عید، مومنین اور مادھوری کا دوپٹہ


جس نے بھی یہ بات کہی ہے سو فیصد صحیح کہی ہے کہ عید تو بچوں کی ہوتی ہے۔ بڑوں کے لیے تو بس یہ خرچے کی وعید ہوتی ہے اور وعید شدید ہوتی ہے۔ بچپن میں بڑے شوق سے بڑوں کے گھٹنوں اور ٹانگوں پر احتراماً ہاتھ لگا کر اپنے سلیقہ مند ہونے کا ثبوت دے کر سب بچے عیدی وصول کرنے پہنچ جاتے تھے بھلے پورے محلے میں سکہ بند بدمعاش ہی کیوں نہ ہوں۔ خیر اب تو حال یہ ہے کہ جب کوئی بچہ عید کے روز احتراماً ٹانگوں کی طرف ہاتھ بڑھاتا ہی ہے تو بقول شخصے ”کانپیں ٹانگ جاتی ہیں“ ۔

ہوش سنبھالنے کے بعد جب عید منائی تو اس سے پہلے رمضان کے آخری دنوں میں ابو کو کرارے نوٹوں کی گڈی ہم بچوں سے چھپاتے ہوئے ایک جگہ رکھتے دیکھا۔ میں دنگ رہ گیا۔ ساری رات نیند نہ آئی۔ میں ابو کو ایسا نہیں سمجھتا تھا۔ اتنا ہوش میں سنبھال چکا تھا کہ میرے علم میں تھا کہ یہ نوٹ اس وقت کام میں آتے ہیں جب بندہ ہوش میں نہ ہو۔ خیر سوال جواب تو کر نہیں سکتے تھے چناں چہ قدرت کے انتظام کے آگے سر تسلیم خم کر دیا۔ وہ تو جب عید کے دن عیدی ملی تو شک رفع ہوا۔ آج کل کے بچے تو بالکل لحاظ نہیں کرتے اور فوراً ہی پوچھ لیتے ہیں، ابو جی؟ کدھر؟

ہمارے زمانے اچھے تھے کہ 10 روپے کے دو تین کرارے نوٹ مل جاتے تو عیدی کے ابال پر زوال آ جاتا تھا لیکن آج کل سو روپے کا نوٹ بھی کسی عزیر کے گھر جا کر عیدی دینے کو نکالو تو بچوں کے عیدی والے ابال میں دھمال مچ جاتا ہے۔ بے نقط تو چھوڑیں باقاعدہ نکات کے ساتھ کھری کھری سنا دیتے ہیں اور جذباتی طور پر واقعتاً اگلے بندے کا منہ کالا کر کے رکھ دیتے ہیں یعنی کہ ایموشنلی بلیک میل۔ اوپر سے جناب نے اگر دو ایک روزے بھی رکھ لیے ہوں تو پھر تو دھمال رکتا ہی نہیں۔ بھئی خدا کے لیے روزے رکھے تھے نا تو خدا جزا دے گا۔ ثواب ملے گا جنت ملے گی لیکن نہیں پیسہ چاہیے بس۔

اس پر مستزاد یہ کہ آج کل کے اکثر فریش والدین بھی ممی ڈیڈی ہو گئے ہیں۔ سب کو معلوم ہوتا ہے کہ ان کا بچہ کتنا خرانٹ ہے اور کیا گل کھلاتا ہے۔ لیکن مجال ہے دوسرے کے گھر جا کر اسے ایک بار بھی دھما چوکڑی مچانے سے منع کر دیں۔ بس یہ کہہ دیتے ہیں کہ اوہو نومی بیٹا، یہ کیا کر رہے ہو ہیں۔ بندہ پوچھے کیا کر رہے ہو؟ تم کیا کر رہے ہو، نظر تو آ رہا ہے بابا منع کرو بچے کو۔ عید کے لیے سجائی گئی میز پر کوئی بد تمیزی کرے تو دل کرتا ہے انسان اس کو دو بار سجا ( س کے اوپر پیش پڑھا جائے ) کر رکھ دے لیکن کیا کر سکتے ہیں بھئی، مہمان کے بچے اللہ میاں سچے۔

زیادہ مسئلہ تب آتا ہے جب آپ کا ایک ہی بچہ ہو اور عید ملنے 4 چھوٹے چھوٹے بچوں والا کوئی عزیز آ جائے۔ پہلا حل یہ ہے کہ رمضان میں ان صاحب سے زیادہ میل جول نہ رکھیں۔ عید کے بعد سلام دعا پھر سے شروع کر دیں۔ دوسرا یہ کہ خود سے ان کی طرف عید ملنے نہ جائیں۔ لیکن پھر بھی قسمت آپ کے پیسوں کی واٹ لگانے پر تلی ہو تو اتنی کم عیدی دیں کہ واپس آپ کے بچے کو اس سے زیادہ یا کم از کم اتنی ضرور ملے۔

عید گرمیوں میں آ جائے تو کوشش کریں کہ عید کی نماز پڑھنے کے لیے جلد از جلد مسجد پہنچ جائیں۔ ایسا اس لیے کہ زیادہ تر محلے دار اور عزیز وہیں نپٹ جاتے ہیں اور ان کے گھر جانا نہیں پڑتا اور ان کی مہمان داری سے آپ بھی بچ جاتے ہیں۔ ان میں اگر کئی زیادہ بچوں والے افراد بھی آپ سے عید مل جائیں تو یہ عمل آپ اور آپ کی جیب کے لیے بونس خوشی مہیا کرنے میں سازگار ہو گا۔ ایک اور وجہ یہ کہ عید کی نماز میں رش زیادہ ہوتا ہے تو انتظامیہ مومنین کے لیے مسجد کے صحن اور بعض اوقات سڑک پر تمبو لگا کر صفیں ڈال دیتی ہے۔ یہ تمبو دھوپ کو روکنے میں اتنا کردار ادا کرتے ہیں جتنا مادھوری ڈکشٹ کی کسی بھی فلم میں ان کا دوپٹہ۔

عید کی نماز کے لیے گھروں سے جلدی خروج کرنے والے مومنین کرام تمبو کے نیچے سائے والی جگہ پہلے مل کر بیٹھ جاتے ہیں اور بعد میں آنے والے مومنین دھوپ میں عید کی نماز پڑھتے ہوئے خود تمبو بن جاتے ہیں۔ نئے کرتوں اور قمیصوں کی ”بغلیں تر بہ تر ہو جاتی ہیں اور عید ملنے کے لیے جب لوگ بازو کھولتے ہیں تو نمکیات سے بنے برمودا ٹرائی اینگل کے نقشے ہر بندے کی بغل پر نمایاں ہو جاتے ہیں۔ اگر کوئی عطر کا استعمال کرتا ہو تو ٹھیک ورنہ ہر سو ایک ”ناراض بو“ پھیل جاتی ہے۔ خوش تو وہ بو بہر حال نہیں ہوتی۔

ذاتی تجربے سے یہ بات ثابت کر دیتا ہوں کہ ایک بار ہم گھر سے لیٹ نکلے اور جگہ ملی مسجد کے باہر سڑک پر بچھی صف میں۔ تمبو بھی کچھ مرجھایا ہوا ہمیں دیکھ رہا تھا۔ کچھ سایہ تو بہر حال موجود تھا مگر صف کے عین آگے گٹر بھی پوری آب و تاب کے ساتھ موجود تھا۔ شکر ہے کہ ڈھکن مضبوطی سے بند تھا لیکن اندر سے پانی کے گرنے کی آواز آ رہی تھی۔ بڑی مشکل ہوئی عید کی نماز پڑھتے ہوئے۔ اس لیے پہلے آئیے پہلے پائیے کی بنیاد پر عید کی نماز پڑھنے جلدی نکلا کریں گھر سے۔

خاور جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

خاور جمال

خاور جمال پیشے کے اعتبار سے فضائی میزبان ہیں اور اپنی ائیر لائن کے بارے میں کسی سے بات کرنا پسند نہیں کرتے، کوئی بات کرے تو لڑنے بھڑنے پر تیار ہو جاتے ہیں

khawar-jamal has 41 posts and counting.See all posts by khawar-jamal

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments