کیا امریکی ڈالر قریب المرگ ہے؟


اس وقت دنیا میں 164 تسلیم شدہ کرنسیاں موجود ہیں اور گزشتہ کئی دہائیوں سے ان تمام سکہ رائج الوقت کرنسیوں پر امریکی ڈالر بلاشرکت غیرے حکم رانی کرتا چلا آ رہا ہے۔ اگرچہ ہر کرنسی عالمی مالیاتی نظام میں اپنی ایک مخصوص شرح تبادلہ اور قیمت رکھتی ہے لیکن کسی بھی کرنسی کی ہر نئے دن میں شرح تبادلہ اور قدر و قیمت کیا ہوگی اس کا فیصلہ امریکی ڈالر کی بنیاد پر کیا جاتا ہے ۔ سادہ الفاظ میں یوں سمجھ لیں کہ دور جدید کے بین الاقوامی معاشی نظام میں موجود ہر کرنسی کا وجود صرف اور صرف امریکی ڈالر کا ہی مرہون منت ہے۔

اس لحاظ سے ہماری دنیا کی حقیقی کرنسی امریکی ڈالر ہے اور دیگر تمام کرنسیاں ڈالر کی بے دام غلام کی سی حیثیت رکھتی ہیں۔ ڈالر کی یہ ہی بے مہار طاقت امریکا کی اصل قوت ہے۔ اس لیے جب تک امریکی ڈالر طاقت ور ہے، اس وقت تک امریکا دنیا کی واحد عالمی طاقت کے منصب پر فائز رہے گا۔ چونکہ اس حقیقت کا ادراک چینی قیادت کو بخوبی ہے۔ لہٰذا چین گزشتہ کئی برسوں سے روس، جاپان، فرانس اور خلیجی ممالک کے ساتھ مل کر ڈالر کے نعم البدل کے طور پر ایک دوسری کرنسی متعارف کروانے کے لیے تگ و دو میں مصروف ہے۔

کیونکہ چین جانتا ہے کہ جب تک عالمی مالیاتی نظام پر امریکی ڈالر کی بالادستی قائم ہے، تب تک چین کو دنیا واحد عالمی معاشی طاقت کے طور پر قبول نہیں کرے گی۔ اس حوالے سے چین کو حالیہ دنوں ایک بڑی کامیابی یہ حاصل ہوئی ہے کہ سعودی عرب نے چین کو خام تیل امریکی کرنسی ڈالر کے بجائے چینی کرنسی یوآن میں برآمد کرنے کی پیشکش کردی ہے۔ سعودی حکام نے عندیہ دیا ہے کہ سعودی عرب، چین کے ساتھ اپنی خام تیل کی برآمدات مرحلہ وار، امریکی ڈالر سے چینی یوآن میں منتقل کرنے جا رہا ہے اور ابتدائی طور پر سعودی عرب چین کو برآمد کردہ تیل کی قیمت کا کچھ حصہ ہی چینی کرنسی یوآن میں وصول کرے گا۔

یاد رہے کہ چین اپنی ضرورت کا 60 فیصد سے زائد خام تیل درآمد کرتا ہے، جس میں سے 25 فیصد سعودی عرب سے درآمد کیا جاتا ہے ۔ اگر چین اور سعودی عرب کے درمیان ہونے والے اس غیرمعمولی معاشی معاہدہ کے نتیجے میں دونوں ممالک فوری طور پر زیادہ نہیں صرف 10 فیصد خام تیل کی خریداری بھی چینی کرنسی میں کرنا شروع کر دیتے ہیں تو اس اقدام کے عالمی معیشت پر انتہائی دور رس نتائج مرتب ہوں گے۔

بعض معاشی ماہرین کا تو یہاں تک خیال ہے کہ چین اور سعودی عرب کے درمیان طے پا جانے والے اس معاشی سمجھوتے سے تیل کی عالمی منڈی پر امریکی ڈالر کی اجارہ داری کو سخت نقصان پہنچے گا۔ جس کا ایک ثبوت اس خبر کے عالمی ذرائع ابلاغ کی زینت بننے کے بعد امریکی ڈالر کے مقابلے میں چینی کرنسی یوآن کی قدر میں 0.1 فیصد کا اضافہ ہونا ہے۔ یاد رہے کہ سعودی عرب اور چین کے درمیان یوآن میں پٹرول کی فروخت پر مذاکرات 6 سال سے جاری تھے۔ لیکن تمام تر کوشش کے باوجود چین کے یہ مذاکرات کامیاب نہیں ہو پا رہے تھے۔ دراصل خلیجی ممالک کا تمام تر دفاعی انحصار امریکا پر ہونے کی وجہ سے ان ممالک کی قیادت کے لیے یہ ممکن نہ تھا کہ وہ چین کے ساتھ ڈالر کے بجائے چینی کرنسی یوآن کے عوض میں تیل کی فروخت کا فیصلہ کر لیں۔

لیکن گزشتہ ایک دو برسوں میں پے درپے رونما ہونے والے غیر معمولی واقعات مثلاً افغانستان سے امریکا افواج کا بدترین انخلاء اور یوکرین جنگ میں امریکی دفاعی اتحاد نیٹو کی عبرت ناک کسمپرسی اور بے چارگی نے یہ ممکن بنا دیا کہ امریکا پر انحصار کرنے والے ممالک بھی اب اپنے دفاع اور سلامتی کے لیے دوسری قابل اعتبار راہیں تلاش کریں۔ کیونکہ ایک بات تو امریکا کے کم و بیش تمام اتحادیوں کو اچھی طرح سے سمجھ آ گئی ہے کہ امریکا اپنے مفادات کا تحفظ کرنے کے لیے تو اپنے اتحادیوں سے کچھ بھی کروا لیتا ہے، لیکن جب اتحادی کسی مشکل میں آتے ہیں تو امریکا نت نئے جواز اور بہانے گھڑ کے انہیں پیٹھ دکھا دیتا ہے۔ سابق افغان صدر اشرف غنی اور یوکرینی صدر ولادمیر زیلنسکی کے عبرت انجام نے خلیجی ممالک کو امریکا اور اس کی کرنسی ڈالر سے جان چھڑانے کا سنہری موقع اور جواز فراہم کر دیا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ روس اور چین امریکی ڈالر کے بجائے چینی کرنسی یوآن میں تیل کی خرید و فروخت کے علاوہ اپنے دیگر متعلقہ مالیاتی اداروں کے درمیان امریکی ڈالر کے استعمال کی حوصلہ شکنی کرنے ایک نیا مالیاتی نظام قائم کرنے کے لیے بھی بڑی تیزی کے ساتھ ایک دوسرے سے تعاون کر رہے ہیں اور روسی حکومت مغربی ممالک کی طرف سے عائد کردہ اقتصادی پابندیوں کا جواب امریکی ڈالر کے بجائے دیگر کرنسیوں میں تجارت کر کے دے رہی ہے۔

مغربی ممالک نے یوکرین پر حملے کے بعد پابندیاں عائد کرتے ہوئے متعدد بڑے روسی بینکوں کو عالمی ادائیگیوں کے نیٹ ورک سوفٹ (SWIFT) سے الگ کر دیا تھا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ روس ڈالر اور یورو کا استعمال کرتے ہوئے نہ تو ملک سے باہر پیسہ بھیج سکتا ہے اور نہ ہی ملک میں لا سکتا ہے۔ بہت جلد روسی مرکزی بینک کی طرف سے تیار کردہ مالیاتی پیغام رسانی کا ایک نیا نظام (ایس پی ایف ایس) متعارف کروایا جا رہا ہے، جس سے مقامی انٹربینک ٹریفک کے بہاؤ کو جاری رکھا جائے گا۔

نیز ویزا اور ماسٹر کارڈ کی سروس معطل ہونے کے بعد بعض روسی بینکوں نے چین کے ”یونین پے سسٹم“ کو استعمال کرتے ہوئے نئے ڈیبٹ اور کریڈٹ کارڈز جاری کرنا شروع کر دیے ہیں تاہم روس کے پاس ایک دوسرا راستہ بھی ہے کہ وہ اپنے بیرونی لین دین کو چین کے ”ای آئی پی ایس پیمنٹ پلیٹ فارم“ سے منسلک کر دے۔ چونکہ چین کا یہ پلیٹ فارم ادائیگیوں کے لیے فقط یوآن کرنسی کا استعمال کرتا ہے۔ اس لیے کا اس نظام کا بین الاقوامی فروغ امریکی ڈالر کے لیے سخت خطرہ بن سکتا ہے۔

اس حوالے سے روس کے ایوان زیریں میں مالیاتی کمیٹی کے سربراہ اناتولی اکساکوف کا کہنا ہے کہ ”تجارت کو برقرار رکھنے اور اس سے وابستہ خطرات سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے روس کو چین کے مالیاتی پیغام رسانی کے نظام“ ای آئی پی ایس پیمنٹ پلیٹ فارم ”کی اشد ضرورت ہے اور ہمارا مرکزی بینک چین کے مرکزی پیپلز بینک کے ساتھ تعاون جاری رکھے ہوئے ہے، مجھے یقین ہے کہ موجودہ صورتحال اس حوالے سے متعلقہ عمل کی حوصلہ افزائی کرے گی اور اب ماسکو چینی کرنسی یوآن میں موجود اپنے غیرملکی ذخائر کا استعمال جلد ہی کرنا شروع کردے گا“ ۔

صرف اتنا ہی نہیں روس کے سب سے بڑے اتحادی ملک بیلا روس نے بھی گزشتہ برس سے ملکی اسٹاک ایکسچینج کی تجارت چینی کرنسی یوآن میں کر رہا ہے۔ نیز بھارت نے بھی روس سے دفاعی ساز و سامان خریدنے کے لیے چینی کرنسی یوآن کا استعمال کرنے کی روسی تجویز سے کامل اتفاق کر لیا ہے۔ جبکہ پاکستان، ایران اور افغانستان تو کئی برسوں سے آپسی لین دین کے لیے چینی کرنسی یوآن کو زیر استعمال لانے کے معاشی منصوبے پر کام جاری رکھے ہوئے۔ اگر آئندہ چند ماہ میں مذکورہ بالا تمام ممالک امریکی ڈالر کا استعمال ترک کر کے باہمی تجارت کے لیے چینی کرنسی یوآن کو اختیار کرلیتے ہیں تو یقیناً یہ اقدام امریکی ڈالر کی ممکنہ موت کے برابر ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments