معزز وزرا ہمسائے کے مالی سے بات کر لیں


آج کل ایک بار پھر ملک شدید بحران سے گذر رہا ہے۔ بالکل اسی طرز پر جیسے 1971میں گذر رہا تھا۔ 1971 میں ریاست کا کوئی بھی ستون اور کوئی بھی سیاسی جماعت بیدار مغزی کا مظاہرہ نہ کر سکی اور نتیجہ یہ نکلا کہ ملک دو لخت ہو گیا ۔ اس وقت فوج ملک پر حکمران تھی ۔ حکمرانی تو کیا کرنی تھی ملک کی سرحدوں کا دفاع بھی نہ کیا گیا۔ آج عدلیہ ایک سیاسی جماعت کے ساتھ کھڑی نظر آ رہی ہے اور  1971میں عدلیہ نے اپنا بوجھ مارشل لاء حکمرانوں کے پلڑے میں ڈالا ہوا تھا۔1971 میں ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت عوامی لیگ تھی اور اس وقت بظاہر تحریک انصاف ملک کی سب سے زیادہ مقبول سیاسی جماعت نظر آ رہی ہے۔ جس طرح 1971 میں حکومت اور ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے درمیان مذاکرات ناکام ہو گئے تھے ، اسی طرح آج کل حکومت اور ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے درمیان مذاکرات کی کوئی امید نظر نہیں آ رہی ۔1971 میں عوامی لیگ کے پر جوش کارکنان سڑکوں پر حکومت سے جنگ کر رہے تھے اور آج کل تحریک انصاف کے کارکنان سڑکوں پر حکومتی اداروں سے متصادم نظر آتے ہیں۔

سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد حمود الرحمن کمیشن کی رپورٹ میں ان عوامل کا جائزہ لیا گیا تھا جن کے نتیجہ میں حالات قابو سے باہر ہو گئے اور ملک ٹوٹ گیا۔ہمیں تاریخ کے آئینہ میں اپنی سابقہ غلطیوں کا جائزہ لینا چاہیے تا کہ کم از کم اس مرتبہ پرانی لغزشوں کو دہرانے کی غلطی نہ کریں ۔ وہ غلطیاں کیا تھیں؟ حمود الرحمن رپورٹ کے مطابق ایک غلطی تھی کہ صدر یحییٰ خان صاحب کی حکومت نے کبھی سنجیدگی سے صورت حال کا تجزیہ بھی نہیں کیا تھا۔ اس وقت کی حکومت اسٹیبلشمنٹ اور بیورو کریسی کی رپورٹوں کے نشہ میں مبتلا اور زمینی حقائق سے لا تعلق تھی ۔

صدر یحییٰ خان صاحب نے اپنے دوست میجر جنرل عمر صاحب (والد اسد عمر صاحب) کو نیشنل سیکیورٹی کونسل کا سربراہ بنایا ہوا تھا اور ان کی طرف سے صدر کو یہ رپورٹیں دی جا رہی تھیں کہ عوامی لیگ مشرقی پاکستان کی سیٹوں میں سے 60 فیصد نشستوں پر جیتے گی اور اس طرح قومی سطح پر اس کی نشستیں بہر حال پچاس فیصد سے کم ہوں گی۔ اور ہوا یہ کہ عوامی لیگ مشرقی پاکستان میں دو کے علاوہ باقی تمام نشستوں پر جیت گئی اور 160 سیٹیں جیت کر اکثریت حاصل کر گئی۔اور ایجنسیوں کے تمام اندازے دھرے کے دھرے رہ گئے۔

یہ تو حکومت کا حال تھا اور مغربی پاکستان کے اخبارات اور صحافی مغربی پاکستان کے زمینی حقائق سے بھی کتنے نا بلد تھے اس کا اندازہ اس تجزیہ سے لگایا جا سکتا ہے جو کہ انتخابات سے صرف چند روز پہلے روزنامہ نوائے وقت میں شائع ہوا تھا۔ اس اخبار کا جائزہ تھا کہ مغربی پاکستان میں پیپلز پارٹی کو 37فیصد ، جماعت اسلامی کو 35 فیصد اور دولتانہ صاحب کی کونسل مسلم لیگ کو 36فیصد ووٹ ملیں گے۔ جب نتائج سامنے آئے تو پیپلز پارٹی کو تقریبا اتنے ہی ووٹ ملے لیکن جماعت اسلامی اور دولتانہ صاحب کی کونسل مسلم لیگ مغربی پاکستان میں تین چار نشستوں سے آگے نہ بڑھ سکے۔

مارشل لاء حکومت اور اخبارات کے علاوہ خود سیاسی جماعتیں بھی زمینی حقائق سے لا علم تھیں کیونکہ حمود الرحمن کمیشن رپورٹ کے مطابق انتخابات سے پہلے خود مجیب الرحمن صاحب نے جماعت اسلامی اور کونسل مسلم لیگ کو مفاہمت کی یہ پیشکش کی تھی کہ وہ اس مفاہمت کے بدلے کچھ نشستوں پر جماعت اسلامی اور کونسل مسلم لیگ کے امیدواروں کے مقابل پر اپنے امیدوار نہیں کھڑے کریں گے۔ لیکن ان دونوں جماعتوں نے مجیب الرحمن صاحب کی اس پیشکش کو رد کر دیا تھا کیونکہ انہیں یہ امید تھی کہ وہ مشرقی پاکستان میں اس سے زیادہ نشستیں حاصل کر سکتے تھے۔اور آخر کار انجام یہ ہوا کہ عوامی لیگ نے ان دونوں جماعتوں کا صفایا کر دیا اور یہ دونوں جماعتیں مشرقی پاکستان سے ایک بھی سیٹ حاصل نہ کر سکیں۔ اگر یہ پیشکش قبول کر لی جاتی تو عوامی لیگ پاکستان بھر میں پچاس فیصد سیٹیں حاصل نہیں کر سکتی تھی ۔

اس رپورٹ کے مطابق 1971میں موجود حکومت صورت حال کا صحیح قانونی تجزیہ کرنے میں دلچسپی نہیں لے رہی تھی۔ عوامی لیگ نے یہ انتخابات چھ نکات کی بنیاد پر لڑے اور جیتے تھے۔اور انتخابات کے بعد یہ واضح ہو چکا تھا کہ عوامی لیگ پچاس فیصد سے زیادہ نشستیں حاصل کر چکی ہے۔لیکن اس وقت کی مارشل لاء حکومت عوامی لیگ کے منشور سے کتنا واقف تھی اس بات کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب انتخابات کے کافی دن بعد صدر یحییٰ خان اور شیخ مجیب الرحمن صاحب کی پہلی ملاقات کا وقت آیا اور اس کے ساتھ حکومت اور عوامی لیگ کے مذاکرات کا آغاز ہونا تھا تو اس سے ایک روز قبل صدر پاکستان کے پرنسپل سٹاف آفیسر جنرل پیرزادہ صاحب نے گورنر مشرقی پاکستان ایڈمرل احسن صاحب کو کہا کہ وہ چھ نکات کی ایک کاپی حاصل کر کے بھجوائیں کیونکہ صدر محترم مجیب الرحمن صاحب سے ملاقات سے قبل عوامی لیگ کے ان نکات پر نظر ڈالنا چاہتے ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اس قابل حکومت نے اس سے قبل ان چھ نکات کا کسی قسم کا تجزیہ کرنے کا تکلف تک نہیں کیا تھا۔ اتنی لا علمی کا نتیجہ وہی نکل سکتا تھا جو نکلا۔

ایک سیاستدانوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ ان کی طاقت کا انحصار عوام کی حمایت پر ہے۔اور انہیں ایجنسیوں کی بجائے عوام کی بصیرت پر ہی اعتماد رکھنا چاہیے۔ 1971میں مغربی پاکستان کے سیاسی لیڈر عوام کی بصیرت پر انحصار نہیں کر رہے تھے۔ جب اس انکوائری کے دوران ذوالفقار علی بھٹو صاحب سے دریافت کیا گیا کہ انہوں نے اپنے جلسوں میں چھ نکات کے خلاف کبھی بات کیوں نہیں کی تو ان کا جواب تھا کہ انہوں نے اپنے جلسوں میں اس بارے میں اس لئے بات نہیں کی کیونکہ عوام کے لئے سیاسی اور آئینی امور سمجھنا مشکل ہوتا ہے اس لئے وہ عوامی جلسوں کی بجائے چھوٹی مجالس میں اس بارے میں اظہار خیال کرتے تھے ۔ وقت نے ثابت کیا کہ جن چنیدہ مجالس میں وہ اظہار رائے کیا کرتے تھے ان کے شرکاء سیاسی صورت حال سمجھنے سے بالکل قاصر تھے۔ اسی طرح جب ان کے اور مجیب الرحمن صاحب کے مذاکرات ناکام ہو گئے تو انہوں نے اس بارے میں عوام کو اعتماد میں لینے کی بجائے پر جوش نعروں کا ماحول پیدا کرنا شروع کر دیا۔

اور حکومت کو یاد رکھنا چاہیے کہ امن عامہ برقرار رکھنا اور عوام پر تشدد اور طاقت کا بے جا استعمال بالکل مختلف راستے ہیں۔ جو آپ کو یہ مشورے دے رہا ہے کہ عوامی رائے کا مقابلہ ریاستی طاقت سے کریں ، وہ آپ کا سب سے بڑا دشمن ہے اور جب اصل مقابلہ شروع ہوگا تو یہ شخص سب سے بڑا بزدل ثابت ہوگا۔ اس رپورٹ میں درج ہے کہ جب مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن شروع ہوا تو اس وقت جنرل نیازی صاحب کبھی بنگالیوں کی نسل تبدیل کرنے کی بات کرتے تھے اور کبھی فوجیوں کو کہتے تھے راشن نہیں ہے تو کیا ہوا۔ ہم دشمن کی زمین پر ہیں تم اپنی ضروریات ان کو لوٹ کر پوری کر لو۔ لیکن جب جنگ شروع ہوئی اور تین روز بعد گورنر مالک صاحب نے جنرل نیازی صاحب کو بلایا تاکہ صورت حال معلوم کر سکیں تو اس ملاقات میں جنرل نیازی صاحب اونچی آواز میں رونے لگ گئے ۔یہاں تک کہ چیف سیکریٹری کو کھڑے ہوئے ملازم کو باہر بھجوانا پڑا۔ صاحبان اقتدار تسلی کر لیں کہ ان کے ارد گرد کوئی ایسا نمونہ تو موجود نہیں ہے۔

خاکسار موجودہ صورت حال میں ملک کی قیادت کی خدمت میں خواہ اس کا تعلق حکومت سے ہو یا اپوزیشن سے ، کچھ گذارشات پیش کرنا چاہتا ہے۔ پہلی گذارش یہ ہے کہ ان حالات میں حمود الرحمن کمیشن کی رپورٹ کا مطالعہ باقاعدگی سے کریں۔ اس سے آپ کو ایک نئی بصیرت حاصل ہو گی۔دوسرے یہ کہ کوئی قدم اٹھانے سے قبل اس کے قانونی مضمرات پر خوب غور کر لیں ۔ اور اپنے وکلا سے مشورہ کرنے سے قبل تین چار مرتبہ آئین اور قانون کے متعلقہ حصوں کا مطالعہ خود کریں ۔ کیونکہ وکلا سمجھدار ہوتے ہیں ۔ انہیں علم ہے کہ وہ بینگن کے غلام نہیں ہیں۔

اور سب سے اہم مشورہ یہ ہے کہ آپ لوگ ایجنسیوں کی رپورٹیں بھی پڑھتے ہیں، بیورو کریسی سے بریفنگ بھی لیتے ہیں ، بین الاقوامی ادارے بھی آپ کو بہت کچھ بتاتے ہیں اور اینکر حضرات کے تبصرے بھی سنتے ہیں ۔ ان سب مصروفیات سے وقت نکال کر ہمسائے کے مالی سے ، کسی پان بیچنے والے سے ، کسی دوکاندار سے ، کسی قلی سے ، کھیت میں کام کرنے والے کاشتکار سے ، کالج جاتے ہوئے کسی طالب علم سے یا کسی کلرک سے بھی ملک کے حالات پر گفتگو کر لیا کریں۔ کچھ دنوں میں آپ کو خود احساس ہو جائے گا کہ ملک کے حالات کے بارے میں آپ کی معلومات پہلے سے کافی بہتر ہو گئی ہیں۔لیکن آزمائش شرط ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments