مظلوم آئین، زور آور سیاست دان


ملک کے دو اعلیٰ ترین آئینی عہدوں پر سرفراز دو افراد یعنی صدر مملکت عارف علوی اور وزیر اعظم شہباز شریف کے درمیان خط کتابت سے اگر آئینی بالادستی کا سوال بدستور تشنہ جواب رہے تو گزشتہ شب لاہور کے جلسہ عام میں تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اور آج پارٹی کارکنوں سے خطاب میں مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر و چیف آرگنائزر مریم نواز کی گفتگو کو پرکھ لیا جائے۔ اس وقت گھر کا چولہا جلانے کی جد و جہد کرنے والے غریب خاندانوں کے علاوہ اگر ملک میں کوئی سب سے زیادہ مظلوم ہے تو وہ آئین پاکستان ہے۔

صدر علوی نے دو روز پہلے وزیر اعظم کو توہین عدالت اور آئین شکنی کے الزامات سے بچنے کا راستہ دکھایا تھا تو آج شہباز شریف نے جوابی مکتوب میں صدر کے خط کو تحریک انصاف کی پریس ریلیز کا نام دیتے ہوئے عارف علوی کے متعدد غیر آئینی طریقوں کا حوالہ دیا ہے۔ اگر معزز عہدوں پر فائز ان منصب داروں کی باتوں کو درست مان لیا جائے تو ان دونوں کو ان عہدوں پر فائز رہنے کا کوئی حق نہیں ہے جن پر وہ براجمان ہیں۔ آئین ایک مقدس دستاویز ہے جو کسی قوم کو ملاتی ہے۔ یہ ایک ایسا عہد نامہ ہے جس کے تحت سب قانون کا احترام یقینی بنانے کا عہد کرتے ہیں اور اس سے تجاوز کرنے والوں کو ملکی عدالتی نظام کے تحت مناسب سزا دی جاتی ہے۔ لیکن حالیہ سیاسی چپقلش کے ماحول میں آئین کو ایک ایسا ہتھکنڈا بنا لیا گیا ہے جس کے ذریعے ہر شخص دوسرے کو ملک دشمن اور غدار قرار دے کر اقتدار اور امور مملکت پر اپنا حق ثابت کرنے کا دعویٰ کرنا ضروری سمجھا جاتا ہے۔

ملک میں جو آئین نافذ ہے اور بظاہر سب سیاست دان اور ادارے جس کے احترام کا اعلان کرتے اور اس کی بالادستی کے لئے ہر قربانی دینے کے عزم کا اظہار کرتے رہتے ہیں، اس کے تحت ملک کی پارلیمنٹ سب سے با اختیار ادارہ ہے اور عدالتوں سمیت سیاست دانوں اور عام شہریوں کو وہاں ہونے والے فیصلوں کی پابندی کرنی چاہیے۔ لیکن جیسے ملک میں آئین کو مظلوم بنا دیا گیا ہے ویسے ہی پارلیمنٹ کو بے اختیار اور ایک ایسے ڈبیٹنگ کلب میں تبدیل کر دیا گیا ہے جہاں ہونے والی باتوں کو کوئی وقعت نہیں دی جاتی۔ پارلیمنٹ قانون بناتی ہے تو سپریم کورٹ کے جج اپنے ’آئین‘ کی میزان پر اسے پرکھنے کا اہتمام کرتے ہیں۔ اور جن لوگوں کو عوام نے منتخب کر کے پارلیمنٹ کے ذریعے قومی مسائل حل کرنے کا حق تفویض کیا، وہ کبھی بعض سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے اسمبلی سے استعفے دیتے ہیں اور جب وہ کسی پشیمانی میں واپس آنے کی خواہش کا اظہار کرتے ہیں تو حکومت انہیں واپسی کا راستہ دینے سے گریز کرتی ہے تاکہ اہم تقرریوں اور فیصلوں میں ان عناصر سے مشاورت نہ کرنا پڑے گی جن سے براہ راست اقتدار کی جنگ میں مقابلے بازی کا سامنا ہے۔

ہمارے سیاست دان خواہ وہ اقتدار پر قابض ہوں یا اقتدار پر قبضہ کی جد و جہد کر رہے ہوں، فریق مخالف کے ہاتھ پاؤں باندھ کر تن تنہا جمہوریت کا علم لہراتے خود کو واحد حل کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ حکمران اتحادی جماعتوں کے نزدیک عمران خان فتنہ اور شر پسند ہیں اور عمران خان کے خیال میں اقتدار پر قابض لوگ ایسے جرائم پیشہ افراد کا ٹولہ ہے جو ملک و قوم کو تباہ کرنے کا عزم کیے ہوئے ہے۔

ملکی سیاسی زعما مخالفین کے ہاتھ پاؤں باندھ کر اکھاڑے میں اترنا چاہتے ہیں تاکہ وہ ہاتھ بلند کر کے اعلان کرسکیں کہ ان کا مد مقابل تو پہلے ہی ڈھیر ہو چکا ہے۔ لیکن کسی کو یہ بتانے کا حق نہیں دیتے کہ ایسا طریقہ اخلاقی، قانونی، آئینی اور جمہوری اصولوں سے متصادم ہے۔ عمران خان جب اسٹبلشمنٹ کی انگلی پکڑ کر نواز شریف کو سیاست سے نا اہل کروانے کے عمل کا باقاعدہ حصہ بنے ہوئے تھے تو اسٹبلشمنٹ کی نت نئی خوبیاں ان پر عیاں ہو رہی تھیں۔ البتہ جب ایک پیج کے نام سے قائم ہونے والے ان تعلقات میں دراڑ پڑنے لگی تو اب وہ اسٹبلشمنٹ ہی کو پاکستان کے سب مسائل کی جڑ قرار دیتے ہیں۔ اس کے باوجود ان کی جد و جہد ان عناصر کے خلاف ہی ہے جو اس وقت ان کے خیال اسٹبلشمنٹ کے چہیتے بن گئے ہیں۔ فوج کی آئین شکنی پر وہ ایک لفظ بھی بولنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔

گزشتہ رات مینار پاکستان لاہور میں منعقد ہونے والے جلسہ سے عمران خان کا خطاب، ان کے اس رویہ کی منہ بولتی تصویر سامنے لاتا ہے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ اسٹبلشمنٹ انہیں اقتدار میں واپس دیکھنا نہیں چاہتی۔ طویل تقریر کے دوران انہوں نے اسٹبلشمنٹ کو پیش کش کی کہ اگر انہیں بتا دیا جائے کہ اس کے پاس ملک کو درپیش مسائل حل کرنے کا کیا پلان ہے تو وہ خاموشی سے علیحدہ ہوجائیں گے۔ لیکن چونکہ وہ جانتے ہیں کہ اسٹبلشمنٹ کے پاس کوئی پلان نہیں ہے بلکہ وہ نا اہل بدعنوان ٹولے کو ملک پر مسلط کر کے ملک کی تباہی کا سامان بہم پہنچا رہے ہیں، اس لیے انہیں ’مجبوراً‘ سیاست میں حصہ لینا پڑا ہے۔

خود کو ملک کی سب سے مقبول پارٹی کا لیڈر قرار دینے والے اس شخص کی باتوں کا جائزہ لیا جائے تو پوچھا جاسکتا ہے کہ اس میں آئین کا احترام اور اس پر عمل کرنے کی خواہش کہاں ہے؟ فوج نے بلاشبہ ملکی سیاست پر تسلط قائم رکھا ہے لیکن کوئی اس طریقہ کو غیرآئینی کہنے کا حوصلہ نہیں کرتا۔ اعلیٰ عدالتوں کے ججوں نے مختلف ادوار میں شخصی مجبوریوں، کمزوریوں یا خوف کی وجہ سے فوجی لیڈروں کے اقدامات کو آئینی جواز فراہم کیا تھا لیکن بعد از وقت بھی کبھی ان ججوں سے پوچھا نہیں جا سکا کہ انہوں نے وہ اختیار کیوں کر غیر آئینی اقدام کرنے والے کسی فوجی کمانڈر کے حوالے کر دیا جو خود ان کے پاس بھی نہیں تھا۔ یا کوئی قانون دان ملکی آئین کی کسی ایسی شق کا حوالہ دے جس میں آئین سپریم کورٹ کو مخصوص حالات میں آئینی ترامیم کا حق کسی بھی لیڈر کو تفویض کرنے کا حق دیتا ہے۔

اب عمران خان اسٹبلشمنٹ کو ’للکارتے‘ ہوئے اگرچہ یہ ظاہر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جیسے وہی فوج کی سیاسی غلط کاریاں درست کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں لیکن درحقیقت اس للکار میں یہ درخواست پنہاں ہے کہ ’برائے مہربانی مجھے خدمت گزاری کا ایک موقع عطا کیا جائے۔ میں اس بار آپ کو مایوس نہیں کروں گا‘ ۔ ورنہ وہ جو حق اپنے سیاسی مخالفین کو بھی دینے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ اگر ان کے پاس معاملات حل کرنے کا بہتر حل موجود ہے تو وہ ان کے ساتھ تعاون پر آمادہ ہیں، وہی حق کس قانون یا آئینی اختیار کے تحت وہ اسٹبلشمنٹ کو تفویض کرنے کی پیش کش کر رہے ہیں؟ کیا عمران خان کا یہ بیان آئین کی واضح خلاف ورزی نہیں ہے۔ لیکن جس طرح جنرل باجوہ جیسے فوجی لیڈروں کے غیر آئینی اقدامات کے برملا اعتراف کے باوجود سپریم کورٹ کے جج مہر بلب اور آئین و قانون کے سارے راستے مسدود ہیں، اسی طرح ایک سیاسی لیڈر کی طرف سے اسٹبلشمنٹ کو کھلم کھلا شراکت اقتدار کی پیش کش کو بھی سیاسی بیان قرار دے کر شیر مادر قرار دیا جاسکتا ہے جسے ہضم کر لینے سے آئینی خلاف ورزی نہیں ہوتی۔

عمران خان اگر واقعی حکومتی تجربہ کے بعد یہ سبق سیکھ چکے ہیں کہ فوجی قیادت اپنی مرضی کے مطابق سیاست دانوں کو کل پرزے کے طور پر استعمال کرتی ہے اور مقصد پورا ہونے کے بعد انہیں نکال باہر کرتی ہے تو وہ اسٹبلشمنٹ سے گلے شکوے کرنے اور اس کی اعانت حاصل کرنے کی کوششیں نہ کرتے بلکہ ملک کے دیگر سیاست دانوں سے اس ایک نکتہ کی بنیاد پر مذاکرات کی پیش کش کرتے کہ ملک میں آئینی انتظام بحال کیا جائے گا۔ کسی صورت کسی فوجی لیڈر کی مرضی یا عدالتی فیصلہ کو خلاف آئین اقدام کا حق نہ دیا جائے اور میثاق جمہوریت کی طرز پر کسی ایسے معاہدے کے لیے کام کرتے جس میں سب سیاست دان یا پارٹیاں اپنے فائدے یا اقتدار کے لیے کبھی، کسی بھی ادارے کے کسی غیر آئینی اقدام کا حصہ نہ بننے کا عہد کرتیں۔

عمران خان اگر واقعی قانون کی بالادستی اور جمہوری نظام کی سربلندی کے لیے کام کرنے کی خواہش رکھتے ہیں تو انہیں اسٹبلشمنٹ کو رجھانے کی بجائے نواز شریف اور آصف زرداری سے سیاسی مذاکرات کی پیشکش کرنی چاہیے۔ لیکن وہ انہیں عناصر کو اپنا ہی نہیں بلکہ ملک و قوم کا دشمن قرار دیتے ہیں جو جمہوری جد و جہد میں ان کے دست و بازو بن سکتے ہیں۔ تاہم اس کے لیے شرط ہے کہ عمران خان واقعی ملک میں جمہوریت کی جنگ لڑنا چاہتے ہیں۔

انتخابات واقعی جمہوری عمل کا واحد موثر طریقہ ہے اور کسی بھی سیاسی جماعت یا منتخب حکومت کو انتخابات کے حوالے سے لیت و لعل سے کام نہیں لینا چاہیے۔ لیکن اگر کوئی سیاسی لیڈر انتخابات کو اسٹبلشمنٹ کی سرپرستی حاصل کرنے کے لئے سیڑھی کے طور پر استعمال کرنا چاہتا ہو اور فوج کو یہ پیغام بھیج رہا ہو کہ اس سے تعاون کیا جائے کیوں کہ اسے اس وقت عوام میں مقبولیت حاصل ہے تو ایسے انتخابات کو کن معنوں میں جمہوری کہا جائے گا اور ان سے کیسے آئینی تقاضے پورے ہو سکیں گے؟

دوسری طرف مریم نواز بھی انتخابات کو جمہوری عمل کا اہم ترین طریقہ قرار دیتے ہوئے دعویٰ کر رہی ہیں کہ مسلم لیگ (ن) انتخابات سے فرار نہیں چاہتی بلکہ وہ انتخابات میں حصہ بھی لے گی اور انہیں جیت کر بھی دکھائے گی۔ لیکن اسی سانس میں وہ یہ مطالبہ کرنے سے گریز نہیں کرتیں کہ پہلے انصاف کے دونوں پلڑے برابر کیے جائیں۔ یعنی پہلے نواز شریف کے خلاف کیے گئے سارے فیصلے کالعدم قرار دے کر سب سیاسی لیڈروں کو انتخابات میں مقابلہ کا یکساں موقع فراہم کیا جائے۔ نواز شریف کو اپنے خلاف ہونے والی نا انصافی کا مقابلہ کرنے کا پورا موقع ملنا چاہیے۔ وہ ملک میں مروج نظام کے تحت اس سلسلہ میں ضرور جد و جہد کر سکتے ہیں لیکن مریم نواز کس آئینی جواز کی بنیاد پر کسی ایسے عدالتی نظام کو انتخابات کی شرط کے طور پر پیش کر سکتی ہیں جس میں ان کے مخالفین کی گرفت کی جائے لیکن مسلم لیگ (ن) کے سات خون معاف کر دیے جائیں۔

آئین کی بات کرنے والے لیڈر جب آئین کو گروہی سہولت کاری کے لیے استعمال کریں گے اور آئین پر شب خون مارنے والی قوتوں کے خلاف مل کر جد و جہد کرنے کا اہتمام نہیں کریں گے، اس وقت تک ملک میں آئینی بالادستی، قانون کی حکمرانی یا جمہوری نظام کے نفاذ کا خواب دیکھنا ممکن نہیں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2767 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments