باکو کا سفرنامہ – آگ کے مندر کی سیر


تیسرے دن صبح کو ہمیں ٹور آپریٹر کے مطابق باکو شہر سے آدھے گھنٹے کی مسافت طے کر کے ”ابشیران“ کے علاقے میں ایک ایسی جگہ جانا تھا، جسے ”ینار داگ“ کہتے ہیں۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ ایک پہاڑ ہے جس کے دامن میں قدرتی طور پر آگ لگی ہوئی ہے، جو گرمی، سردی، آندھی، طوفان الغرض کوئی بھی موسم ہو جلتی رہتی ہے۔ حیرت ہوئی کہ یہ کیسے ہوا ہو گا۔ اس جگہ کو حکومت نے اپنی تحویل میں لے رکھا ہے۔ خاص طور پر پہاڑ کا وہ حصہ جہاں سے آگ کے شعلے نکلتے ہیں اس کے اردگرد حدبندی کر کے اس کو محفوظ کیا گیا ہے۔

ٹکٹ لے کر ایک چھوٹے سے سٹیڈیم میں داخلہ ہوتا ہے۔ ایک مرکزی میدان جس کے اردگرد بیٹھنے کی جگہ کو عبور کریں تو پہاڑ کے دامن کی عین وہ جگہ سامنے آجاتی ہے۔ جہاں سے آگ نکلتی ہے۔ وہاں موجود ایک میوزیم کے مطابق، ایک چرواہے کو سردی میں آگ کی ضرورت پڑی تو اس نے اس جگہ آگ جلائی جو عرصہ 70۔ 80 سال سے روشن ہے۔ بہت سے لوگ اس آگ کے بارے میں لے کر معجزاتی کہانیاں بیان کرتے ہیں۔ مگر اس کی حقیقت سوائے اس کے کچھ نہیں کہ آذربائیجان تیل و گیس سے مالا مال ہے، اور اس ملک کے نام کا مقامی زبان میں مطلب بھی آگ کی سرزمین ہے۔ سو، زیر زمین گیس، کے ہلکے سے بہاؤ کا پہاڑ کے دامن سے نکلنا اس آگ کا موجب ہے۔ جسے چرواہے کے ہاتھوں شعلہ ملا، اور وہ آج تک بھڑک رہی ہے۔

ہماری اگلی منزل ”آتش گاہ“ تھی اور گاڑی اس طرف رواں دواں تھی۔ آدھے گھنٹے سفر کرنے کو بعد ہم ”سورخانی“ کے علاقے میں واقع ”آگ کا مندر“ یا آتش گاہ ”پہنچ چکے تھے۔ یونیسکو نے اس جگہ کو اپنے“ ثقافتی ورثے ”کی فہرست میں ایک اہم مقام کے طور پر شامل کیا ہوا ہے۔ آثار قدیمہ کے ماہرین کے مطابق اس عمارت کو“ زرتشت، اور ہندو ”مذہب کے پیروکار استعمال کرتے تھے۔ شمال مغربی بر صغیر کے رہنے والے“ زرتشت ”لوگ سترہویں اور اٹھارہویں صدی میں تجارت کی غرض سے جی ٹی روڈ سے ہوتے ہوئے یہاں پہنچا کرتے تھے۔ 1883 میں جب“ سورخانی ”میں تیل و گیس کی دریافت ہوئی تو اس مندر کا استعمال پہلے کم اور پھر رفتہ رفتہ متروک ہو گیا۔ آتش گاہ جاتے ہوئے آپ کو جگہ جگہ زمین سے تیل نکالنے کے آلات زمین میں پیوستہ نظر آئیں گے۔ یہ اس امر کی نشاندہی ہے کہ اس علاقے میں اس نعمت کی کتنی بہتات ہے۔

اس عمارت کے اطراف میں عبادت کرنے والوں کے لئے کمرے ہیں جیسے بدھ مذہب میں مونک کے ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ رہائشی کمرے، اناج کو محفوظ کرنے کے کمرے بھی ہیں۔ کیونکہ آگ کو ان دونوں مذاہب میں بڑا متبرک مانا جاتا ہے۔ اسی نسبت سے اس آتش گاہ میں سات یسے سوراخ تھے جن میں آگ جلی ہوتی تھی۔ آج کل ان سوراخوں کو پائپ کے ذریعے گیس فراہم کر کے دہکایا جاتا ہے۔ تاکہ یہاں آنے والے لوگ ماضی کی اس مقدس اور تاریخی عمارت کو اسی تناظر میں دیکھ اور محسوس کر سکیں۔

یہاں موجود مختلف کمروں میں ماضی میں یہاں رہنے والوں کی استعمال کی چیزیں رکھیں گئیں ہیں۔ مزید یہ کہ اس خطہ میں ہونے والی تیل و گیس کی دریافت کے اوپر بھی معلوماتی مواد موجود ہے۔ اگر باکو آنیوالوں کو ”ینار داگ“ یا ”آتش گاہ“ میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوتو میرا مشورہ ہے کہ آتش گاہ کا انتخاب کریں۔ یہ جگہ زیادہ اہمیت اور دلچسپی کی حامل ہے۔

اب ہمارا ارادہ تھا کہ شہر کے مرکزی حصے کو دیکھیں۔ سو پہلی جگہ، جہاں ہمیں نجاد صاحب لے کر گئے، وہ حیدر علی سینٹر اور اس سے ملحقہ پارک تھا۔ یہ ایسی عمارت ہے جس کا ڈیزائن اپنے مخصوص اور خمیدہ فن تعمیر کے لیے جانا جاتا ہے۔ اس مرکز کا نام حیدر علی، آذربائیجان کے پہلے صدر کے نام پر رکھا گیا ہے۔ اس عمارت کو بہت سی مقامی اور بین الاقوامی نمائشوں اور ثقافتی سرگرمیوں کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس سے ملحقہ پارک میں خوش رنگ پھول جا بجا کھلے ہوئے ہیں۔

ایک سلیقے سے پھولوں کو مختلف کیاریوں میں اگایا اور سجایا گیا ہے۔ باکو کا بین الاقوامی تعارف ”I Love Baku“ کے وہ رنگ برنگے انگریزی کے الفاظ اسی پارک میں پیوست ہیں۔ جہاں سے حیدر علی سینٹر پس منظر میں نظر آتا ہے۔ میرے خیال میں باکو آنے والا ہر سیاح یہاں ضرور آتا ہے اور ان الفاظ کے سامنے کھڑے ہو کر ایک یادگاری تصویر ضرور بنواتا ہے۔ ہم نے بھی یہ فرض عین ادا کیا اور اپنے منصوبے کے مطابق باکو شہر کی مشہور ترین جگہ ”نظامی سٹریٹ“ کی طرف چل دیے۔

نظامی سٹریٹ چار کلومیٹر لمبی ہے۔ یہ ”عبداللہ شیگ سٹریٹ“ سے شروع ہو کر ”سابت او رجوو“ سٹریٹ میں ختم ہوتی ہے۔ آپ اسے ایک ایسی روڈ سمجھ لیجیے کہ جہاں دائیں اور بائیں دکانیں ہیں۔ درمیانی حصہ میں چھوٹے چھوٹے پتھر زمین میں ایک حسین انداز ہور ترتیب سے مرقع ہوئے ہیں۔ اس درمیانی راستے پر صرف پیدل چلا جاتا ہے۔ کوئی گاڑی، موٹرسائیکل یہاں اس علاقے میں چلتی پھرتی نظر نہیں آتی۔ آپ یہاں جس وقت بھی آئیں یہ لوگوں سے بھری ہوئی ملتی ہے۔

کسی بھی بین الاقوامی شہر کی مانند یہاں لاتعداد سیاح ملتے ہیں۔ ریستوران کھچا کھچ بھرے رہتے ہیں۔ کافی ہاؤس اور چائے خانے میں بھی ہجوم ہوتا ہے۔ ریستوران میں شیشے کا فیشن رائج ہے، لوگ گھنٹوں اپنے پسند کی جگہ پر شیشہ پینے کے لئے اپنی باری کا انتظار کرتے ہیں۔ یہاں چائے کے نام پر قہوہ ملتا ہے۔ جو بے حد لذیذ اور زود ہضم ہوتا ہے۔ لوگ شیشے کے ساتھ قہوہ پینا پسند کرتے ہیں اور باتیں کرتے چلے جاتے ہیں۔ باکو کے لوگ سفید رنگت کے حامل اور دلفریب نین نقش کے مالک ہیں۔

مذہبی لحاظ سے 96 فیصد لوگ مسلمان ہیں۔ ان میں 85 ٪ لوگ اہل تشیع ہیں اور باقی سنی ہیں۔ ہم نے وہاں رہتے یہ مشاہدہ کیا کہ مردوں سے زیادہ خواتین کام کاج کرتی نظر آتی ہیں۔ ہوٹل، دکان، سب جگہوں پر خواتین کی بہتات نظر آئی۔ صرف ٹیکسی کا شعبہ ایسا تھا جہاں مرد ہی مرد تھے۔ مقامی لوگوں سے پتہ کرنے پر معلوم ہو ا کہ عمومی تاثر یہ ہے کہ مرد حضرات سستی کے مارے ہوئے ہیں۔ اس لئے کام نہیں کرتے مگر دراصل بات یہ ہے کہ کچھ شعبوں میں جہاں تنخواہیں کم ہیں وہاں خواتین کی بہتات ہے۔ اور چونکہ لوگوں کے سامنے عمومی طور پر یہی شعبہ جات ہوتے ہیں تو اس لئے انھیں لگتا ہے کہ یہاں خواتین مردوں کی نسبت زیادہ کام کرتی ہیں۔

نظامی سٹریٹ کو وسط ایشیا کی ”شانزے لیزے“ کہنا غلط نہ ہو گا۔ دنیا کے ہر بڑے برینڈ کی دکان یہاں موجود ہے۔ اور قیمتیں اس قدر زیادہ کہ ہم نے کسی اور دکان میں جانے کی ہمت نہ کی اور ونڈو شاپنگ سے دل بہلانے لگے۔ اکثریتی مسلم آبادی والے اس ملک کے دارالخلافے میں، سرکار کی طرف سے مشروب، ملبوس اور بودوباش کے اوپر کوئی حد مقرر نظر نہیں آتی۔ لہذا جو چاہیں مشروب پئیں اور جیسا چاہیں لباس پہنیں۔ نظامی سٹریٹ میں اس قدر چہل پہل ہے کہ یہاں سے جلدی جلدی جانے کو دل نہیں چاہتا۔ کہیں موسیقی چل رہی ہے، تو کہیں ناچ گانا چل رہا ہے۔ لڑکے اور لڑکیاں ہاتھ پکڑے اٹکھیلیاں کرتے پھرتے ہیں۔

باکو میں نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کی ایک کثیر تعداد ہے جو ہر طرف ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے اور ایک دوسرے سے چپکے دکھائی دیتی ہے۔ بعض جگہوں پر تو ایسی کیفیات بھی ان آنکھوں نے دیکھی کہ گمان ہوا کہ یہ کہیں یورپ تو نہیں۔ ہمیں وہاں رہتے ہوئے یہ بتایا گیا تھا کہ باکو میں اب نوجوان لڑکے لڑکیاں ساتھ رہتے ہیں۔ جیسے مغرب میں ”لو ان ریلیشن“ میں رہا جاتا ہے کہ جب تک کسی ایک فریق کا دوسرے سے دل نہ بھر جائے۔ شادی جیسے بندھن کی زحمت خال خال ہی اٹھائی جاتی ہے۔

باکو کے بارے میں یہ جان کر یقین ہو گیا کہ واقعی یہ شہر بین الاقوامی سطح پر مشہور ہونے کے لوازمات پورے کر رہا ہے۔ ہمارے ڈرائیور نجاد کے بقول ملک کی اکثریت باکو شہر کے اس رنگ ڈھنگ کو اسلامی اور اخلاقی لحاظ سے اچھا نہیں سمجھتی۔ مگر چونکہ ایک عرصے سے یہاں رہنے والی حکومت روشن خیالی اور جدت کے راستے پر گامزن ہے سو اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اکثریت کیا سوچتی ہے۔ اس نے مزید بتایا کہ یہ سب کچھ باکو تک محدود ہے اس شہر کے سوا دوسرے شہروں میں حالات ایسے نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).