وہ جو گنجا ہے۔۔۔


ہمارے ایک دوست اوائل جوانی میں ہی بالوں سے محروم ہو گئے تو انہوں نے بڑی بڑی مونچھیں پال لیں۔ ہمارے استفسار پر موصوف کی بیان کردہ تبدیلی کی وجہ یاد کر کے آج بھی ہمارے ہونٹوں پر بے اختیار مسکراہٹ پھیل جاتی ہے۔ کھسیانے سے ہو کر کہنے لگے ’یار بندے کے بال گر جائیں تو لوگ اس کا نام بھول جاتے ہیں اور بس ”گنجا“ یا ”او جیہڑا گنجا جیا اے“ (وہ جو گنجا ہے ) اس کی شناخت بن جاتی ہے۔ بڑی بڑی مونچھیں رکھ لینے سے لوگ ”گنجا جیہا“ کی بجائے ”مچھڑ“ کہنا شروع کر دیتے ہیں جو بحر کیف کم تر درجے کی تذلیل ہے‘ ۔ ہم اس کی اس انوکھی منطق پر داد دیے بغیر نہ رہ سکے۔

کوئی چاہے کتنا ہی باوصف اور با اختیار کیوں نہ ہو، ایک بار گنجا ہو گیا تو ”گنجا“ ہی کہلائے گا۔ اب امجد اسلام امجد کی مثال ہی لے لیجیے۔ اتنے بڑے شاعر، ادیب اور ڈرامہ نگار ہونے کے باوجود ڈاکٹر یونس بٹ کے لکھے خاکے کا آغاز ان کے گنجے پن کے ذکر سے ہوتا ہے۔ ڈاکٹر یونس بٹ، امجد اسلام امجد کے بارے میں فرماتے ہیں ”وہ ادب کے گنج گرانمایہ میں سے ہے۔ اس کا سر اوپر سے خالی ہے اگرچہ ہمارے ہاں شعرا کا اندر سے خالی ہوتا ہے۔ اس کے پاس سنوارنے کو بال نہیں تو کیا ہوا دھونے کو منہ تو بہت ہے۔ “

ہمارے دوست رحمت علی رازی مرحوم تو حاکم وقت کے گنجے پن کی بھد اڑانے سے بھی نہیں چوکتے تھے۔ انہوں نے پاکستانی سیاست کی دو بڑی شخصیات جو کہ وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ کے عہدوں پر فائز تھیں کے نام سی ٹی، بی ٹی رکھے ہوئے تھے۔ ہم ان دنوں سی ایس ایس کی تیاری کر رہے تھے اور ہمارے نزدیک سی ٹی بی ٹی کا مطلب کمپری ہینسو ٹیسٹ بین ٹریٹی تھا۔ لیکن بقول رازی صاحب ان کے سی ٹی، بی ٹی کا مطلب چھوٹی ٹنڈ، بڑی ٹنڈ تھا۔ خیر۔

بچپن میں ہمارے سر پر بے تحاشا بال تھے جو نصف ماتھے تک دراندازی کیے ہوئے تھے۔ جن کو ، بقول ہمارے بڑے بہن بھائیوں کے، ہم اپنی انگلیاں میں لپیٹ کر اکھاڑا کرتے تھے تاکہ ہماری پیشانی کشادہ ہو سکے۔ لیکن ہمیں بھی اوائل جوانی میں گنجے پن کا صدمہ جھیلنا پڑا۔ سن بلوغت کو پہنچتے ہی ہمارے جینز کے اندر چلے آرہے موروثی کوڈ نے سر کے بالوں کو کمزور ہو کر گرنے کے احکامات جاری کر دیے۔ سر کے بالوں نے ہمیں داغ مفارقت دینا شروع کر دیا اور خزاں رسیدہ پتوں کی طرح جھڑتے چلے گئے۔

ماں کے نزدیک بالوں کا گرنا ہمارے ان کو خشک رکھنے کی وجہ سے تھا۔ لہٰذا روزانہ کی بنیاد پر سر میں سرسوں کے تیل کی مالش شروع کر دی گئی۔ طرح طرح کے شیمپو آزمائے گئے لیکن مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔ نہ تو آملے اور ریٹھے کا تیل ہی کام آیا اور نہ ہی حکیم غلام فرید کا جونکوں اور کچھووں کی کھوپڑی سے تیار کردہ گاڑھا سیال ہی کارگر ثابت ہوا۔ اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے حسن کو ماند پڑتا دیکھتے رہے اور جی ہی جی میں کڑھتے رہے۔

بیسویں صدی کی اختتام تک ہم بھی گنج گرانمایہ کی صف میں کھڑے ہو چکے تھے۔ صبح اٹھ کر جب آئینے کا سامنا کرتے تو حدود سے بے نیاز ماتھے کو دیکھ کر اپنا ہی موڈ خراب کر بیٹھتے۔ اور یہ واقعہ دن میں کئی بار ہو جاتا۔ ایک دن ہم نے اس فنی نقص کو دور کرنے کا فیصلہ کر لیا اور گلبرگ میں واقع مشہور ہیئر ٹرانسپلانٹ سرجن کے پاس پہنچ گئے۔ اس نے ہمارے سر کے پیچھے سے بالوں کی ایک پٹی کاٹی اور سامنے کی طرف چاولوں کی پنیری کی طرح لگا دی۔ یہ آٹھ دس گھنٹے اور اس کے بعد آنے والے کچھ دن اس قدر اذیت ناک تھے کہ ہم نے آئندہ ایسی کسی بھی ایڈونچر سے توبہ کر لی۔

لیکن یہ توبہ عارضی ثابت ہوئی اور ایف یو ای ہیئر ٹرانسپلانٹ ٹیکنالوجی کے متعارف ہونے کے بعد ہم ڈاکٹر شعیب منصور کے ہاتھوں مزید تین بار اس عمل سے گزرے تب جا کر سر اور پیشانی کا حدود اربع واضح ہوا۔ اب ایک نئی پریشانی نے ہمارے سر کو آ گھیرا۔ سردیوں کے موسم کے آغاز کے ساتھ ہی ہمارے سر میں سخت شدید قسم کی خشکی اور سکری ڈیرے ڈال لیتی تھی۔ رات کے وقت سر کے اطراف میں خارش طوفان اٹھا دیتی تھی جسے ٹالنے کے لیے سر میں زیتون کا تیل انڈیلا جاتا تھا۔ تب کہیں جا کر سکون کی نیند آتی تھی۔

مارکیٹ میں موجود تمام شیمپو آزما کر دیکھ لیے لیکن خشکی اور خارش سے چھٹکارا نہ مل سکا۔ وہ شیمپو بھی بے کار ثابت ہوئے جو ایک ہی بار کے استعمال میں خشکی سے چھٹکارا دلانے کے دعوے کرتا تھا اور وہ شیمپو بھی کسی کام کا نہ نکلا جو ”کندھے سے بوجھ“ ہٹا دے کے نام پر لوگوں کو بیوقوف بنا رہا ہے۔

تاہم اس سال سردیوں کے آغاز میں ہی ہم نے کچھ مختلف تجربہ کرنے کا سوچا۔ ہم نے فیصلہ کر لیا کہ اس بار سر کے بالوں کو دھونے کے لیے کوئی شیمپو استعمال نہیں کریں گے۔ صابن کو دونوں ہاتھوں میں مل کر جھاگ بنائیں گے اور اس سے بالوں کو دھو لیا کریں گے۔ ہم اس اصول پر دو ماہ سے کاربند ہیں۔ اور حیرت انگیز طور پر اس سال ہمارا سر خشکی، سکری اور خارش سے بالکل پاک ہے۔ ڈاکٹر حضرات بتاتے ہیں کہ مردوں میں گنجے پن کی ایک بڑی وجہ شیمپو بھی ہیں۔ اگر آپ بھی سر کے بالوں کے مسائل کا شکار ہیں تو کچھ عرصے کے لیے شیمپو کا استعمال ترک کر کے دیکھیے کیونکہ بظاہر حل کا حصہ نظر آنے والی کچھ چیزیں دراصل مسئلے کا حصہ ہوتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments