سابق سفیر عبدالباسط کے جواب میں


Loading

سول سروس آف پاکستان کا امتحان اعزاز کے ساتھ پاس کرنے والوں کو وزارت خارجہ میں تعینات کیا جاتا ہے اور اس اہم شعبہ سے منسلک ہونے والے اپنی سروس کے دوران نہ صرف مختلف ممالک میں کام کرنے کا تجربہ حاصل کرتے ہیں بلکہ اپنی ساری سروس کے دوران ڈپلومیٹ ماحول میں رہنے کی وجہ سے انسانی اخلاق و عادات کا نکھار ان کے طرز تکلم، سوچ، لباس اور عادات میں نمایاں نظر آتا ہے۔ لیکن اعلی اقدار کی یہ خوبیاں ہر کسی بیٹھے بٹھائے نہیں مل جاتیں۔ اس کے لئے ریاضت درکار ہوتی ہے۔

محترم عبدالباسط صاحب پاکستان وزارت خارجہ کے ترجمان رہے ہیں۔ سروس کے دوران ماسکو، نیویارک، جنیوا، لندن کے پاکستانی سفارتی مشنوں سے منسلک رہے۔ وزارت خارجہ کی ترجمانی کے دوران ٹیلی وژن پر نظر آنا شروع ہوئے۔ 5 مئی 2012 سے یکم مارچ 2014 تک جرمنی میں پاکستان کے سفیر رہے اور بحیثیت سفیر یہ ان کی پہلی تقرری تھی۔ ایک سفیر کی تقرری تین سال کے لئے ہوتی ہے۔ سوائے اس کے کہ غیر معمولی حالات میں حکومت اپنے سفیر کو نئی ذمہ داریاں تفویض کرے، سفیر اپنا تین سال کے لئے کیا جانے والا تقرر پورا کرتے ہیں۔ عبدالباسط صاحب کو بھی جرمنی میں ابھی تین سال پورے نہیں ہوئے تھے کہ ان کا نام وزارت خارجہ کے سیکرٹری کی اہم پوسٹ کے لئے فائنل ہو گیا اور یہ قبل از وقت جرمنی سے اسلام آباد روانہ ہو گئے۔ اس وقت عبدالباسط صاحب 21 ویں گریڈ میں تھے اور سیکرٹری خارجہ 22 ویں گریڈ کے افسر کو لگایا جاتا ہے۔ چنانچہ اس نئی تقرری پر اسلام آباد میں موجود سنیئرز کی طرف سے کافی غل غپاڑہ ہوا جس کے بعد عبدالباسط صاحب کی بجائے قرعہ فال اعزاز چوہدری صاحب کے نام نکلا۔ ایک وجہ یہ بھی تھی کہ سیکرٹری خارجہ کا چارج سنبھالنے سے قبل ہی عبدالباسط صاحب نے اپنے پسندیدہ افسران کے تبادلے کے احکامات جاری کرنے شروع کر دیے تھے۔ وزارت خارجہ کا چارج تو ان کو نہ ملا البتہ ان کو بھارت میں پاکستان کا ہائی کمشنر لگا دیا گیا جو کافی سنیئر پوسٹ تصور کی جاتی ہے۔ وہ 2017 تک بھارت میں پاکستان کے سفیر رہے لیکن ان کی نگاہ وزارت خارجہ کی سیکرٹری شپ پر ٹکی رہی۔ جب یہ اہم پوسٹ ایک بار پھر خالی ہوئی تو وہ اصرار کر کے واپس اسلام آباد آ گئے اور سیکرٹری وزارت خارجہ کے لئے لابنگ شروع کر دی لیکن اپنے ہی ساتھیوں کی کرامات کی بدولت دال نہ گل سکی تو قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے کر آرٹیکلز میں اپنا غصہ نکالنا شروع کر دیا۔ اب کچھ عرصہ سے Kaleidoscope کے نام سے یو ٹیوب پر روزانہ پروگرام کرتے ہیں جس میں زیادہ تر خارجہ امور پر حکومتی پالیسیوں پر تنقید اور اپنی دانست میں مفید مشورے بھی دیتے ہیں۔ یہ ان کی شفقت ہے کہ پرانے تعلق کی بنا پر انہوں نے اپنی ای میل لسٹ میں مجھے شامل کر رکھا ہے جس سے مجھے ان کے خیالات اور سوچ کے زاویوں سے آگہی حاصل ہوتی رہتی ہے۔ اپنے ایک حالیہ پروگرام میں جو آذربائیجان کے اسرائیل میں سفارت خانہ کھولنے کے حوالہ سے ہے، انہوں نے زبردستی بات کا رخ جماعت احمدیہ کی طرف پھیر دیا ہے اور اپنے ناظرین کو یہ غلط اطلاع بہم پہنچائی ہے کہ قادیانی (احمدی) حکومت پاکستان پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ اسرائیل کو تسلیم کرے۔ عبدالباسط صاحب کے اصل الفاظ یہ ہیں

”آذربائیجان کے روس سے علیحدہ ہونے کے بعد اسرائیل نے 1993 میں آذربائیجان کو تسلیم کیا اور اپنا سفارتی مشن کھولا۔ اسرائیل کے وزیراعظم نے 2016 میں آذربائیجان کا دورہ بھی کیا۔ البتہ آذربائیجان نے ابھی تک اسرائیل میں اپنا سفارت خانہ نہیں کھولا تھا۔ اب امسال 29 مارچ کو آذربائیجان نے تل ابیب میں اپنا سفارت خانہ کھولا ہے۔ پاکستان میں بھی ہمیں ایک لابی نظر اتی ہے جو چاہتے ہیں کہ پاکستان اسرائیل کو تسلیم کرے۔ تعلقات ہمارے قائم ہوں اور پھر سفارت خانے بھی کھلیں۔ قادیانی جو یہاں ہیں اور ان کے جو باہر لوگ ہیں وہ بہت active ہیں۔ امریکہ، یو کے، جرمنی میں اقلیتی گروپ قادیانیوں کا بہت active ہے کہ کسی طریقہ سے پاکستان اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرے“ ۔

پھر آگے جا کر عبدالباسط صاحب ایک اور دور کی کوڑی لاتے ہیں کہ اقلیتی کمیونٹی چاہتی ہے کہ کشمیر کا معاملہ پیچھے ہٹ جائے۔ عبدالباسط صاحب کی طرف سے لگائے جانے والے دونوں الزام اس زہریلے پراپیگنڈہ کا حصہ ہیں جو احمدیہ کمیونٹی کے خلاف پاکستان میں تواتر سے جاری رہتا ہے اور احمدیہ کمیونٹی کی طرف سے دیے جانے والے تردیدی بیان اور اصل حقیقت کو کوئی نشر کرنے کو تیار نہیں۔ جبکہ جماعت کے اپنے رسائل و اخبارات کی اشاعت پر پابندی عائد ہے۔ احمدیہ چینل ایم ٹی اے کو دیکھنے کے راستے مسدود کر دیے گئے ہیں۔ نمازوں کی ادائیگی کے بعد درس کی روایت خوف کے باعث مجبوراً ماضی کا حصہ بنتی جا رہی ہے۔ نماز تراویح اسلامی عبادت ہے۔ جہاں بقرعید پر جانور ذبح کرنے اور اسلامی نام سے پکارنے پر ایف آئی آر کٹ جایں وہاں نماز تراویح کی ادائیگی ایک رسک بن جاتا ہے۔ عبدالباسط صاحب جبری استبداد کے ان حالات سے بخوبی واقف ہیں، پھر بھی کوئی ثبوت پیش کیے بغیر انہوں نے بہتی گنگا میں اشنان کرنا ضروری سمجھا۔ کون سا کسی نے کوئی جواب دینا ہے یا پوچھنا ہے کہ آپ کو اپنے مقام سے چھوٹی بات کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟

شنید ہے کہ ان کی طبیعت میں موجود یہی سچ جھوٹ کی آمیزش ان کے سیکرٹری خارجہ بننے میں رکاوٹ بنی۔ کہنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں۔ He is not truthful person۔

آج کل پاکستان کے اخبارات میں صفحہ اول پر حکومت کی طرف سے بڑے بڑے اشتہارات شائع ہو رہے ہیں جن میں ان 84 انتہا پسند اسلامی تنظیموں کے اسماء درج ہیں جن کو فطرانہ اور عید فنڈ جمع کرنے کی ممانعت ہے۔ ان میں وہ تنظیمیں بھی شامل ہیں جن کے ڈر سے حکومت احمدیوں کو ان کے بنیادی حقوق تک دینے کو تیار نہیں۔ ان تنظیموں کے افراد شہروں، قصبوں میں دندناتے پھرتے ہیں، احمدیہ عبادت گاہوں کے مینار مسمار کرتے اور قبرستانوں میں مرحومین کی قبروں کی بے حرمتی کرتے پھرتے ہیں اور کوئی ان کی باز پرس کرنے والا نہیں۔ اس ماحول میں احمدی خوف سے خاموش زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ ان پر عبدالباسط صاحب نے یہ تہمت لگائی ہے کہ وہ کوشاں ہیں کہ حکومت پاکستان اسرائیل کو تسلیم کر لے۔ تعصب کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ جن کے اپنے گھر اور چار دیواری محفوظ نہیں، وہ ہوا کے رخ کے خلاف کیونکر جا سکتے ہیں۔ وہ اس گھٹن کی فضا میں خود سانس لے لیں تو بڑی بات ہے۔ جہاں تک بیرون پاکستان کا تعلق ہے، عبدالباسط صاحب نے قیام جرمنی کے دوران خود مشاہدہ کیا کہ جب انہوں نے جرمنی میں پیدا ہونے اور تعلیم حاصل کرنے والی پاکستانی نسل سے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا تو سب سے پہلے ان کی اس خواہش کی تکمیل میں کون میدان میں اترا۔ 8 دسمبر 1912 کو اپ برلن سے فرینکفرٹ تشریف لائے اور اس میٹنگ میں جو اردو جرمن کلچرل سوسائٹی کے زیر اہتمام منعقد ہوئی اس تقریب میں شامل افراد اسی کمیونٹی سے تھے جو اب ریٹائر منٹ کے بعد اپ کی آنکھوں میں کھٹک رہی ہے۔

آپ کی الوداعی تقریب میں جو الوداعی ایڈریس آپ کو پیش کیے گئے جن کو آپ نے سراہا اس میں اس کمیونٹی کے ایک فرد کی طرف سے پڑھے جانے والے ایڈریس کا آپ نے بطور خاص ذکر کیا۔ آپ کو شاید علم نہ ہو کہ جن کو آپ مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں ان کو 8 سال کی عمر میں راہ ایمان کا جو سبق یاد کروایا جاتا ہے اس میں اطاعت کو اولین حیثیت حاصل ہے۔ پاکستان کی 76 سالہ تاریخ میں آپ ایک مثال ایسی پیش نہیں کر سکتے کہ اس کمیونٹی نے حکومت وقت کی اطاعت سے روح گردانی کی ہو یا حکومت مخالف کسی تحریک کا حصہ بنی ہو۔ خود سختیاں برداشت کیں، سینے پر زخم کھائے لیکن اطاعت کا دامن نہیں چھوڑا۔ اپ نے اپنے پروگرام کے کلپ میں جماعت کے موجودہ امام کی تصویر لگا کر یہ غلط تاثر دیا ہے کہ اسرائیل کو تسلیم کیے جانے کا اصل دباؤ جماعت کے سربراہ کی طرف سے ہے۔ امام ہر جمعہ کو اپنی جماعت سے مخاطب ہوتے ہیں۔ آپ الزام لگاتے وقت ہزاروں خطابات میں سے ایک مثال بھی اپنے پروگرام میں پیش نہ کر سکے۔

حیرانی کی بات ہے کہ اسی پروگرام میں آپ تسلیم کرتے ہیں کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لئے عرب دنیا کا رویہ بڑا زبردست آرگومنٹ ہے اور دوسرے امریکن جیوش کانگریس بھی چاہتی ہے کہ اب پاکستان اسرائیل کو تسلیم کر لے۔ اگر آپ کو یہ تسلیم ہے تو پھر خاموشی سے زندگی گزارنے والی کمیونٹی کی خلاف زہر افشانی کرنے کی ضرورت اپ نے کیوں محسوس کی۔ آپ کے اس الزام (جس کا جواب دینے کے راستے بند ہیں ) کمنٹس کے حصے میں بہت سے دوستوں نے اپنی بھڑاس نکالی ہے جس کے ذمہ دار آپ ہیں کیونکہ آپ نے غلط بیانی سے کام لے کر لوگوں کو اشتعال دلایا۔ افسوس اس بات کا ہے کہ یہ رویہ ایک پڑھے لکھے انسان کی طرف سے اپنایا گیا۔

سابق سفیر عبدالباسط کی طرف سے دوسرا الزام کشمیر کے حوالہ سے لگایا گیا ہے کہ احمدی کشمیر کا مسئلہ پیچھے دھکیلنا چاہتے ہیں۔ اگر کوئی عام آدمی یہ الزام لگاتا تو صرف نظر کیا جا سکتا تھا۔ مسئلہ کشمیر کی اساس ہی سر محمد ظفر اللہ خان صاحب کی طرف سے اقوام متحدہ میں کی جانے والی تقاریر ہیں جن کا حوالہ سفیر عبدالباسط اپنی ساری سروس کے دوران دیتے رہے ہیں۔ کشمیر کمیٹی میں جماعت احمدیہ کا کردار تاریخ کا حصہ ہے اور اب تک کشمیر کی آزادی پر جتنی کتب لکھی جا چکی ہیں، ان میں احمدی حضرات کے کار ہائے نمایاں کا ذکر موجود ہے۔ کشمیر پر لڑی جانے والی جنگوں میں احمدی جرنیلوں اور فرقان فورس کے مجاہدین نے جو خدمات اور جان کی قربانیاں پیش کیں ان کو تعصب کی آنکھ سے دیکھنا شرف انسانیت کے زمرے میں نہیں آتا۔ میں سفیر عبدالباسط صاحب سے یہی کہہ سکتا ہوں

حصار ذات کی محدود وسعتوں سے ذرا
نکل کے دیکھ تو دنیا تجھے کشادہ لگے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).