کراچی اور ممبئی: فرق صرف نظام کا ہے


1942 کی بات ہے ایک چودہ سال کا لڑکا جس کا نام ”حاجی بدر الدین قاضی“ تھا اپنے والد کے ہمراہ بمبئی میں وارد ہوا۔ یہ لوگ اندور شہر سے آئے تھے۔ حاجی بدر الدین قاضی کے والد اندور میں بے روزگار ہو گئے تھے اور ان کی بمبئی یاترا کا مقصد روزگار کی تلاش تھا۔ والد صاحب کو نوکری تو مل گئی لیکن تنخواہ اس قدر قلیل تھی کے خاندان کا گزر بسر مشکل تھا۔ آخرکار ایک دن وہ بھی آیا کہ حاجی بدر الدین قاضی کو بمبئی کے پبلک ٹرانسپورٹ کے ادارے میں ملازمت کا موقع مل ہی گیا۔

اس ادارے کا نام ”بمبئی الیکٹرک سپلائی اینڈ ٹرام ویز“ تھا جو عرف عام میں بیسٹ کہلاتی ہے۔ حاجی بدر الدین قاضی بعد ازاں، بالی وڈ کی فلمی دنیا کے مقبول ترین کامیڈین بنے اور جانی واکر کے نام سے جانے گئے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جانی واکر کو اپنے کیریئر کی ابتدا میں کئی فلموں میں شرابی کے کردار ملے جو انہوں نے بخوبی نبھائے۔ ایسے ہی کرداروں کی وجہ سے وہ سینما بینوں میں بے حد مقبول ہوئے جس کے نتیجے میں ان کا فلمی نام جانی واکر رکھ دیا گیا۔

جانی واکر اسکاٹ لینڈ کی مشہور عالم شراب (وہسکی) کا برانڈ ہے جو تقریباً دنیا کے ہر ملک میں مقبول ہے لیکن حیرت انگیز طور پر حاجی بدر الدین قاضی عرف جانی واکر نے اپنی زندگی میں کبھی شراب نہیں پی۔ وہ اس حد تک شراب سے اجتناب کرتے تھے کہ ان کے گھر میں منعقد ہونے والی عالی شان پارٹیوں جن میں بمبئی کے تقریباً تمام فلمی ستارے مدعو ہوتے تھے، شراب نہیں پیش کی جاتی تھی۔ ؎

فلمی دنیا میں آ نے سے پہلے حاجی بدر الدین قاضی بیسٹ میں بحیثیت کنڈیکٹر ملازمت کر رہے تھے۔ یہ ادارہ بمبئی میں 1873 میں قائم کیا گیا۔ اس ادارے نے سب سے پہلے شہر میں ٹرام سروس شروع کی جس کو گھوڑے کھینچتے تھے۔ آج ڈیڑھ سو سال بعد بھی یہ ادارہ قائم و دائم ہے۔ آج سرکاری شعبہ میں یہ بمبئی کی سب سے بڑی بس ٹرانسپورٹ کمپنی ہے اور بمبئی شہر کے لئے اس کے بیڑے میں تقریباً چار ہزار بسیں شامل ہیں۔ جس میں ڈبل ڈیکر، سی این جی بسیں، ڈیزل بسیں، الیکٹرک بسیں، ائر کنڈیشنڈ بسیں اور منی بسیں حتی کہ پانی پر چلنے والی فیریز بھی شامل ہیں۔ بیسٹ بمبئی میونسپل کارپوریشن کا ایک ذیلی ادارہ ہے لیکن مکمل طور پر خودمختار ہے۔ اس ادارے کی مینجمنٹ ایک بورڈ آف ممبر چلاتا ہے جس میں پروفیشنلز، سرکاری افسران اور بمبئی میں برسراقتدار حکمران پارٹی کے سترہ نمائندے بھی شامل ہوتے ہیں۔ اس وقت بیسٹ ملازمین کی تعداد پچاس ہزار کے لگ بھگ ہے، اس کی سالانہ آمدنی ایک ہزار ملین روپے ہے۔

کمپنی نے اپنے مستقبل کے منصوبے کے مطابق 2023 کے آخر تک اپنے پچاس فیصد بسوں کے بیڑے کو الیکٹرک بسوں میں تبدیل کر دینا ہے اور کمپنی اپنے اس ہدف کو پورا کرنے کے لئے بہت تیزی سے کام کر رہی ہے۔ مزید برآں 2028 تک بیسٹ کی تمام و ہیکل بجلی سے چلنے لگیں گی اور ٹکٹ کا پورا سسٹم ڈیجیٹلائز ہو جائے گا۔ بمبئی میں زیر زمین میٹرو ریل کا نظام بھی قائم کر دیا گیا ہے۔ بیسٹ نے اپنے تمام روٹز کو قریب ترین میٹرو اسٹیشنوں سے بھی منسلک کر دیا ہے۔

آج بیسٹ کی بسوں کا پورا بیڑہ جس میں جی پی ایس سسٹم نصب ہے۔ پورے بمبئی شہر میں مختلف مقامات پر بسیں کھڑی کرنے اور ان کی دیکھ ریکھ کرنے کے لئے 27 بس ڈپو بنائے گئے ہیں جو بسوں کی مرمت کرنے والے تمام آ لات سے مکمل طور پر لیس ہیں۔ اس کے علاوہ بمبئی کی ٹرانسپورٹ کی ضروریات پوری کرنے کے لیے لوکل ریلوے کا ، دنیا کا سب سے بڑا اور عظیم الشان نظام بھی موجود ہے۔

قیام پاکستان کے وقت کراچی کو پاکستان کا دارالحکومت بنا دیا گیا اور 1947 کی تقسیم ہندوستان کے نتیجے میں ہونے والی انسانوں کی تاریخی ہجرت کے ایک بڑے حصے نے کراچی کا رخ کیا تھا۔ کراچی کی آبادی جو 1947 میں چار لاکھ تھی 1955 میں یعنی آٹھ سال بعد بڑھ کر 14 لاکھ ہو گئی تھی۔ نوزائیدہ ملک کے کارپردازوں نے 1948 میں ہی اس بات کا ادراک کر لیا تھا کہ کراچی میں نئی بستیوں کا قیام نا گزیر ہے اور شہر کے لئے نقل و حمل کے ذرائع بھی فراہم کرنے ہوں گے۔

1950 میں اس مقصد کے لیے ایک ادارہ تشکیل دیا گیا جس کا نام کراچی امپروومنٹ ٹرسٹ تھا۔ اس ادارے کے حوالے شہر کی توسیع اور نئی بستیوں کے لیے ٹرانسپورٹ کا نظام فراہم کرنا تھا لیکن یہ ادارہ 1957 تک کوئی خاطر خواہ کارنامہ سرانجام نہ دے سکا۔ اس دوران پاکستان کے پہلے وزیراعظم خان لیاقت علی خان کے امریکی دورے کے نتیجے میں پاکستان کو بین الاقوامی امداد اور قرضوں کی فراہمی شروع ہو گئی لہٰذا فنڈز کی فراہمی کے بعد کراچی میں پہلی دفعہ سرکاری سطح پر ٹرانسپورٹ کے نظام کی ابتدا ء کی گئی اور کراچی ٹرانسپورٹ سنڈیکیٹ کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا گیا اور اسے 280 بسوں کا ایک بیڑہ فراہم کیا گیا۔

اس ادارے کی ذمہ داری ان بسوں کو کراچی کی سڑکوں پر چلانا تھا تاکہ عوام کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لانے، لے جانے کے لیے ٹرانسپورٹ فراہم ہو سکے۔ بدقسمتی سے یہ ادارہ ایک سال میں ہی مالی طور پر دیوالیہ ہو گیا اور ختم کر دیا گیا۔ 1959 میں اقوام متحدہ نے کراچی کے شہری اداروں کو نئی آبادیوں کی تعمیر و ترقی کے لیے تکنیکی مدد فراہم کرنا شروع کردی اور گریٹر کراچی ری سیٹلمنٹ پلان کے نام سے ایک منصوبہ بنا کر دیا۔ اس منصوبے کا ایک حصہ کراچی کے شہریوں کی ٹرانسپورٹ کی ضروریات پوری کرنے کے لئے ایک

مجوزہ ادارے کا قیام بھی تھا۔ اس طرح ایک نیا ادارہ کراچی روڈ ٹرانسپورٹ کارپوریشن وجود میں آیا۔  یہ ادارہ مرکزی حکومت اور عوام کے مشترکہ منصوبے کے طور پر قائم کیا گیا تھا۔ عوام کو بھی اس کے حصص خریدنے کے لئے مدعو کیا گیا تھا۔ اور اس طرح 24 ڈبل ڈیکروں سمیت 324 بسیں کراچی شہر کی سڑکوں پر رواں دواں ہو گئیں اور ان بسوں کے لیے مناسب ڈپو اور ورکشاپس بھی تعمیر کیے گئے۔

ابتدائی سالوں میں کے آر ٹی سی کو بڑے جوش و خروش کے ساتھ چلا گیا لیکن الم ناک طور پر ہمارے قومی مزاج کا بڑا عنصر بد عنوانی اور لوٹ کھسوٹ سے عبارت ہے۔ کچھ دنوں میں کے آ ر ٹی سی کا ادارہ بد انتظامی اور مالی کر پشن کا گڑھ بن گیا اور 1964 کے آتے آتے بالکل ہی زمین بوس ہو گیا۔ اس المیے کے نتیجے میں کراچی کے شہر ی سرکاری سطح پر سر کا ری ٹرانسپورٹ سروس سے محروم ہو گئے۔

کے آر ٹی سی کی بس سروس تو فروری 1964 میں بند ہو گئی تھی لیکن کے آ ر ٹی سی ایک پبلک لمیٹڈ کمپنی تھی جس میں عوام کے حصص بھی تھے اور کچھ بڑے کاروباری ادارے بھی اس کے حصہ دار تھے۔ اس کمپنی کو کمرشل بینکوں نے قرضے بھی دیے ہوئے تھے۔ سب سے بڑا قرض اس زمانے کے مشہور بینک جس کا نام ”کامرس بینک“ تھا، نے دیا تھا۔ چنانچہ کامرس بینک نے اس دور کے مشہور تجارتی اور صنعتی ادارے و لیکا گروپ کے ساتھ مل کر تمام عوامی حصص خرید لی جب کہ حکومت پاکستان کے حصص ایک نجی ٹرانسپورٹ کے ادارے جس کا

نام گجرات ٹرانسپورٹ سروس تھا نے خرید لیا۔ ان سب نے مل کر ایک کنسورشیم بنایا اور خالد رفعت ٹرانسپورٹ کمپنی کا نام اختیار کر کے کے آر ٹی سی کا نظام و انصرام سنبھال لیا اور بس سروس کا دو بار آغاز کر دیا۔ شو مئی قسمت کہ یہ ادارہ بھی ما لی دیوالیہ پن کا شکار ہو گیا اور دسمبر 1967 میں بند ہو گیا۔ 1968 میں اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے دوبارہ حکومت پاکستان کی مدد کو آئے اور انہوں نے کراچی کا ماسٹر پلان بنانا شروع کیا۔

ان اداروں نے حکومت پاکستان کو مالی امداد بھی فراہم کی اور پاکستان روڈ ٹرانسپورٹ کارپوریشن کے نام سے ایک نیا ادارہ وجود میں آ گیا۔ اس کے ساتھ کراچی کی ٹرانسپورٹ سروس کے لیے ایک ذیلی ادارہ بنا دیا گیا جس کا نام ”ریجنل ٹرانسپورٹ اتھارٹی کراچی“ رکھا گیا۔ اس ادارے کے تحت کراچی اومنی بس شروع کی گئی۔ 1969 میں اس ادارے کو مزید 621 بسیں فراہم کی گئیں جو بالکل برانڈ نیو نہیں تھیں۔ یہ بسیں سویڈن کی حکومت کی طرف سے بطور تحفہ ملی تھیں جو اس سے پہلے کافی عرصے تک اسٹاک ہوم کی سڑکوں پر چلتی رہی تھیں اور بہت اچھی حالت میں تھیں، ہر ایک بس میں 80 مسافروں کے بیٹھنے کی گنجائش تھی، یہ خاصی آرام دہ بھی تھیں۔

لیکن ریجنل ٹرانسپورٹ اتھارٹی کراچی ان کی مرمت اور دیکھ بھال کا خاطر خواہ انتظام نہیں کر سکی اور بہت جلد یہ کراچی کی سڑکوں سے غائب ہو کر کباڑ خانے کی زینت بن گئیں۔ یہ بس سروس جیسے تیسے 1977 تک چلتی رہی۔ 1977 میں کراچی کے شہری ٹرانسپورٹ سسٹم کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے عالمی بینک کی طرف سے ایک کثیر رقم فراہم کی گئی۔ ایک دفعہ پھر ایک نیا ٹرانسپورٹ کا ادارہ تخلیق کیا گیا جس کا نام کراچی ٹرانسپورٹ کارپوریشن رکھا گیا۔ اس ادارے کو مقامی طور پر اسیمبل شدہ غیر معمولی طور پر لمبی 550 بسیں فر اہم کی گئیں۔ یہ ادارہ بھی مسلسل نقصان میں رہا اور 1996 میں مستقل طور پر بند ہو گیا۔

ایک طرف ہندوستان کے شہر بمبئی کے ٹرانسپورٹ کے ادارے سو سال سے ڈیڑھ سو سال قدیم ہونے کے باوجود قائم و دائم ہیں اور روز افزوں ترقی کر رہے ہیں۔ دوسری طرف مملکت خداداد کے سب سے بڑے شہر کے ٹرانسپورٹ کا نظام پچھتر سال گزرنے کے باوجود مستقل بنیادوں پر قائم نہ ہو سکا جبکہ اس دوران غیرملکی امداد، زرمبادلہ اور فنی صلاحیتیں فراہم کرنے کے لئے سہولتیں ملتی رہیں اور پچھتر سالوں میں اربوں روپے اس ایک منصوبے کو چلانے کے لیے برباد ہوتے رہے۔

اس تکلیف دہ موازنے سے ایک سوال یہ ابھرتا ہے کہ ایک ساتھ آزاد ہونے والے ان دو ملکوں کے دو سب سے شہروں کے درمیان یہ متضاد صورت حال کیوں پیدا ہوئی؟ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ممبئی جس ملک کا شہر ہے وہاں تمام تر مسائل کے باوجود پائیدار جمہوریت، پارلیمنٹ اور آئین کی بالا دستی، قانون کی حکمرانی ہے جب کہ ہم 75 سالوں سے اپنے سیاسی اور جمہوری نظام سے پنگ پانگ کھیل رہے ہیں۔ پون صدی میں کوئی جمہوری حکومت اپنی مدت پوری نہ کر سکی۔

کبھی صدارتی نظام کبھی پارلیمانی نظام۔ یہاں تک کہ ایک فوجی آمر تو کسی کمرشل ادارے کے سربراہ کی طرح ملک کے چیف ایگزیکٹو بھی کہلائے۔ بدقسمتی سے ان کے دور میں، ملک کمرشل ادارے کی طرح منافع بھی نہیں کما سکا البتہ ہوش ربا مہنگائی، بد انتظامی اور بدامنی کی وجہ سے عوام کی ”کمر۔ شل“ ہو گئی۔ ماشا اللہ آج پورے ملک کے ہر ادارے بشمول انتظامیہ، عدلیہ اور حتی کہ دفاعی ادارے تک خطرناک بحران کا شکار ہیں۔

ہم بحرانی کیفیت سے آج اور اسی وقت نکل سکتے ہیں۔ سادہ سی شرط صرف اس حقیقت کو ماننے کی ہے کہ آئین اور اس میں موجود تمام

اداروں اور قوانین کو پارلیمنٹ نے جنم دیا ہے۔ جب تمام ادارے پارلیمنٹ کی بالا دستی کو قبول کر لیں گے ہم بحرانوں سے نکل آئیں گے۔ مسئلہ یہ ہے کہ یہ سادہ سی شرط ان کے لیے نہایت مشکل ثابت ہو رہی ہے جو ملک پر عوام کے نمائندوں کی نہیں بلکہ اپنی حکمرانی چاہتے ہیں۔ ممبئی اور کراچی کے درمیان فرق صرف نظام کا ہے۔ پاکستان نے 75 سال جمہوریت میں گزارے ہوتے تو شاید کراچی آج ممبئی سے آگے ہوتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments