رانجھا رانجھا کر دی نی میں آپے رانجھا ہوئی


1955 ء میں صحافی ہنری فیئرلی نے سماجی طور پر ممتاز اور سیاسی طور پر اہم لوگوں کے نیٹ ورک کی نشاندہی کرنے کے لیے ’دی اسٹیبلشمنٹ‘ کی اصطلاح کے عصری استعمال کو مقبول بنایا۔ سماجیات اور سیاسیات میں، اسٹیبلشمنٹ کی اصطلاح غالب سماجی گروہ یا اشرافیہ کے لئے استعمال کی جاتی ہے جو کسی سیاسی تنظیم یا ادارے کو کنٹرول کرتے ہیں۔ جبکہ پاکستان میں یہ اصطلاح ’اسٹبلشمنٹ‘ اس بہتات میں برتی جاتی ہے کہ بچے کی پیدائش کے ساتھ ہی اس کے کانوں میں اذان کے ساتھ ساتھ پڑنے والی آوازوں میں ایک آواز لفظ اسٹبلشمنٹ کی بھی پڑتی ہے۔ اور اگر ورثا بچوں تک یہ آواز باہم پہنچانے میں ناکام رہیں تو قریبی مراکز صحت میں عموماً میوٹ ( صم) ٹی وی اسکرینز پر چلتی اے آر وائی نیوز کی ہیڈلائنز پر چلتی اسٹبلشمنٹ کی اصطلاح کو قوت شامہ کی بدولت اکثر نومولود بھانپ ہی لیتے ہیں کہ یہ کوئی تو ہے جو نظام حکومت چلا رہا ہے۔

ہمارے ملک میں احتساب کا نعرہ ہمیشہ بہت عام اور دلپذیر رہا ہے۔ ہر کوئی احتساب کرنا چاہتا ہے اور احتساب ہوتے دیکھنا چاہتا ہے۔ مگر احتساب کو عموماً تیس سال کی لوٹ مار تک محدود کیا جاتا ہے۔ احتساب کا یہ دائرہ عوام تک پہنچانے کا قلی سہرا بھی اسٹبلشمنٹ کو ہی جاتا ہے۔ ستر سال کا رونا رو کر بیتے چالیس برسوں کو اور ان چالیس برسوں کے سہانے دور کو یکمشت بھلا دیا جاتا ہے اور عوامی نمائندوں کے ثلاثون عاما من الحزن کا حساب ہر گلی، ہر دیوار حکیم داؤد کے رابطہ نمبر والے اشتہارات کے ساتھ ’چورو تیس برس کا حساب دو‘ قومی نصاب بنا کر پڑھایا جاتا ہے۔

یہاں یہ بات جاننا انتہائی اہم ہے کہ فوج کی زیر قیادت یا زیر تسلط حکومتوں نے مجموعی طور پر تین دہائیوں تک پاکستان پر حکومت کی۔ سویلین حکومتوں نے کبھی بھی مطلق اقتدار نہیں سنبھالا، جس کی وجہ سے وہ فوجی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بات چیت کے ذریعے مفاہمت پر پہنچنے پر مجبور ہوئیں۔ سات دہائیوں میں سے فوج کا سیاست اور ریاست پر بلاواسطہ اجارہ کم و بیش چار دہائیوں پر محیط رہا ہے۔

پاکستان کی تاریخ میں سول ملٹری تعلقات کو اگر دیکھا جائے تو طاقت کا پلڑا ہمیشہ ملٹری کے زیر اثر رہا۔ سنہ انیس سو سینتالیس میں برطانیہ سے آزادی حاصل کرنے کے بعد ، جہاں ایک طرف ریاستی اداروں کی از سر نو تعمیر اور فعال بنانے کا مسئلہ تھا تو دوسری طرف ایک مضبوط اور کثیر تعداد فوج وراثت میں ملی۔ آزادی کے بعد پہلی دہائی کے دوران جو سیاسی بے یقینی کا راج تھا، فوج نے سیاسی نظم اور معاشی استحکام کی بحالی کے نام پر بغاوت کو بر حق جانا۔ فوج کا باقی اداروں پر تب سے اختیار پاکستان کا ایک پراٹورین (حاکمانہ) ریاست بننے کے سفر کا آغاز رہا۔

اسٹبلشمنٹ کا سیاست اور حکومتی نظم پر اجارہ کبھی کسی سے چھپا نہیں رہا۔ یہ الگ بات ہے کہ عوام میں جذبہ حب الوطنی کے نام پر ہمیشہ عوامی رد عمل کو اسٹبلشمنٹ نے خود سے ہٹا کر عوامی نمائندوں کی جانب اس کاٹھ سے موڑا کہ جس کا کبھی کوئی جواب نہیں رہا۔ سنہ انیس سو اکہتر میں ملک کے دولخت ہو جانے کے بعد اگر اسٹبلشمنٹ پر سخت عوامی رد عمل آیا تو وہ بھی وقتی تھا۔ اس کے بعد 2011 ء میں امریکی افواج کے ہاتھوں اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد کے دنوں میں فوج کا بڑے پیمانے پر مذاق اڑایا گیا۔

لیکن صرف مہینوں بعد ، فوج اور اس کے اس وقت کے سربراہ، اشفاق پرویز کیانی نے ادارے کی شبیہ کو بحال کرنے کے لیے ایک شدید پبلک ریلیشننگ مہم چلائی۔ جلد چیزیں معمول پر آ گئی تھیں۔ لیکن اسٹبلشمنٹ کی ٹکر حالیہ بحران میں ’ٹکر کے لوگوں‘ سے ہو گئی۔ اور اب کی بار اسٹبلشمنٹ کو رائے عامہ آسانی سے اپنے حق میں ہموار کرنا ایک خواب معلوم ہو رہا ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ٹکر کے لوگ اپنی متوازی اسٹبلشمنٹ کھڑی کرنے کی ٹھان چکے ہیں اور عمران خان ہی اب نئی اسٹبلشمنٹ ہیں ایسا تاثر عام ہو رہا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ یہ تاثر پیدا کیا جا رہا ہے کہ عدالتی مقدمات میں عدم پیشی سے لے کر بہت جلد ضمانت ملنے تک، ہر قسم کا ریلیف ملنے تک عمران خان اتنے ہی طاقتور نظر آتے ہیں جتنا کہ اسٹیبلشمنٹ کچھ عرصہ پہلے تک تھی۔ یہ صرف ایک تاثر ہو سکتا ہے لیکن اس پر ابھی بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ حالیہ دنوں میں عدلیہ عمران خان کے لیے ’بروقت ادھار ایپلیکیشن‘ بن کر ابھر رہی ہے۔ عمران خان صاحب کو یہ سہولت دی جا رہی ہے کہ آپ جب چاہیں جہاں چاہیں ہمیں بلائیں، ہم ہمہ وقت دستیاب ہوں گے۔

عمران خان نے اپنے پاپولزم کے برانڈ کو کامیابی کے ساتھ ہتھیار بنایا ہے، جو قومی خودمختاری اور مغرب مخالف بیان بازی اور احتساب پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے۔ ماضی میں اسٹبلشمنٹ نے عمران خان صاحب کو تقویت دی تھی تو امریکہ کو للکارنے کی تھیم کا استعمال بھی اسٹبلشمنٹ کے تیار کردہ کتابچے استعمال کے تحت تھا مگر جب عمران خان صاحب نے اپنی حکومت کے خاتمے کے آخری دنوں میں اپنی منشا کے مطابق امریکہ کو للکارا تو اسٹبلشمنٹ بھی چکرا گئی اور نجی محافل میں پیغام جاری کیا کہ بھائی اگر امریکہ کو برا کہنا ہی ہے تو آپسی بیٹھک میں کہو اور دھیمی آواز میں کہو، اگر امریکہ نے سن لیا تو کیا ہو گا؟ لیکن اب اسٹبلشمنٹ کو کون جتائے کہ خان صاحب کو بھی اسٹبلشمنٹ بننے کے اجزاء ترکیبی ہدیہ ہو چکے ہیں۔

یہ سب تو ہو گیا ایوان اقتدار میں رسہ کشی کا حال جس میں اسٹبلشمنٹ اپنی ساکھ بچانے، پی ڈی ایم سربراہان اپنی ذریت کا مستقبل بنانے اور عمران خان اپنا رخنہ خواب دوبارہ تعبیر کرنے کی مشق میں جھول رہے ہیں۔ باقی ماندہ چوبیس کروڑ محو اضطراب روحوں کا کیا؟ حکمرانوں کے لیے توشہ خانہ ہے، عسکری حکام کے لیے پلاٹس ہیں، ججوں کے لیے مراعات ہیں، عام آدمی کے لیے کیا؟

شاید عام آدمی کے لیے یہ بندوبست ہے کہ تمہارے لیے ایک کشتی ہے، سمندر ہے، ترکیہ اور لیبیا کا ایک سفر ہے۔ جواب دہی تمہاری اپنی ہے یا ساحل نصیب ہو گا یا اجل۔ اگر پہلا حل معقول نہ لگے تو غریب کے بھوکے پیٹ کو بھرنے کے لئے سستے آٹے کی فراہمی کا حکومتی انتظام الگ سے ہے اس پر اگر قطار میں لگے غریب کے پیٹ پر کسی کے تلوے آ جائیں اور وہ زندگی کی بازی ہار جائے تو حکومت اس میں کیا کرے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments