فارحہ ارشد کا افسانوی مجموعہ مونتاز
وہ مجھ سے پوچھنے لگی تمہیں پتہ ہے بڑا ادب کیا ہوتا ہے؟
میں نے کہا، جو کبھی بھی پوری طرح قاری کی گرفت میں نہ آئے، حیطۂ ادراک سے کسی قدر ماورا، جس میں ایک منطقی زنجیر ہو، لگے کہ اس زنجیر سے بندھ کے بات سمجھ آ جائے گی مگر کہیں ایک لنک مسنگ ہو، ایک کڑی غائب ہو ہاں تجرید کی صورت جیسے اس میں اتنی وسعت ہو کہ بادلوں کے پیچھے بھاگتے بچے انہیں دیکھ اپنی مرضی اور تخیل سے اپنے ذہن میں بنی ڈرائنگ مکمل کر لیتے ہوں۔ جیسے کینوس پر رنگوں کے چھینٹوں سے من مرضی کی تصویر بنا لینے کا تصور ہو مگر ساتھ ہی ساتھ ہر دم یہ محسوس ہو کہ کوئی گوشہ رہ گیا ہے، کوئی کونہ خالی ہے خالی پن جسے دنیا کا نہ کوئی لفظ مکمل مفہوم عطا کر سکے اور نہ خود خالی پن۔ ایک ایسی تشنگی کی طرف اشارہ جو کم ہونے کی بجائے بڑھتی ہی جائے۔
مجھے فارحہ ارشد صاحبہ کے چند افسانوں میں اس کا گہرا احساس ہوا جیسے ’آرکی ٹائیپل کڈھب کردار‘
بات سمجھ آ جاتی ہے مگر آتے آتے کہیں رہ جاتی ہے۔ خیال پر مکمل گرفت ٹھہرتی نہیں
افسانے کی ایک یہ خوبی ہوتی ہے کہ وہ تہہ در تہہ ہو پرت در پرت اور آخر میں ممتاز مفتی کی علامت پیاز کی طرح ہاتھ کچھ نہ آئے بس آنکھوں میں کڑواہٹ سی گھل جائے۔ فارحہ ارشد کے دو افسانے مجھے کبھی نہیں بھول سکتے جن میں ایک تو پہلا افسانہ ہے ”بیفور دی ایور آفٹر“
جو ایک ہنر مند کی کہانی ہے جس کا اپنا گھر اس کے ہنر کا منہ بولتا ثبوت ہے ایسے لگتا ہے میں کوئی ڈرامہ دیکھ رہی ہوں کیمرہ ایک گھر کے درو دیوار کی ساری تاریخ دکھانا چاہتا ہے۔ پھر اس گھر کے مکینوں تک پہنچاتا ہے۔ کردار بھی کیا خوب ہیں ہنر مند جو اپنے ہنر کی بے قدری کی وجہ سے کچھ پاگل سا ہو جاتا ہے جب کہ اس کے بیٹے اس کے پیشے کو کم اجرت ملنے کی وجہ سے نہیں اپناتے اور ٹھکرا دیتے ہیں۔ دوسرے دیس چلے جاتے ہیں۔ اس کی ایک بیٹی ہے جو بڑی جذباتیت سے ماں بن کر اس کردار یعنی والد کا خیال رکھتی ہے اور پھر فیصلہ کرتی ہے باپ سے اس ہنر کو سیکھنے کا جب کہ اگر باپ واقعی پاگل ہے تو اس حال میں بیٹی کو ہنر سکھاتا کیسے ہے؟
یہ ایک ضمنی سوال پیدا ہوتا ہے بہرحال افسانہ پرتاثیر ہے۔
عنوان اردو میں بھی ممکن تھا اس سے بھی اچھا مل جاتا مگر مصنفہ نے عنوان دیتے وقت شعوری طور پر انگریزی کے الفاظ استعمال کیے ہیں جو یقینا نئی روایت رکھنے کی خواہش ہے۔
اس کے بعد ایک اور افسانہ ڈھائی گز کا کمبل ہے
اس کی بنت اس کی تکنیک کمال ہے۔ اس میں بچے کا دکھ اتنا بے ساختہ ہے۔ اس میں اتنی معصومیت ہے۔ اس افسانے کے اختتام پر جو تیر چلا قاری اسے تاعمر نہیں بھلا سکتا۔
ایک افسانہ اوڈیپس کمپلیکس کے موضوع پر ہے۔ انگریزی ادب میں اس پر افسانے لکھے جا چکے ہیں۔ یہ بھی کامیاب تجربہ ہے۔
”مورخ میری تاریخ نہ لکھنا“
اس میں ان والدین کا دکھ ہے جن کے بچے وطن کے نام پر شہید ہوتے ہیں۔
مجھے لگا کہ اس میں ایک صدیوں سے بنائے ہوئے مقدس ٹیبو کا خوب پوسٹ مارٹم کیا ہے۔ اپنے موضوع کے اعتبار سے بڑا افسانہ ہے۔
’آدھی خودکشی‘ مجھے پریم چندر کے اس افسانے کی یاد تازہ کرا گئی جس میں ایک پل سے گزرتے وقت اسے ساڑھیاں نظر آتی ہیں۔ ایک غریب بستی کے قریب سے گزرتے وقت کچھ ساڑھیاں دھو کے ٹانگی گئی ہوتی ہیں مصنف نے اسی تکنیک پر اپنے افسانے کے مختلف کرداروں کے ایک ایک کے دکھ سے اور بائیوگرافی سے متعارف کرایا ہے۔
شاید میں نے بھی اپنی زندگی میں بہت سے افسانے پڑھے ہوں گے مگر فارحہ ارشد صاحبہ کے افسانوں میں مجھے جہاں موضوعات کے تنوع نے بے حد متاثر کیا وہیں اس بات نے بھی کہ ان کے بہت سے افسانوں میں قاری کو زندگی کے ساتھ ساتھ موت کا تجربہ بھی ہوتا ہے۔ قاری زندگی میں موت کا ذائقہ چکھنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ ایک جگہ لکھتی ہیں
”موت کیا تھی؟ ایک جھٹکا تھا کہ جو جسم کے ریکٹر سکیل پر نشان چھوڑ گیا،“
’نتاشا پریرا آئی لو یو‘ افسانے کا ایک ڈائیلاگ
”شیشے سے بھی نازک زندگی ہاتھ سے گر کر چور چور ہو چکی تھی۔ کیا ایسے ہی بندہ مر جاتا ہے؟“
زمین زادہ کا ایک فقرہ
”وہ جس کے سر سے جنگلی کبوتروں کی خوشبو آتی تھی،“
وہ کچے گھر کا سادہ سا معصوم لڑکا زمینی حقائق سے جڑے جبر کے سیاہ ماتھے پہ انکار کا روشن کلمہ لکھ رہا تھا۔ ”
فارحہ ارشد کا افسانوی ادب مزاحمتی شعور کا ادب ہے۔
ایک تصویر خدا کے بغیر
فارحہ نے ایتھیسٹ اپروچ والی آرٹسٹ لڑکی کی کہانی کو بے حد خوبصورتی سے پرویا۔ جس پر تیزاب پھینک دیا گیا کیونکہ اس کے نظریات مروجہ نظریات سے برسرپیکار تھے۔ اس میں فارحہ نے ہیروئن کے لیے جو فقرے لکھے ہیں میں انہیں بہت یقین کے ساتھ فارحہ ارشد کے لیے لکھنا چاہوں گی۔
”اس کے تصورات میں دبدبہ تھا، تسخیر کر لینے کا یقین تھا، تازگی تھی اور سب سے بڑی بات کہ ان پینٹنگز کے تصورات لوگوں کی مروجہ سوچ سے پیکار تھے۔
اس کے اپنے ہی نظریات تھے جو اتفاقاً پہلے سے موجود کسی نظریے کی توسیع ہوتے یا تردید مگر ان میں ایک نیا پن ہوتا جو کسی نئی بات یا سوچ کا در وا کرتا چلا جاتا، ”مجھے کہنے میں عار نہیں کہ فارحہ ارشد کے افسانے مہارت سے بنائی گئی پینٹگز کی طرح شاہکار ہیں جن کے اسلوب میں افسانوی حسن بھی ہے، حقیقت کی معنویت بھی اور مجاز کی تاثیر بھی۔ ہمیشہ لکھتی رہیں۔
- ٹورنٹو، دبئی اور مانچسٹر - 16/07/2024
- شاعر ،شاعری اور خواب در خواب - 13/07/2024
- ڈاکٹر خالد سہیل اور گرین زون - 30/01/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).