صفدر زیدی کا ناول: بنت داہر



دنیا میں ہمیشہ فاتح اور غالب قوموں کی تاریخ لکھی جاتی ہے۔ ان کے نظریات مغلوب قوموں پر ٹھونس دیے جاتے ہیں۔ مغلوب قوم کی تاریخ، تہذیب و تمدن، ثقافت، طور طریقے اور روایات کو اس طرح غالب قوم غائب کرتی ہے جس طرح پانی ریت میں غائب ہو جاتا ہے۔ یہی کچھ سندھ کے ساتھ بھی ہوا، جب عربی حملہ آور یہاں آئے تو انہوں نے اپنی تاریخ و تہذیب یہاں لا کر سندھ و ہند کی تاریخ اور ان کی روایات کو مٹانے کی ہر ممکن کوشش کی۔

نیچے تصویر ”بنت داہر“ ناول کی ہے جو صفدر زیدی نے فکشن میں مفتوح اور مغلوب قوم سندھ کی تاریخ لکھ ڈالی ہے جو اس قدر دلکش اس خوبصورت پیرائے میں لکھی گئی کہ ایک بار کتاب کھل کے پھر بند کرنے کو دل نہیں کرتا۔ ویسے تو یہ ایک ناول ہے جو 334 صفحات پر مشتمل ہے لیکن ناول کے اندر سندھ اور عرب کی تاریخ، نفسیات، صحرائی لوگوں کے جنگی طور طریقے، مذہب، عادات و اطوار، روایات و درایات حتی کہ جنسی معاملات کو بھی زیر بحث لایا ہے۔ صفدر زیدی صاحب نے جس انداز سے سندھ اور عرب کے تصور جمالیات کو زیر تبصرہ لایا ہے عقل دنگ رہ جاتی ہے۔

ناول 58 حصوں پر مشتمل ہے۔ پورا ناول مکالمہ کے انداز میں لکھا گیا ہے۔ پڑھتے پڑھتے ناول آپ کے ذہن میں دسیوں سوالات چھوڑ جاتا ہے۔ آغاز بنو امیہ کے خلیفہ ولید بن عبدالمالک اور حجاج بن یوسف کے مکالمے سے کرتا ہے۔ خلافت کی مخالفت کرنے والے تمام کرداروں کے قتل عام اور ان کی بیٹیوں کو کنیزیں بنا کر خلیفۃ المسلمین اور دیگر فوجی کمانڈروں کی خوب گاہوں کی زینتیں بنانے کی کہانی ہے۔ جیسے جیسے آپ اگے بڑھتے ہیں اس قدر مزا دوبالا ہوتا جاتا ہے۔ دریائے سندھ کے کنارے تعمیر کردہ محلات کے حکمران راجہ داہر اور اس کی بیٹی ”راج کماری“ کا تذکرہ آتا ہے۔ مجھے سب سے زیادہ مزا پورے ناول میں محمد بن قاسم اور راج کماری کے درمیان مکالمہ کا آیا۔ اور بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔

سندھ پر عرب حملے کے وقت یہاں پر مختلف مذاہب کے لوگ جیسا کہ زرتشتی، بدھ ازم، جین ازم اور ہندو ازم کے ساتھ ساتھ دیگر مذاہب کے لوگ امن و آشتی کے ساتھ زندگی گزار رہے تھے۔ جنگ و جدل کے جذبات کسی کے تصور میں بھی نہیں تھے۔ راجہ داہر کی بیٹی راج کماری نے سندھ و ہند میں موجود تمام مذاہب کی تعلیم حاصل کی تھی حتی کہ اسلام کا بھی انہیں پورا علم تھا۔

عربی جنگوں کا طریقہ یہ ہوتا تھا کہ جہاں بھی جاتے تھے مفتوحہ علاقوں کی لڑکیوں کو کنیزیں بنا کر ان اپنی جنسی خواہشات پوری کرتے تھے، مفتوحہ علاقوں کے سرداروں کی بیٹیاں اور بیویاں خلیفۃ المسلمین کو بھیجی جاتی تھیں کوئی اور ان کو اپنی خواب گاہ میں لانے کا تصور نہیں کر سکتا تھا۔ عرب سپاہیوں کا نطفہ مفتوح اقوام کی عورتوں کے رحموں میں جا ٹھہرتا ہے تو ان کی نسلیں بدل جاتی ہیں۔ پھر ان ماؤں کی گود میں عرب شہ سواروں کی اولادیں پرورش پاتی ہیں۔ تب ان اقوام میں ہمت نہیں رہتی کہ بغاوت کے لیے سر اٹھا سکیں۔ یا ان عربوں سے آنکھ ملا سکیں۔

سندھ پر عربی حملے کے بعد راج کماری جو راجہ داہر کی بیٹی تھی کو بھی قیدی بنا لی گئی تھی۔ تاریخ میں تو راج کماری کے ساتھ محمد بن قاسم رات گزار کر خلیفہ کو بھیجی تھی لیکن ناول میں اس کی جگہ کسی دوسری خاتون کو راج کماری بنا کر خلیفہ کے پاس بھیجی گئی ہے۔ راج کماری سندھ میں محمد بن قاسم کے ساتھ محل میں کئی سال گزارتی ہے۔ ان دونوں کے درمیان مکالمہ اس قدر اہمیت کا حامل ہے کہ میں فیصلہ نہیں کر پا رہا کہ کون سی بات کو تحریر کی زینت بنا دو؟ بن قاسم راج کماری سے سیکھنے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے۔ یوگا کرتے ہوئے راج کماری کے جسم کا بن قاسم بغور مشاہدہ کرتا ہے۔ ان کو اپنے خیالات میں بساتی ہے۔

مکالمے سے کچھ باتیں جو مجھے یاد ہے وہ لکھنے کی جسارت کر رہا ہوں۔

سندھو دریا کے کناروں پر بسنے والی تہذیب میں عورت کی چھاتیوں کی بہت عزت و احترام ہے۔ یہ چھاتیاں زندگی اور اچھی فصل کی علامت ہیں۔ میری دو ٹانگوں کے درمیان جگہ تم سے ذرا سی مختلف ہے یہ مقام عورت کے جسم کا سب سے مقدس مقام ہے۔ سناتن دھرم میں مرد کی ٹانگوں کے بیچ میں موجود عضو کو پوجا جاتا ہے۔ اسی عضو اور عورت کے اس حسین وادی کی مدد سے خدا نے انسان کو تخلیق کیا۔ تمھاری ثقافت ( عربی ثقافت ) میں تخلیق کے اس محرک اعضاء کو شرم گاہ کا نام دیا گیا ہے۔ حالانکہ شرم تو انسانوں کے ساتھ روا رکھے گئے ناگوار رویے سے ہونی چاہیے اعضاء سے نہیں۔

سندھ نے ہمیشہ پیغمبروں، اوتاروں اور بھگوانوں کا احترام کیا ہے۔ حسین ( رضہ ) اگر یہاں آتے تو جیسے بدھ کو سندھ والوں نے بھگوان مانا، ویسے ہی حسین بھی سندھیوں کے بھگوان ٹھہرتے۔

راج کماری کا جنسی معاملات پر بھی عربی نوجوان کمانڈر سے کافی دلچسپ مکالمے ہوا ہے میں صرف ایک مثال پیش کرنا چاہوں گا۔

راج کماری نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا
” معلوم ہے تمھیں چشم زدن میں انزال کیوں ہو جاتا ہے“ ؟
بن قاسم ”معلوم نہیں کیوں؟

راج کماری : شاید ریگزاروں میں بسنے والے لوگوں کی طبیعت میں ٹھہراؤ نہیں ہوتا۔ جلدی ہوتی ہے، انتہا پسندی ہوتی ہے۔ تم صحرائی لوگوں کو معلوم نہیں کہ عورت کے جسم میں لگی مہابھارت سے عورت اکیلی ہی کیوں نبردآزما ہو۔ جیسے جیسے تمہیں عورت کے جسم کے اسرار معلوم ہوں گے، تم اپنے جسم کے رازوں کو بھی جاننے لگوں گے۔

شاید ایک جگہ یہ پڑھا یا اس مکالمے سے یہ ذہن بن گیا۔ کہ عرب لوگوں کا انزال چشم زدن میں اس لیے ہوتا ہے کہ وہ انتہا پسند ہوتے ہیں ان کو عورت کے جسم کے رازوں اور ان سے بات کرنے کا ڈھنگ نہیں ہے۔ جبکہ سندھ کے مزاج میں ٹھہراؤ اور سکون ہے۔ بہر حال ناول اس قدر خوبصورت ہے کہ بار بار پڑھنے کو دل کرتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments