آکاس بیل


وہ سیالکوٹ سے ملتان پہنچنے والے تھے۔ گاڑی رواں تھی۔ اس دفعہ انھوں نے گھر کی طرف جانے کے لئے موٹروے سے اتر کے صرف این۔ فائیو کو استعمال کرنے کی بجائے، موٹر وے سے پاکستان اسکوائر تک این۔ فائیو کے ذریعے وہ لنک لیں نے کا ارادہ کیا۔ جس کے آج کل بہت چرچے تھے۔ پچھلے مہینے ہی اس لنک کا باقاعدہ استعمال شروع ہوا ہے۔ لیکن وہ دونوں ابھی تک اس پر سفر نہیں کر سکے تھے۔ ورنہ یہ ان کے گھر کی طرف جانے کا سب سے قریبی راستہ تھا۔

جب سے اس پراجیکٹ کا افتتاح ہوا تھا، مشہوری کی جا رہی تھی۔ کہ پورے شہر سے گزرے بغیر مسافر براہ راست خانیوال روڈ پر پہنچیں گے اور وہاں سے منٹوں میں موٹروے تک۔ تقریباً دس کلومیٹر کا فاصلہ حذف ہو جائے گا۔ ٹریفک ہجوم سے واسطہ نہیں پڑے گا۔ وقت اور ایندھن کی بچت ہو گی۔ کھلی ڈھلی سو فٹ چوڑی، نئی بنی ہموار سڑک پر گاڑیوں کے نقصان کے خدشات بھی گھٹ جائیں گے۔ اور اس کے علاوہ معیاری ’رائیڈ‘ کے مزے تو ’اضافی بونس‘ سمجھیں۔

اس لئے جونہی موٹر وے کا سفر اختتام پذیر ہوا۔ نیشنل ہائی وے سے ہوتے ہوئے، پاکستان اسکوائر سے گاڑی جانب منزل چل پڑی۔ جتنے فوائد اوپر لکھے ہیں، جتنی باتیں سنی تھیں، سب من و عن سچ ثابت ہو رہی تھیں۔ کانوں سنی، آنکھوں دیکھی بن رہی تھیں۔ لیکن جوں جوں سفر گھٹ رہا تھا۔ دل کا بوجھ بڑھ رہا تھا۔ ذہنی گرہیں مزید گنجلک ہو رہی تھیں۔ میلوں کا راستہ جگہ جگہ دل نوچ رہا تھا۔

صاحب کہنے لگے، بیس منٹ سے اس نئی پوش آبادی سے گزر رہے ہیں۔ دس ہزار ایکڑ کے رقبے پر پھیلی ہے یعنی چالیس مربع کلومیٹر۔ جب کہ پورا ملتان شہر دو سو ستائیس کلومیٹر پر ہے۔

وہ الجھی بیٹھی تھی۔ بولی۔ پتہ نہیں، ہم نئے شہر کیوں نہیں بساتے؟ کیا نہیں بسا سکتے؟
کیوں نہیں؟ ہو سکتا ہے۔
پھر ہم کرتے کیوں نہیں؟ کتنے کراچی، لاہور جیسے بے ہنگم شہر ہم اور بنانا چاہتے ہیں؟

نیت اور ارادہ ہو تو کچھ مشکل بھی نہیں۔ سب ’بیوروکریسی اور ٹیکنو کریسی‘ کا کھیل ہے۔ ورنہ نئے شہر بسانا اور ان کی انتظامی دیکھ بھال زیادہ آسان ہو گی۔

بلکہ اس کے لئے علیحدہ وسائل بھی موجود ہوں گے۔ اس پوش سوسائٹی کی طرح نہیں جو اپنے آپ میں ایک چھوٹا شہر ہے۔ وسائل مرکزی آبادی کے کھاتا ہے۔ لیکن انتظامی طور پر خود مختار۔

صحیح کہتے ہیں، رات کے اس پہر اتنے ایکڑ پر جلتی روشنیاں دیکھیں، مصنوعی فوارے، آبشاروں پر نظر کریں۔ اور باقی شہر دن رات کے چوبیس گھنٹوں میں آدھا وقت تاریکی میں ڈوبا رہتا ہے۔ لوگ روزمرہ استعمال کا پانی بھی ہاتھ کھینچ کر بہاتے ہیں۔ گیس کی لوڈ شیڈنگ کا شکار رہتے ہیں۔

ویسے ہمارے شہروں میں پوری آبادی کا اوسطا کتنے فی صد متمول طبقہ ہوتا ہے؟
بالکل صحیح اعداد و شمار تو نہیں معلوم۔

کیا ’رجے (پنجابی لفظ جس کا مطلب بھرے پیٹ کا ہے )‘ ہوئے کو مزید ’رجانے‘ کے لئے ہمیں اپنی سب سے قیمتی زرعی زمین کی بھی پرواہ نہیں۔ مقامی و سودیشی آبادی، ان کے روزگار، ان کی مرضی، مقامی نباتات و حیوانات کا دھیان تو پھر دور کی بات ہے۔

ہے تو ایسا ہی۔
بالکل آکاس بیل کی طرح۔
آکاس بیل؟
ہاں! نہیں پتہ کیا؟
معلوم ہے، یہاں تو جگہ جگہ نظر بھی آ رہی ہیں۔ وہ اپنے بائیں سمت، سڑک کے پار دیکھیں۔
ہاں، ہاں بالکل وہی۔

آپ جانتے ہوں گے کہ یہ ایک ’طفیلیئہ‘ دوسرے لفظوں میں ’پیراسائٹ‘ ہے۔ یعنی دوسرے پودوں کی طرح خود خوراک پیدا نہیں کرتی۔ بلکہ نباتات کے اس گروپ سے ہے جو دوسروں سے خوراک وصول کرتا ہے۔ بغیر جڑ اور پتوں کے یہ بیل جس درخت پر بھی چڑھ جائے یا ڈالی جائے تو اپنا پیٹ بھرنے کو اسے چوسنا شروع کر دیتی ہے۔ رفتہ رفتہ بڑے بڑے پودے کھڑے کھڑے سوکھ جاتے ہیں لیکن یہ اوپر ہری بھری رہتی ہے۔ اس کی حیات اس درخت/پودے کی موت سے نمو پاتی ہے جس پر یہ انحصار کرتی ہے۔

بہت دلچسپ۔

اچھا اور سنیں، سولہویں صدی عیسوی میں ایسے شخص کو بھی ’پیراسائٹوس‘ کہتے تھے جو کسی دوسرے کی میز پر جا کر مفت کھانا کھائے۔ اور انگریزی زبان میں اس سے مراد ایسے لوگ بھی ہیں جو بلا معاوضہ دوسروں سے فائدہ اٹھائیں یعنی ’ابن الوقت‘ قسم کے لوگ۔

اور سنیں اسے امر بیل بھی کہتے ہیں۔
امر؟ ہمیشہ زندہ رہنا۔ مطلب یہ کہ یہ ہمیشہ زندہ رہنے والی بیل ہے۔
کہہ سکتے ہیں۔ تب تک، جب تک کوئی اسے کھلانے کو موجود ہے۔ اس کی طوالت کسی کے فنا ہونے سے وابستہ ہے۔
ہوں۔ بہت ہی عمدہ تشبیہ دی ہے آپ نے۔

اتنے میں گاڑی گھر کے دروازے پر رک گئی۔ بے شک وہ تھوڑے وقت میں آرام سے اپنے آشیانے پر پہنچ گئے۔ لیکن اس سہولت میں بھی بے آرامی تھی۔ اس آدھے گھنٹے کے پر تعیش ’ڈرائیو‘ نے انھیں ایسی کئی آکاس بیلوں سے متعارف کروایا تھا جو ہمارے کئی درمیانے اور چھوٹے درجے کے شہروں کو چمٹ گئی ہیں۔ اور جو نا صرف بڑی تیزی سے ان شہروں کی حدود سے متصل دیہی و زرعی آبادیوں اور زمینوں کو کھا رہی ہیں، صدیوں سے مقیم مقامی لوگوں کے لئے رہائش، روزگار، سماجی میل جول کے مسائل پیدا کر رہی ہیں، مقامی چرند و پرند کو بے گھر اور زبردستی ہجرت پر مجبور کر رہی ہیں۔ بلکہ ان کے اپنے ’انفراسٹرکچر اور سروسز‘ کے وسائل بھی چپ چاپ چرا رہی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments