احساس زیاں جاتا رہا!


تمام تر اشاریوں کے مطابق وطن عزیز اپنی پچھتر سالہ تاریخ کے بدترین معاشی دور سے گزر رہا ہے۔ اکثر و بیشتر ماہرین معاشیات وقتاً فوقتاً صورت حال کی سنگینی سے خبردار کرتے رہتے ہیں۔ ہماری ترجیحات مگر کچھ اور ہی دکھائی دیتی ہیں۔ امریکہ میں مقیم پاکستانی نژاد ممتاز ماہر معیشت عاطف میاں کا شمار دور حاضر میں عالمی سطح پر نامور پچیس بڑے معیشت دانوں میں ہوتا ہے۔ گزشتہ دنوں اپنے چند ٹویٹس کے ذریعے عاطف میاں نے پاکستانی معیشت کی صورت حال کو ’ٹیل سپن‘ سے تشبیہ دی ہے۔

جہاں ایک طرف شرح نمو جمود کا شکار ہے تو دوسری طرف مہنگائی ناقابل یقین بلندیوں کو چھو رہی ہے۔ عاطف کے مطابق حکومت اس وقت بوکھلاہٹ کے اس عالم میں نوٹ چھاپ چھاپ کر کام چلا رہی ہے۔ ملکی برآمدات اور زر مبادلہ کے ذخائر خطرناک حد تک کم ہو چکے ہیں۔ ایک طرف جہاں روپے کی گرتی ہوئی قدر کو قابو میں لانا موجودہ حکومت کے بس کی بات نظر نہیں آتی تو وہیں دائمی سیاسی محاذ آرائی کے پیش نظر صورت حال میں بہتری کے امکانات بھی دور دور تک دکھائی نہیں دے رہے۔

عاطف میاں موجودہ وزیر خزانہ کی آئی ایم ایف سے بروقت معاہدہ کرنے میں ناکامی اور ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر کو غیر منطقی سطح پر برقرار رکھنے کے اصرار کی احمقانہ روش کو درپیش بظاہر ناقابل تسخیر مشکلات کا کلیدی سبب قرار دیتے ہیں۔ تاہم اس سب کے باوجود ان کا عہدے پر موجود رہنا ان کی نواز شریف سے رشتے داری کا مرہون منت بتاتے ہیں۔ عاطف میاں کے مطابق ہماری معیشت اس وقت حالت بحران سے آگے بڑھتے ہوئے مکمل تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے۔

پورا معاشی نظام اپنی جڑوں سے اکھڑ چکا ہے۔ در پیش صورت حال کے لئے عاطف میاں سیاستدانوں، ججوں اور جرنیلوں کو یکساں طور پر مورد الزام ٹھہراتے ہیں۔ عاطف میاں کے مطابق پاکستان کا ’اعصابی نظام‘ جو ٹوٹ کر بکھر چکا ہے، اس کی بحالی کے طویل سفر کا آغاز مقتدر حلقوں کی جانب سے مل کر متعدد سیاسی اور انتظامی اقدامات فوری طور پر اٹھانے سے ہی ممکن ہے۔

سال 2018 ء سے اپریل 2022 ء کے درمیانی عرصے میں جن بڑے اخباروں میں اس وقت کی حکومت کی معاشی پالیسیوں پر کڑے تنقیدی مضامین زور و شور سے شائع ہوتے تھے، حالیہ مہینوں کے اندر ان مضامین کو لکھنے والوں نے حیران کن طور پر خاموشی اختیار کیے رکھی ہے۔ تاہم گزشتہ کچھ عرصے سے طاقتور مغربی لابی کے ترجمان ایک بڑے انگریزی اخبار میں حقائق پر مبنی کچھ مضامین اور اداریے ہمیں پڑھنے کو ملنے لگے ہیں۔ اپنے ایک ایسے ہی حالیہ اداریے میں اخبار نے سوال اٹھایا ہے کہ کیا ہم اس دور میں داخل ہو چکے ہیں کہ جہاں بڑے بڑے مسیحاؤں کے بت ٹوٹتے دکھائی دینے لگتے اور یہ ادراک ہونے لگتا ہے کہ وہ جنہیں ہم برسوں ’قومی رہنما‘ سمجھتے رہے، کچھ اور نہیں محض اپنے اپنے مفادات کے اسیر تھے۔

اخبار کے مطابق سیاستدان، جج، جرنیل اور بیوروکریٹس اقتدار اور طاقت کے حصول کی رسہ کشی کی خود غرضانہ کش مکش میں اس قدر مگن ہو چکے ہیں کہ کہا جا سکتا ہے کہ انہیں تباہی کے دہانے کی طرف گھٹنوں کے بل گھسٹے چلے جانے والے اپنے کروڑوں ہم وطنوں کی کوئی پرواہ نہیں۔ افغانستان میں سابق امریکی مستقل نمائندے رمزے خلیل زاد نے بھی گزشتہ دنوں پاکستان اور بھارت کے مابین بڑھ جانے والے غیر معمولی معاشی تفاوت اور ملکی سلامتی کو لاحق خطرات کی نشاندہی کرتے ہوئے مقتدر حلقوں کو اندرونی خلفشار پر قابو پانے کے لئے فوری اقدامات بشمول انتخابات کے ذریعے نمائندہ حکومت کے قیام کا جو مشورہ دیا اسے ہمارے ہاں صلیبی اور صیہونی سازش کا حصہ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا گیا تھا۔

حضرت علی کرم اللہ وجہ کا قول ہے، یہ نہ دیکھو کون کہہ رہا ہے، یہ دیکھو کیا کہہ رہا ہے۔ عاطف میاں کے اجمالی تجزیے کو نہ صرف بڑے انگریزی اخبار نے نمایاں طور پر شائع کیا ہے، بلکہ اگلے ہی روز اس پر ایک زور دار اداریہ بھی لکھا ہے۔ عاطف میاں کے تجزیے کو زیر بحث لاتے ہوئے اخبار نے بھی کھل کر یہی اعتراف کیا ہے کہ جہاں موجودہ معاشی بحران کا حل سیاسی استحکام کے ذریعے ہی ممکن ہے وہیں انتخابات سے موجودہ حکمرانوں کے فرار کی کوششوں کے پیچھے کچھ اور نہیں معاشی ناکامیاں ہی کارفرما ہیں۔

عاطف میاں کی طرح موجودہ وزیر خزانہ کو ہی موجودہ تباہ کن صورتحال کے لئے ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ جہاں ایک طرف عوام غربت، بے روز گاری اور اپنے مستقبل سے متعلق بے یقینی کا شکار ہیں تو وہیں قومی ادارے ایک دوسرے کے ساتھ باہم دست و گریباں ہیں۔ مغرب نواز اور الیٹ طبقات کے ترجمان اس اخبار نے بجا طور پر سوال اٹھایا ہے کہ ملکی تاریخ کے اس بدترین معاشی بحران کے اندر کیا ہمارے مقتدر الیٹ حلقوں کو اپنے اپنے گروہی مفادات کی جنگ سے تھوڑا وقت نکال کر عام پاکستانیوں کی حالت زار پر بھی نظر دوڑانے کی کچھ فرصت ملے گی یا نہیں؟

عاطف میاں کا تعلق کسی سیاسی جماعت سے نہیں۔ مذکورہ انگریزی اخبار کو بھی موجودہ حکومت کا مخالف یا کم از کم عمران خان کا ہمدرد تو قرار نہیں دیا جا سکتا۔ چنانچہ مقتدر حلقوں کو ہر دو کی بات کو توجہ سے سننے کی ضرورت ہے۔ دوسری طرف مگر دکھائی یہی دیتا ہے کہ اپنے گھر کو زمین بوس ہوتے ہوئے دیکھ کر بھی ہمارے ہاں بے حسی کا یہ عالم ہے کہ اقتدار کے لئے جاری کش مکش کے اندر غربت کی چکی میں پسے چلے جانے والوں کو بظاہر ان کے حال پر چھوڑ دیا گیا ہے۔

سفید پوش مڈل کلاس گھرانوں سمیت کروڑوں پاکستانیوں کی حالت زار پرکیا کچھ لکھنے کی ضرورت ہے؟ متوسط طبقہ کہ مستقبل سے متعلق اندیشہ ہائے دور دراز کا شکار ہے۔ آٹے کی قطاروں میں گھنٹوں انتظار کرنے والے ہزاروں بے وسیلہ پاکستانیوں میں سے محض چند دنوں کے اندر بیس بے گناہ مرد وزن جانوں سے ہاتھ دھو چکے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ اس برس رمضان کے با برکت مہینے میں ایک اندازے کے مطابق چھیپا، ایدھی اور ان جیسی دیگر فلاحی تنظیموں کو ملنے والے عطیات میں 50 فیصد تک کمی جبکہ دست نگر ہو جانے والوں کی تعداد میں اسی تناسب سے اضافہ ہو چکا ہے۔

کراچی میں برسوں سے مفت لنگر چلانے والی ایک معروف تنظیم کو مبینہ طور پر اس برس مشکلات کا سامنا ہے۔ پنجاب کے نگران وزیر اطلاعات سے بیان منسوب ہے کہ آٹے کی قطاروں میں مرنے والوں کی تعداد صرف چار تھی۔ باقی جو مرے وہ دل کا دورہ پڑنے کی وجہ سے مرے۔ دو چار راستے میں جبکہ دو چار اپنے اپنے گھروں میں جا کر مرے۔ دوسری طرف پوری کی پوری وفاقی حکومت یہ ثابت کرنے پر جٹی ہوئی ہے کہ فیصلہ دو تین کا نہیں، بلکہ تین چار کا تھا۔ مرنے والے انسان ہوں یا آئین میں درج شقیں، بے وقعت ہو کر محض ہندسوں میں بدل کر رہ گئے ہیں۔ پارلیمنٹ کا اجلاس مسلسل کئی روز سے جاری ہے۔ معیشت مگر زیر بحث نہیں۔ ایک کے بعد ایک معزز رکن عدلیہ پر حملہ آور اور عمران خان پر ذاتی حملے کرتا ہے۔ ارد گرد بیٹھے ہنستے اور محظوظ ہوتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments