مفادات کی کوکھ میں سیاسی آنکھ مچولی


Loading

سیاستدانوں اور مقتدرہ کی آنکھ مچولی کے کھیلے جانے والے کھیل کی اتنی دلچسپ صورتحال کبھی سامنے نہیں آئی جتنی اب عملی طور پر ہمارے سامنے ہے۔ پہلے جو کچھ پس پردہ ہوتا تھا اب سامنے ہوتا ہے۔ کبھی سیاستدانوں کی اسٹیبلشمنٹ سے جنگ تو کہیں عدلیہ کی عدلیہ سے ہی محاذ آرائی۔ ایک ”تھپڑ“ کی گونج ”کم نہ ہوئی تھی کہ دوسرے“ تھپڑ ”کا شور آنے لگا۔

اقتدار کی اس لڑائی میں کوئی کرسی سے جاتا ہے تو کوئی عزت سے۔ ستاروں کے حال، سیاستدانوں کی چال اور مقتدرہ کے دہرے معیار سے آئین بھی پامال ہوتا ہے اور اس میں آخری کیل کا کام عدلیہ کا وہ ”جانبدار“ کردار ادا کرتا ہے جو کبھی تو دباؤ میں فیصلے کرتے نظر آتے ہیں تو کبھی من پسند لوگ ان کے آڑے آ جاتے ہیں۔ جب آئین کے محافظ ہی آئین پامال کرتے نظر آئیں تو کسی اور سے کوئی کیا گلا کرے۔

”عزت کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے“ ۔ یہ الفاظ ہماری سیاست اور ریاست پر بالکل صادق آتے ہیں۔ پہلے لڑائیاں پھر عزت کی دھجیاں اور بعد میں وضاحتیں یہ تو ہماری روایت ہی بن گئی ہے۔ کہیں ججز کی مبینہ لڑائی اور ہاتھا پائی کی خبریں زبان زد عام ہوتی ہیں تو کہیں ”بڑوں کی اہم بیٹھک“ کی نا خوشگوار ملاقاتیں، اور کہیں پس پردہ ناکام رابطوں کی داستانیں۔ جن کی تردید کرنی پڑتی ہے کہ ایسا کچھ نہیں ہوا، یہ تو صرف عزت و قار مجروح کرنے کی سازش ہے۔ لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ دھواں وہیں اٹھتا ہے جہاں چنگاری ہو۔

یہی چنگاریاں عمران خان کی سیاست سے بے دخلی کے بعد بھی اٹھیں، لیکن جاتے جاتے انہوں نے لانے والوں کو بے نقاب کرنے کی ٹھانی اور جو سوچا وہ کر دکھایا۔ جس سے ان کی سیاست کے نئے باب کا آغاز ہوا۔ پھر جن اقدامات کی وجہ سے وہ عوام میں اپنی مقبولیت کھو رہے تھے اس سے زیادہ تیزی سے بحال کرنے میں کامیاب رہے۔ انہوں نے پی ڈی ایم کے فراہم کردہ موقع کا ایسا بھرپور طریقے سے استعمال کیا جو آج تک کوئی سیاستدان نہ کر پایا۔ عمران خان نے تماش بینوں کو بتایا کہ ذرا ٹھہریے! میچ ابھی ختم نہیں ہوا تماشائی کرسیوں پر براجمان رہیں اور ”آخری اننگز“ کے مزے لیں۔

”ستاروں“ اور ”اشاروں ’‘ کے بدلتے ہی کسی صورت ہار نہ ماننے اور آخری گیند تک لڑنے کی قسم کھانے والے عمران خان بھی منتوں ترلوں کے ساتھ منظم مہم چلانے میں بھی کامیاب ٹھہرے۔ اس کامیابی میں کچھ ہاتھ تو ان قوتوں کا تھا جن کے سہارے وہ اس مقام پر پہنچے اور باقی کام پی ڈی ایم کی حکومت میں آنے کے بعد ناکامی نے کر دکھایا جس کو عمران خان بخوبی کیش کر رہے ہیں۔ اور کہا جا رہا ہے کہ یہی عمران خان کی کامیابی کی ضامن بن کر اقتدار میں واپسی کی راہ ہموار کر رہی ہے۔ اور واپسی کی تگ و دو کے لیے الزامات کے شکنجے میں ایک بار پھر“ اسٹیبلشمنٹ ”اور“ عدلیہ ”ہیں۔ کیونکہ واضح ہوتی شہ مات کے بعد بھی وہ قانون توڑتے اور پھر احتساب کے شکنجے سے بچتے نظر آئے۔ ایسی“ ڈھیل ”تاریخ میں اور کسی کو نہیں دی گئی۔

پہلے کہا جاتا تھا کہ صرف ڈکٹیٹر ہی آئین شکن ہیں، لیکن یہاں تو سیاستدان بھی اس کو سنجیدہ نہیں لیتے۔ خوابوں اور خواہشات کے قیدی ایک دوسرے کے گریبانوں کو چاک کر رہے ہیں۔ اور آئین کی دھجیاں بکھیر رہے ہیں، لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں۔ دوسروں کو جوش دلانے والے کپتان بارہا طلبی کے باوجود یا تو عدالت میں پیش نہیں ہوتے اور اگر ہو بھی جائیں تو جس بہادری سے ”فوڈ پانڈہ“ والے ڈبے میں سر چھپائے پیش ہوتے ہیں، اس کی مثال بھی تاریخ میں کہیں نہیں ملتی۔ آئین بنانے والے ہی آئین کو پامال کر رہے ہیں۔ طاقتوروں کے ہاتھوں آئین اور قانون مسلسل بے توقیر ہوتا رہا ہے اور اب بھی ہو رہا ہے۔

ایوان تو صرف کرسی کے حصول اور من مرضیوں کے لیے استعمال ہو تا ہے لیکن عوام کو تو ریلیف سے مطلب ہے جو ان کونہ حکومت دے رہی ہے اور نہ اپوزیشن۔ جو ریلیف دینے کی بات کرتا ہے، عوام اس کے پیچھے سڑکوں کا رخ اختیار کر لیتی ہے۔ پھر وہ تحریک انصاف ہو، نون لیگ یا پیپلز پارٹی۔ لیکن وہ بھی بے سود۔ کیونکہ جس ریلیف کے لیے عوام سڑکوں پر نکلتے ہیں وہی لیڈر اقتدار کی کرسی پر براجمان ہوتے ہی آنکھیں ماتھے پر رکھ لیتے ہیں گویا عوام کو جانتے ہی نہ ہوں اور ان سے کوئی سروکار نہ ہو۔

مفادات کی کوکھ سے سر اٹھاتی ”سیاست“ مطلب و مقاصد کے حصول کے لیے کام کرتی ”مقتدرہ“ اور آگے بڑھنے کی دوڑ میں شامل ”عدلیہ“ قانون و انصاف کو پاؤں تلے روندتی نظر آتی ہیں۔ نئے انداز سے وہی پرانی ”سازشیں“ اور ”تماشے“ شروع ہو جاتے ہیں۔

شراکت دار بھی ایسے ہیں کہ جانتے بوجھتے تیار فصل سے استفادہ کرنے کے بجائے اس کو اکھاڑ باہر پھینکتے ہیں اور نیا بیج بو دیتے ہیں جس سے نہ ان کو فائدہ حاصل ہوتا ہے اور نہ عوام کو۔ سیاستدانوں اور مقتدرہ دونوں کو سمجھنا ہو گا کہ ریاست کی بقا آئین کی بالادستی میں ہے۔ اور انتظامیہ، مقننہ اور عدلیہ ریاست کے وہ ستون ہیں جن کے کاندھوں پر سب سے بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے لیکن اگر وہی آئین شکنی کریں اور اپنے دائرہ اختیار سے تجاوز کریں تو کون ان پر اعتماد کرے گا۔

اب بھی وقت ہے کہ اپنے اس آنکھ مچولی کے کھیل سے نکل کر عوام کا بھی سوچا جائے، دنیا چاند پر پہنچ گئی ہے اور ہم ہیں کہ انا اور ضد سے نکلنے کو تیار ہی نہیں ہیں۔ سب کو اپنے اوپر سے منفی لیبل ہٹانے ہوں گے تاکہ حقیقی معنوں میں عوام کی فلاح کے لیے کام ہو سکے۔ بحران در بحران پیدا کرنے کی بجائے بحران کے حل کو تلاش کرنا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments