”بوری“ بندہ کھا جاندی اے


پاکستان سرکس کا پنڈال ہے جس میں سیاستدان مسخرے ہیں اور عوام تماشبین ایسے تماشبین جنہیں وقت پڑنے پر کبھی رسیوں سے لٹکا دیا جاتا ہے کبھی بھوکے شیر کے سامنے پھینک دیا جاتا ہے۔ سرکس مالکان کا کام صرف سرکس سے حاصل ہونے والی آمدنی وصول کرنا ہے ان کو اس سے کوئی غرض نہیں ہے کہ مسخرے اور تماشبین کیا کر رہے ہیں وقت پڑنے پر جب وہ دیکھتے ہیں کہ مسخروں کا گروہ اچھی کارکردگی نہیں دکھا رہا جس سے ان کی آمدنی پر فرق پڑتا ہے تو وہ مسخروں کا نیا گروہ کے آتے ہیں اور جب ان کی کارکردگی حسب خواہش نہ ہو تو ایک مرتبہ بھر مسخرے بدل دیتے ہیں تماشبین البتہ یہی عوام رہتے ہیں اور مسخرے ان کے ساتھ اپنی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لئے جو سلوک بھی روا رکھیں جائز ہے۔

مسخرے اور مالکان دونوں مزے میں ہیں مگر جو ٹکٹ کے پیسے خرچ کر کے آئے ہیں ساری مشکلات ان کے لئے ہیں بھوک، بیروزگاری، بیماری، کم اجرت، نا انصافی، مہنگائی تشدد غرض کون سی تکلیف ہے جس سے عوام نہیں گز رہے لیکن سرکس والوں کو کوئی فرق نہیں پڑ رہا۔ آج کل تماشبینوں کی تعداد بڑھانے کے لئے مسخروں نے ایک نیا تماشا لگایا مفت آٹے کے نام پر اور سب نے دیکھا ایک چوری کے حصول کے لئے کتنے لوگوں کی جان چلی گئی اور آٹا پھر بھی نہیں ملا۔

کیا ان مسخروں کے پاس عوام کو دینے کے لئے بس یہی تکلیفیں ہیں کیا باعزت طور پر غریب کی مدد نہیں کی جا سکتی۔ غریب عوام کو سب سے زیادہ مہنگی جو چیز پڑتی ہے اس کا نام ہے ”مفت“ ۔ مفت اتنا مہنگا ہے کہ لوگوں کو اپنی زندگی بیچ کر اس کی قیمت چکانی پڑ رہی ہے۔ کراچی میں کوئی خاتون تھیں جو لوگوں کو دو روپے فی کس پر کھانا فراہم کر رہی تھیں۔ ایک صحافی نے ان سے پوچھا جو کھانا آپ دیتی ہیں اس کی کم سے کم قیمت بھی پچاس سے ستر روپے کے درمیان ہے اور دو روپے سے آپ کا کچھ بھی نہیں بنتا تو یہ کھانا آپ انہیں مفت کیوں نہیں دیتیں۔

ان محترم خاتون کا جواب تھا اگر مفت ملے گا تو پھر کھانا ضائع ہو گا لوگ لیتے جائیں گے۔ آگے انہیں بھوک ہو یا نا ہو اب اگر انہیں دو روپے دینے پڑتے ہیں تو وہ کھانے کی قدر کرتے ہیں ضائع نہیں کرتے اور زیادہ نہیں لیتے۔ خاتون کی وضاحت عوام کی نفسیات کو واضح کرتی ہے یہ بات مسخروں کو کیوں سمجھ نہیں آتی آپ آٹا مفت اتنے کھلے عام فروخت کرتے ہیں لیکن ان سفید پوشوں کی عزت نفس کا ایک لمحے کو نہیں سوچتے جو بھوک سے مر رہے ہوتے ہیں لیکن اپنی سفید پوشی اور عزت نفس کا بھرم نبھاتے ہیں۔

پچھلے دنوں کسی نے بتایا کہ ہماری لاعلمی اور بدقسمتی ہے کہ ہم اپنے آس پاس نظر نہیں دوڑاتے کہ کون کس حال میں ہے۔ میں اتوار کے دن سبزی لینے نکلا تو میرا پڑوسی جو دیہاڑی پر کام کرتا ہے بہت جھجکتے ہوئے میرے پاس آیا اور سر جھکا کر بولا بھائی آپ سبزی لینے جا رہے ہیں مجھے تھوڑے سے آلو خرید دیں ہم نے دو دن سے کھانا نہیں کھایا کہ مجھے مزدوری نہیں ملی۔ یہ وہ سفید پوش طبقہ ہے جو اپنے پڑوسی کو نہایت شرمندگی سے یہ بات بتا رہا ہے تو حکومت کو کوئی حق نہیں کہ ایسے سفید پوشوں کی شرمندگی کا سامان کرتی پھرے۔

براہ مہربانی آٹا مفت نہ دیں کم قیمت میں فراہم کریں دکانوں پر دستیاب کریں اور وافر مقدار میں فراہم کریں تاکہ عوام باآسانی خرید سکے۔ مفت آٹے کے حصول میں جو بھگدڑ مچتی ہے اس میں زیادہ تر بوریاں وہی لے جاتے ہیں جو دکانداروں کے ٹاؤٹ ہوتے ہیں اصل حقدار بہت کم پہنچ پاتے ہیں۔ دکانوں پر کم قیمت لیکن اچھا والا سامان خورد و نوش موجود ہو جو بآسانی خریدہ جا سکے۔ حکومت نے اگر کیش میں مدد کرنی ہے تو بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام موجود ہے اس کے ذریعے عوام تک پہنچے۔

ضلعی انتظامیہ ان دکانداروں کو مانیٹر کریں جن پر حکومت کی طرف سے سستی اشیا رکھی گئی ہیں ان کی کوالٹی چیک کریں اور اس نظام کو بہتر بنائیں نا کہ جگہ جگہ سستے آٹے کے نام پر موت کے پھندے نہ لگائے جائیں۔ میں نے اس پر بہت سوچا کہ جب اشیا بٹتی ہیں تو لوگ کیوں بھگدڑ مچا دیتے ہیں اس سوال کا ایک جواب جو مجھے اپنے تجربے سے ملا وہ یہ تھا کہ ملک میں بہت غربت سہی لیکن جب اشیا مفت بانٹی جاتی ہے تو اس میں ایک بڑا جتھا ”پیشہ ورانہ“ لوٹنے والوں کا ہوتا ہے جو حق دار تک اس کا حق پہنچنے نہیں دیتے اور ہڑپ کر جاتے ہیں اور دوسرا، میرا مشاہدہ یہ ہے کہ لوگ بھوک سے نہیں مرتے اس خوف سے مر جاتے ہیں کہ کیا اگلے وقت کا کھانا انہیں نصیب ہو گا یا نہیں بس اسی خوف سے وہ اپنی زندگی داؤ پر لگاتے ہیں اور ہار جاتے ہیں

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments