اسلاموفوبیا کے خلاف عالمی دن اور یورپ میں اسلامک سنٹرز کی ذمہ داریاں


اسلاموفوبیا کے خلاف عالمی دن آیا اور گزر بھی گیا۔ اس سال پہلی دفعہ اقوام متحدہ میں اس دن کو منایا گیا۔ ایک اعلی سطحی اجلاس منعقد ہوا جس کے معاون میزبان میں پاکستان کا نام بھی شامل ہے۔ وزیر خارجہ بلاول بھٹو نے بہترین انداز میں اسلامو فوبیا کے ایشو کو اجاگر کیا۔ لیکن جب ہم اس دن کی مناسبت سے یورپی و مغربی ممالک میں موجود اسلامی تنظیمات یا اسلامی مراکز پر نظر دوڑاتے ہیں تو ایسا کوئی قابل ذکر پروگرام، کانفرنس، کنونشن یا سیمینار اس دن کی مناسبت سے دیکھنے میں نہیں آیا۔

حالانکہ اگر دیکھا جائے توان ممالک میں مقیم مسلمان ہی اس فوبیا کا سب سے بڑا شکار ہوتے ہیں۔ عالمی سطح پر ہونے والی کانفرنسز میں، برما، کشمیر، روہنگیا، فلسطین اور شام جیسے ممالک میں موجود مسلمانوں کے عالمی مسائل پر بات تو ہوتی ہے لیکن جن مسائل کا سامنا مغربی ممالک میں موجود مسلمانوں کو اپنے روزمرہ کے معاملات میں ہوتا ہے۔ جس نفرت اور تعصب کاوہ ہر روز نشانہ بنتے ہیں۔ ان کے لئے تو ضروری ہے کہ مقامی سطح پر بھی یہ دن بھر پور طریقے سے منایا جاتا۔

پندرہ مارچ کو اسلامو فوبیا کے خلاف دن منانے کا اعلان گزشتہ سال اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایک قرارداد کی منظوری کے بعد کیا تھا۔ یہ قرارداد اقوام متحدہ میں پاکستان کے مندوب منیر اکرم نے او آئی سی کی معاونت سے پیش کی تھی۔ پندرہ مارچ کی تاریخ 2019 ءمیں ہونے والے سانحہ کرائسٹ چرچ کی یاد میں رکھی گئی جب نیوزی لینڈ کی دو مساجد میں ایک سفید فام دہشتگرد نے فائرنگ کر کے 51 نہتے نمازیوں کو شہید کر دیا تھا اور 44 نمازی زخمی ہو گئے تھے۔

یہ سہرا بھی پاکستان کے سر ہی جاتا ہے جب سال 2020 ءمیں اقوام متحدہ کے 75 ویں اجلاس میں سابق وزیر اعظم عمران خان نے اس دن کو منانے کی تجویز پیش کی تھی۔ ہم اس دن کو عالمی سطح پر منوانے میں کامیاب تو ہو گئے ہیں لیکن اب یہ یورپ و غیر مسلم ممالک میں موجود اسلامی تنظیمات کا فرض بنتا ہے کہ وہ ان ممالک میں مسلمانوں کے خلاف پھیلائے جانے والی نفرت، امتیاز، میڈیا پراپیگنڈہ اور تعصب کو اجاگر کریں

اسلامو فوبیا کے بارے مقامی سیاسی و سماجی قیادت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ان مسائل کے بارے آگاہ کرنا تو مقامی سطح پر موجود تنظیمات ہی کر سکتی ہیں۔ مثلاً ً یہ مسائل کون سے فورم پر ڈس کس ہوں گے کہ یورپی اداروں کی رپورٹس کے مطابق یورپ میں موجود اسلامو فوبیا میں دن بند اضافہ ہو رہا ہے۔ مغربی ممالک میں موجود مسلمانوں کی عبادت گاہوں پر حملے، ان کی مذہبی شناخت پر برائے راست تنقید یا آن لائن دھمکیوں کا دیا جانا، تعلیم، روزگار، کرائے پر مکان اور مختلف سروسز میں امتیازی سلوک کا سامنا ہونا۔

پولیس، عدالتوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے امتیاز اور تعصب کا برتاؤ، میڈیا میں ان پر دہشتگردی کا پراپیگنڈہ اور سب سے بڑھ کر ایسی سیاسی جدوجہد کا مقبول ہونا جو میناروں والی مساجد کی پابندی، حجاب پر پابندی جیسے ایشو چھیڑ کر مسلمانوں کے خلاف زہر پھیلانے کا سبب بنتے ہیں اور یہ نفرت عام شہری تک منتقل کر دیتے ہیں۔

سوشل میڈیا اور مین سٹریم میڈیا پر مسلمانوں کے خلاف پھیلائے جانے والی مہم کا ہی نتیجہ ہے کہ اسلاموفوبیا کے متعلق شائع ہونے والی مختلف رپورٹس کے مطابق یورپی شہری یہ خیال کرتے ہیں کہ مسلمان تارکین وطن ان ممالک میں اس لئے آرہے ہیں کہ وہ ان کے ممالک پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔ 32 فیصد برطانوی شہریوں کا خیال ہے کہ برطانیہ میں کچھ ایسے نو گو ایریاز ہیں جہاں پر شریعت کے قوانین لاگو ہوچکے ہیں۔ تینتالیس فیصد لوگ مسلمانوں کی مساجد اپنے علاقے میں نہیں بننے دینا چاہتے۔ 47 فیصد برطانوی شہری نہیں چاہتے کہ ان کا کوئی فیملی ممبر مسلمان ہو جائے۔ جبکہ اٹلی میں یہ شرح 51 فیصد ہے۔ ایسے میں اس متعصب رویے کا توڑ کرنے کے لئے مقامی اسلامی تنظیمات کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا جو ایک مثبت ڈائیلاگ کے ذریعے ہی ممکن ہے

ابھی بھی دیر نہیں ہوئی کیونکہ مارچ کا مہینہ ابھی گزرا نہیں ہے اور رمضان المبارک کا مہینہ شروع ہو چکا ہے۔ مکالمے کا آغاز کرنے کے لئے اس سے بہتر مہینہ اور کون سا ہو سکتا ہے۔ یورپ میں وسیع القلب اور سیاسی بصیرت رکھنے والے مسلمان اسکالرز مقامی کمیونٹی سے بہتر تعلقات استوار کرنے کے مختلف پراجیکٹ تشکیل دیتے رہتے ہیں ان پراجیکٹس میں سب سے اہم پراجیکٹ یہ ہے کہ وہ گاہے بگاہے اپنی مساجد میں اوپن ڈے کے نام سے دنوں کو اہتمام کرتے ہیں جس میں علاقہ میں رہنے والی غیر مسلم کمیونٹی کے علاوہ، سیاسی و سماجی شخصیات، مقامی انتظامیہ کے عہدیداران اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افسر ان کو اپنی مساجد میں بلاتے ہیں۔

ایسے دنوں کے اہتمام سے کئی مقاصد حاصل کیے جا سکتے۔ سب سے پہلے تو دعوت و تبلیغ کا دینی فریضہ سر انجام دیا جا سکتا ہے اور اس کے ساتھ مسلمانوں کے بارے رائے عامہ کو تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ اپنے دوستوں، اپنے ہمسایوں اور شہریوں کو مساجد کا وزٹ کروا کے اور بچوں کے دل میں مسلمانوں کی مسجد کا احترام پیدا کیا جا سکتا ہے۔

ہمارے پاکستانی اسلامک سنٹرز کے منتظمین کو چاہیے کہ وہ ہر سال پندرہ مارچ کو اپنی مساجد کے دروازے سب کے لئے کھولنے کا اعلان کریں جس میں مقامی یورپی میڈیا، علاقائی انتظامیہ، چرچ اور دیگر مذاہب کے لوگوں کو دعوت دیں۔ اسی طرح ہر رمضان میں افطار کا وقت سب سے بہترین وقت ثابت ہو سکتا ہے۔ جب مقامی لوگ آپ کو ، آپ کی مسجد کو ، رمضان جیسی ایثار والی روایات کو قریب سے جان لیں گے، جب آپ سے ان کا تعارف ہو جائے گا جب آپ کی عزت ان کے دل میں گھر کر جائے گی تو یقین مانیں اسلام اور مسلمانوں کے بارے ان کے تحفظات دور ہوجائیں گے پھر وہ سنی سنائی باتوں پر یقین نہیں کریں گی پھر دہشت گردی کی محض خبریں ان کی رائے تبدیل نہیں کر سکیں گی جب اس مقدس مہینے وہ آپ کے قریب ہوں گے تو وہ نہ صرف مسجد اور رمضان کے بارے میں جان سکیں گے بلکہ اسلام کے بارے جاننے کی کوشش بھی کریں گے رمضان نہیں تو کم ازکم عید کے دن ہی اپنے دلوں کے اور اپنی مساجد کے دروازے کم از کم سال میں ایک دن کے لئے سب لوگوں کے لئے کھول دیجئے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments