جرنیلی سڑک پر ہاتھیوں کی لڑائی


آریاؤں نے ہندوستان آ کر جس طبقاتی سماج کی بنیاد ڈالی وہ اب تک یہاں کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے۔ تقریباً پانچ سو سال قبل مسیح برہمنوں کی بالادستی کے خلاف اٹھنے والی سدھارتھ گوتم بدھ اور مہاویر کی تحریکوں کو مقامی لوگوں کی بھرپور حمایت رہی جو اشرافیہ کا مسلط کردہ طبقاتی سماج کے خلاف تھے جس میں ان کا درجہ کیڑے مکوڑوں سے بھی ابتر تھا۔ سدھارتھ گوتم کی بدھ مت بالا دست برہمنوں اور کھشتریوں کے خلاف سخت مزاحمت میں شکست کے بعد ہندوستان سے فنا ہو گئی تاہم مہاویر کی جین مت مفاہمت کے راستے پر چل نکلی جو بتدریج تحلیل ہو کر اب چند لاکھ لوگوں تک محدود ہو گئی ہے۔

ہندوستان کے اس طبقاتی نظام میں مسلمان فاتحین کی آمد تک پھر کوئی بڑی تبدیلی نظر نہیں آتی۔ مسلمان جب آئے تو ان کو بھی نچلی ذات کے مقامی لوگوں کی بڑی حمایت رہی۔ علی عباس جلالپوری کے بقول ہندوستان کی نچلی ذات سے تعلق رکھنے والے جولاہے جو زیادہ تر جین مت کے پیروکار بن گئے تھے اور چمار بدھ مت کے، اب مسلمان بن کر اپنی نئی مذہب میں برابری کے حق دار ہو گئے تھے۔ چمار چمڑے کا کام کرتے تھے مسلمانوں کے آنے کے بعد قصاب بن گئے جبکہ جولاہے نہ صرف مسلمان ہوئے بلکہ صحابی رسول حضرت ایوب انصاری کی نسبت سے انصاری بھی کہلانے لگے جن کا پیشہ بھی جولاہا تھا۔

مسلمان فاتحین نے جب ہندوستان میں سکونت اختیار کی تو یہاں حکمران بن گئے جو بطور بادشاہ، نواب، جاگیردار، صوبے دار اور سلاطین مقامی آبادی سے لگان، جزیہ اور دیگر واجبات وصول کرتے تھے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کے ہندوستان پر تسلط تک مسلمان اشرافیہ کی حاکمیت کسی نہ کسی شکل میں قائم رہی۔

1857ء کی بغاوت جس کو مسلمانوں نے جنگ آزادی اور انگریزوں نے غدر کا نام دیا کے بعد مغلوں کا ہندوستان مکمل طور پر ایسٹ انڈیا کمپنی کی تسلط میں آ گیا۔ جہاں اس جنگ میں انگریزوں نے اپنے مخالفین خاص طور پر مسلمان اشرافیہ کو چن چن کر چوکوں اور چوراہوں پر لٹکا دیا تھا وہاں اپنے وفاداروں یعنی مسلمانوں کی جنگ آزادی کے غداروں کو انعام و کرام سے نوازا بھی تھا۔ جب تک انگریز یہاں رہے ان سے وفاداری اور خدمت کے عوض یہی اشرافیہ بھی اقتدار، دولت اور حاکمیت کے مزے لوٹتی رہی۔

جب ہندوستان کی آزادی ناگزیر ہوئی تو مسلمانوں نے اپنے لئے ایک الگ وطن کا تقاضا کیا جس کو مسلمان اشرافیہ کی بھرپور حمایت حاصل تھی۔ آل انڈیا مسلم لیگ کے بنانے والوں میں شامل غالب اکثریت ان نوابین، تمنداروں، گدی نشینوں اور جاگیرداروں کی ہی تھی جن کو انگریزوں کے بعد اپنی مراعات اور حیثیت کی فکر لاحق ہو گئی تھی۔

بنگال کے علاوہ مشرقی پنجاب، سندھ اور شمال مغربی سرحدی ریاستوں پر مشتمل پاکستان بنا تو اس کا دارالحکومت تو کراچی میں بنا دیا گیا مگر کابینہ میں کوئی ایک ممبر بھی ان علاقوں سے نہیں لیا گیا جہاں پاکستان کی ریاست وجود میں آئی تھی۔ بانی پاکستان کی متنازع موت اور پہلے وزیر اعظم کے قتل کے بعد ایک پوری دہائی اقتدار کی کشمکش میں گزری۔ پہلا آئین 23 مارچ 1956ء میں نافذ تو ہوا مگر اس پر عمل درآمد میں پس و پیش ہوتی رہی۔ آئین کے راستے میں کوئی اور نہیں ملک کا صدر سکندر مرزا ہی حائل تھا جو انگریز فوج کا سابق افسر ہی نہیں بلکہ ان کے وفادار میر جعفر کا پڑ پوتا بھی تھا جو اب تک غداری کا استعارہ ہے۔

جنرل ایوب کے مارشل لاء کو مقامی جاگیرداروں اور اشرافیہ کی بھرپور حمایت حاصل تھی جو اب تک نظر انداز کی گئی تھی۔ صوبہ سرحد کے وزیر اعلیٰ ڈاکٹر خان کا قتل، قلات کی ریاست میں بغاوت اور سندھ میں تادیبی کارروائیاں تو جاری تھیں مگر اس کے ساتھ ہی سکندر مرزا کی سبکدوشی اور جلاوطنی سے بنگال میں بھی بے چینی پیدا ہوئی جہاں صوبائی اسمبلی نے خود مختاری کی قرار داد منظور کی تھی۔ ایوب کے مارشل لاء کا خاتمہ تو ہوا مگر اس دوران مشرقی حصے میں حقوق کے لئے اٹھنے والی تحریک علٰیحدگی کی جنگ بن گئی تھی جس میں شکست کے بعد ملک دو لخت ہوا۔

پاکستان پیپلز پارٹی کو مغربی پاکستان کی مقامی اشرافیہ کی بھرپور حمایت حاصل رہی جو ملک کے معرض وجود میں آنے کے ابتدائی سالوں میں نظر انداز کی گئی تھی۔ جہاں بھٹو نے 1973ء میں آئین بنا کر اس میں کوٹہ سسٹم کا متعارف کروا کر مقامی آبادی کو تعلیم اور روزگار کے مواقع فراہم کیا تھا وہاں زمین کی حد ملکیت میں اصلاحات کر کے اشرافیہ کو ناراض بھی کر دیا تھا۔

ملک کی افسر شاہی ہندوستان سے ہجرت کر کے آئی تھی جو اب تک عسکری اور سول اداروں کو چلا رہی تھی وہ آئین اور بھٹو کی پیپلز پارٹی سے نالاں تھی جس کی وجہ سے اس کے اختیارات کم ہوئے تھے۔ ضیاء الحق کے مارشل لاء میں اشرافیہ کے ساتھ سول افسر شاہی کا کردار بھی نمایاں رہا۔ اسی سول و فوجی افسر شاہی نے ہی سندھ کے شہری علاقوں میں آباد متوسط طبقے کی سیاسی طاقت مہاجر قومی موو منٹ ہی نہیں بنائی بلکہ ضیاء الحق کی بنائی مسلم لیگ بھی مشرقی پنجاب سے ہجرت کر کے لاہور میں آ بسے نواز شریف کی گود میں ڈال دی جس کو توانا کرنے کے لئے قومی خزانے کا منہ کھول دیا گیا۔

بھٹو کے عدالتی قتل کے بعد ان کی بیٹی بے نظیر بھٹو کی سیاست میں واپسی بھی طبقہ اشرافیہ کے شراکت اقتدار سے ساتھ مشروط رہی۔ 1988ء میں برسراقتدار آنے والی پیپلز پارٹی 1977ء والی مزدوروں اور کسانوں کی جماعت سے مختلف تھی جس میں اب وہ گنتی کے چند ہی رہ گئے تھے۔

پیپلز پارٹی میں جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کی بھرپور نمائندگی کے باوجود اشرافیہ خصوصاً تاجروں اور صنعت کاروں کا اعتماد اس پر بحال نہ ہوسکا۔ نواز شریف کو پاکستان کے شہری علاقوں اور خاص طور پر وسطی پنجاب کے شہروں میں صنعت کاروں، تاجروں اور متوسط طبقے میں زبردست پذیرائی رہی جہاں اب پیپلز پارٹی بتدریج گھٹ کر چند حلقوں تک محدود ہو گئی تھی۔ بے نظیر بھٹو اپنی تمام تر مفاہمت کے باوجود اقتدار میں مدت کبھی بھی پوری نہ کر سکی۔

نواز شریف کو اقتدار میں لانے کے لئے پاکستان کے عسکری اور سول اداروں نے آئینی حد سے بڑھ کر کردار صرف اس لئے ادا کیا تھا کہ وزیر اعظم کی کرسی پر ایک ایسے شخص کی ضرورت تھی جو یس سر کہہ کر صرف دستخط کرنا جانتا ہو، پڑھنا، لکھنا یا بولنا نہیں۔ مگر بہت جلد ہی میاں شریف کے بیٹے کو بھی ’نو‘ کہنا آ گیا یا کہنے کی جرات پیدا ہوئی تو فارغ کر کے بے نظیر بھٹو کو واپس لایا گیا، مگر مدت اس کی بھی پوری نہ ہو سکی۔ 1999ء میں تیسری بار نواز شریف کو لمبے عرصے کے لئے بھیج دیا گیا تو اس کے متبادل کی تلاش ہی نہیں تراش بھی ہوئی۔

عمران خان نہ صرف مشرقی پنجاب سے آباد ہوا مہاجر تھا بلکہ پشتینی نسبت سے وہ مقامی بھی تھا اور پھر پڑھی لکھی مڈل کلاس میں اپنے وجیہہ شکل و صورت کی وجہ سے دیوتا بھی مانا جاتا تھا۔ اکسفورڈ سے پڑھنے کے باوجود فلسفہ، تاریخ، سیاسیات اور سماجیات جیسے علوم سے کوسوں دور تھا جو انسانی ذہن کو سوال اٹھانے اور جواب تلاش کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ عمران خان کو نواز شریف کے متبادل یا پاکستان کے اشرافیہ اور خصوصاً سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے خیرخواہ کے طور پر لایا گیا تو اس کے ہاتھ میں بھی مذہب، قوم پرستی اور قومی غیرت کا چورن دیا گیا۔ نواز شریف کو اسی چورن کو بیچنے کے لئے اسلامی جمہوری اتحاد بنا کر دی گئی تھی اور عمران خان کے لئے پاکستان دفاع کونسل کام آ گئی۔ تاہم عمران خان نے اس کونسل میں خود براہ راست شمولیت سے گریز کیا۔ نواز شریف کے لئے مہران بنک کو استعمال کیا گیا تھا عمران خان کے لئے مشرف کے دور میں راتوں رات تیار ہوئے جہانگیر ترین، ملک ریاض اور علیم خان جیسے اے ٹی ایم کام آئے۔

گورنمنٹ کالج لاہور کا پڑھا ہوا نواز شریف کٹھ پتلی نہ بن سکا تھا تو ایچی سن اور اکسفورڈ سے پڑھ کر عمران خان تادیر محض مہرہ کیسے بنا رہتا، خالقوں سے اختلاف ہوا وہ بھی انتہائی شدید۔ اس بار اختلاف صرف اختیار کے لئے ہی نہیں تھا بلکہ مدمقابل کو زیر نگین کرنے کی جنگ بھی تھی۔ بساط بچھی مہرے سجے، گھوڑے ہاتھی اور پیادوں کی وہی چالیں مگر اب کے شہ مات اتنی آسان نہیں۔

اب کی جو بساط جرنیلی سڑک پر لاہور اور اسلام آباد کے قلعوں کے لئے بچھائی گئی ہے اس میں عام گھوڑے ہاتھی نہیں بلکہ آمنے سامنے پورس کے ہاتھی کھڑے ہیں۔ ان ہاتھیوں کے مہاوتوں کے ہاتھ پر اٹھائے نیزوں پر آئین کا مقدس صحیفہ بھی رکھا ہوا ہے جس کے تقدیس کی سب نے قسم اٹھا رکھی ہے جبکہ اس کی تضحیک کے بغیر فتح بھی ممکن نہیں۔

عام آدمی اپنی روزمرہ زندگی میں ہاتھیوں کی اس لڑائی میں گھاس کو پہنچے نقصان سے ہوئی گرانی کے باوجود لاتعلق ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ جرنیلی سڑک پر جب بھی ہاتھیوں میں تصادم ہوا ہے نقصان ہمیشہ دھرتی کا ہی ہوا ہے۔

علی احمد جان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

علی احمد جان

علی احمد جان سماجی ترقی اور ماحولیات کے شعبے سے منسلک ہیں۔ گھومنے پھرنے کے شوقین ہیں، کو ہ نوردی سے بھی شغف ہے، لوگوں سے مل کر ہمیشہ خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہر شخص ایک کتاب ہے۔ بلا سوچے لکھتے ہیں کیونکہ جو سوچتے ہیں, وہ لکھ نہیں سکتے۔

ali-ahmad-jan has 278 posts and counting.See all posts by ali-ahmad-jan