کو رد کیے جانے کا اختیار رہتی دنیا تک زندہ رہتا ہے۔ اگر کل پارلیمان نے ایک غیر روایتی یا ”غیر آئینی“ فیصلہ لیا ہے تو یہ بتائیے کہ کیا عدلیہ کے جج غیر آئینی ہتھکنڈوں کے مرتکب نہیں ہو رہے تھے۔

کیا اگر کسی بین الاقوامی سازش کے نتیجے میں فوج کے بدمعاش عناصر کی مدد سے ریاستی طاقت کے غیر آئینی استعمال سے عدلیہ کو خرید کر یا دباؤ میں ڈال کر کوئی فتنہ حکومت کا کنٹرول حاصل کرنے کے قریب پہنچ جاتا ہے یعنی پارلیمان کے پاس اگر کوئی راستہ نہیں بچتا تو آپ ہی بتائیے کیا پارلیمان کو خاموش تماشائی بنے باگ ڈور فتنہ گروں کے حوالے کر دینی چاہیے جو اقتدار میں آئیں اور آئین اور جمہوریت کا ڈبا گول کر دیں۔

یہ پروپیگنڈا نہیں بلکہ ایک کھلا راز ہے کہ عمران اینڈ کمپنی کے ارادے کیا ہیں۔ عمران نیازی خود بارہا کہہ چکا ہے کہ میری خواہش ہے کہ اپنے ہاتھ سے پانچ دس ہزار مخالفین کو پھانسیاں دوں اور یہ کہ موجودہ نظام میں ایسا ممکن نہیں اور ایسا کرنے کے لیے صدارتی نظام لاگو کرنا ہو گا یعنی ڈکٹیٹرشپ۔ جو چیزیں وقتاً فوقتاً سامنے آتی رہی ہیں ان میں اڈولف ہٹلر طرز کے مطلق العنان شہنشاہی اختیارات کے حصول کے لیے اختیار کردہ روڈ میپ کو پاکستان میں لاگو کرنے کا ارادہ مرکزی ہے۔ ہٹلر کی طرح پارلیمان میں موجود بچے کھچے مخالفین کو ڈس کوالیفائی کروا کر سو فیصد اکثریت لے کر ایک ایسی آئینی ترمیم لانا جس کے نتیجے میں پارلیمان آئین سازی کے اپنے تمامتر اختیارات صدر مملکت عمران نیازی کی ذات میں منتقل کر کے صدر کو ون مین پارلیمنٹ ڈکلیئر کر کے خود کو دس برس کے لیے تحلیل کر لیتی۔

کیا ہمارے جید صحافیوں المعروف تجزیہ کاروں کو یہ نظر نہیں آ رہا کہ سنہ گیارہ سے سیاست کو انجنیئر اور فیبریکیٹ کر کے عمران نیازی کلٹ پیدا کیا گیا ہے۔ ان مجموعی غیر طبعی حالات میں اگر پارلیمان نے بھی ایک اینٹی بایوٹک فیصلہ لیا ہے تو یہی حالات کا تقاضا ہے۔ اگر خاکی کمپنی کی یا عدلیہ کی یا کسی فتنے کی ڈکٹیٹرشپ اور پارلیمنٹ کی ڈکٹیٹرشپ میں سے چننا پڑے تو میں پارلیمنٹ کی ڈکٹیٹرشپ کا ساتھ دوں گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments