اقبال – جدید غزل کا پیش رو


امیر خسرو سے لے کر اب تک غزل ہی وہ صنف سخن ہے جس نے ہر دور کے مذہبی، سماجی اور تہذیبی رویوں کا اظہار کیا ہے۔ اردو کی ادبی تاریخ میں جھانک کر دیکھا جائے تو یہ بات روز روشن کی طرح نظر آئے گی کہ شعری اصناف میں اہل زبان کو خصوصی لگاؤ غزل سے ہی رہا اور اردو کی بھی یہی کمزوری سمجھ لیجئیے کہ اسے بھی خصوصی لگاؤ غزل سے ہی رہا ہے۔ اردو کے شعری ادب پر غزل کی اس اجارہ داری سے چڑ کر حالی جیسے صلح پسند شخص نے بھی غزل کے خلاف آواز بلند کی اگرچہ اپنا لہجہ دھیما رکھا تاہم ان کے مقابل محمد حسین آزاد نے انگریز سرکار کی چھتر چھاویں غزل کے خلاف ایسی بغاوت کی کہ انجمن کے منعقدہ مشاعروں میں غزل کو بالکل دخل نہ تھا۔

اس زمانے کے معاشرتی اور سماجی حالات اس بات کا تقاضا کر رہے تھے کہ ادب میں نئی ایجادات کا سہارا لیا جائے تاہم اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں تھا کہ پرانی روایات سے منہ موڑ لیا جائے۔ اکبر الہ آبادی کی روایتی غزل تو ان کے طنزیہ لہجے میں کہیں چھپ گئی تھی البتہ فانی نے میر اور غالب کی روایات کو زندہ رکھا۔ اصغر نے غزل کی روایت کو جدید رنگ عطا کیا مگراس ادبی میدان جنگ میں جو محمد حسین آزاد نے پنجاب میں بپا کیا تھا اس کا فیصلہ کن معرکہ حسرت موہانی نے سر کیا۔ انہوں نے اردو غزل کی احیا میں اس محبوبہ کو ایسے گلے سے لگایا کہ غالب کا وہ مصرعہ یاد آنے لگا:

”کوئی پوچھے کہ یہ کیا ہے تو چھپائے نہ بنے“

اقبال کی شاعرانہ عظمت کا راز ان کے تفکر آمیز خیالات اور آفاقی پیغام میں پنہاں ہے۔ اقبال جتنے بڑے فلسفی ہیں اتنے ہی بڑے شاعر بھی ہیں۔

سر عبدالقادر کا کہنا ہے کہ ”اگر میں مسئلہ تناسخ کا قائل ہوتا تو یہ ضرور کہتا کہ غالب کی روح نے اقبال کے روپ میں دوبارہ جنم لیا ہے“ ۔ بلا شبہ ان کے ایسا کہنے میں کوئی مبالغہ نہیں۔ یہ اردو زبان کی خوش نصیبی ہے کہ اسے اقبال جیسا شاعر نصیب ہوا جس کا شہرہ صرف ہندوستان میں ہی نہیں بلکہ روم و ایران تک جا پہنچا ہے۔ اقبال کے کلام میں غزلوں کی تعداد نظموں کی نسبت کم ہے۔ ابتدا میں اقبال شعری اصلاح داغ سے لیتے رہے اور ان کی غزلوں میں بھی داغ کا رنگ غزل جھلکتا دکھائی دیتا ہے۔

مانا کہ تیری دید کے قابل نہیں ہوں میں
تو میرا شوق دیکھ مرا انتظار دیکھ
۔ ۔
بھری بزم میں اپنے عاشق کو تاڑا
تری آنکھ مستی میں ہشیار کیا تھی

اقبال کی غزلوں کا بہترین حصہ ”بال جبریل“ میں ملتا ہے اور ان کی تعداد 90 کے قریب ہے۔ اگرچہ بانگ درا کی غزلیں بھی ان کی ابتدائی مشقی غزلوں کا حصہ ہیں تاہم ان میں کہیں کہیں فکری پختگی اور لہجے کا اعتماد موجود ہے۔ علامہ نے غزل کی صنف کو جدید انداز سے ہی وسعت نہیں بخشی بلکہ خیالات کے لحاظ سے وسعت اور گیرائی عطا کی ہے۔ وہ اس بات سے بخوبی واقف تھے کہ اس زمانے کا قاری غزل سے زیادہ دلچسپی لیتا ہے اس لیے وہ اپنے کلام کی ہیئت تو غزلیہ ہی رکھتے ہیں لیکن اس میں عصری خیالات اور تصورات کی نئی روح پھونک دیتے ہیں یوں انہوں نے زمانے کے لوگوں کی نفسیات کے مطابق اپنے مقاصد کو غزل کے ذریعے بھی حاصل کیا ہے۔

غزل کو وسعت خیال عطا کرتے ہوئے علامہ نے غزل کے انداز کو نہیں بدلا البتہ علائم و رموز کو نئے معانی عطا کیے ہیں۔ وہ روایتی پرانی اصطلاحات کو نئے مفہوم اور وسعت معانی کے نئے علامتی رنگ میں استعمال کرتے ہیں جس سے ان کے مفہوم کو وسعت ملتی ہے۔ ان کی غزلیات کو سمجھنے کے لیے ان کے مستعمل علامتی الفاظ ایسے ہیں : خودی، انسان کامل، مومن، شاہین، قلندر، عشق، ذوق و شوق، حسن، جگنو، پروانہ، ممولہ وغیرہ وغیرہ

اقبال نے غزل کے ذریعے یہ ثابت کر دیا کہ غزل میں صرف حسن و عشق کے ہی مضامین ادا نہیں ہو سکتے بلکہ سیاسی، تہذیبی اور اصلاحی موضوعات کو بھی جگہ دی جا سکتی ہے اور یہ کہ غزل ہر طرح کے مضامین کو اپنے اندر جذب کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اقبال کی غزلیں جذبہ عشق کے ساتھ ساتھ جذبہ خود داری بھی اپنے دامن میں سموئے ہوئی ہیں۔

خودی کیا ہے؟ راز درون حیات
خودی کیا ہے؟ بیداری کائنات

یہ اقبال کا خاصہ ہے کہ وہ اپنے کلام کے ذریعے ایسا آہنگ بنا لیتے ہیں جس سے معانی کا ایک نیا جہان پیدا ہو جاتا ہے۔ وہ کائنات میں انسان کی موجودگی، اس کے عشق اور اس کی والہانہ پکار سے ایسا تلاطم برپا کرتے ہیں کہ حریم ذات میں اور پورے جہاں میں ایک شور بپا ہو جاتا ہے۔ بال جبریل کی ابتدا ایسی ہی غزل سے ہوتی ہے :

میری نوائے شوق سے شور حریم ذات میں
غلغلہ ہائے الاماں بت کدہ صفات میں

آگے چل کر وہ ایسا بے باک انداز اختیار کرتے ہیں کہ میں راز کائنات ہوں اے خدا تو نے مجھے اس جہاں میں بھیج کر اپنے راز میرے ذریعے عیاں کر دیے ہیں۔ یہ ایسا انداز ہے جو اقبال کے علاوہ اور کسی دوسرے شاعر میں دکھائی نہیں دیتا۔

تو نے یہ کیا غضب کیا مجھ کو بھی فاش کر دیا
میں ہی تو ایک راز تھا سینہ کائنات میں

اللہ سے ہم کلامی، شکوہ و شکایت اور بے باک گفت گو کا انداز فن شاعری میں اقبال کے پاس ہے۔ انہوں نے غزل کی رسمی علامتوں، استعاروں اور مرکبات کے ذریعے غزل کو عشق بازی کی روایت کے حصار سے نکالا ہے اور عشق کو قوت حیات اور عشق کے معاملات کو خود اپنے آپ سے اور اپنے خدا کے مابین مکالمے کی صورت میں بیان کیا۔ بال جبریل میں اقبال کا انداز ملاحظہ ہو

ترے شیشے میں مے باقی نہیں ہے
بتا کیا تو مرا ساقی نہیں ہے
سمندر سے ملے پیاسے کو شبنم
بخیلی ہے یہ رزاقی نہیں ہے
۔
اگر کج رو ہیں انجم آسماں تیرا ہے یا میرا
مجھے فکر جہاں کیوں ہو جہاں تیرا ہے یا میرا
۔ ۔
عشق بھی ہو حجاب میں حسن بھی ہو حجاب میں
یا تو خود آشکار ہو یا مجھے آشکار کر
۔ ۔
میں کہاں ہوں تو کہاں ہے یہ مکاں کہ لا مکاں ہے
یہ جہاں مرا جہاں ہے کہ تری کرشمہ سازی

فنی خوبیوں کے لحاظ سے بال جبریل میں موجود غزلیں اقبال کا شاہکار ہیں۔ ان میں فکر کا جذبہ اور احساس، عشق کی وارفتگی، نغمگی، جذبات کی شدت، حسن ادا کی خوبی، موسیقیت، قدرتی مناظر کے ساتھ فلسفہ حیات بھی ہے۔ نمونہ کلام ملاحظہ ہو:

پریشاں ہو کے میری خاک آخر دل نہ بن جائے
جو مشکل اب ہے یا رب پھر وہی مشکل نہ بن جائے
عروج آدم خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں
کہ یہ ٹوٹا ہوا تارہ مہ کامل نہ بن جائے
مٹا دیا مرے ساقی نے عالم من و تو
پلا کے مجھ کو مے لا الہ الا اللہ
تیرے آزاد بندوں کی نہ یہ دنیا نہ وہ دنیا
یہاں مرنے کی پابندی وہاں جینے کی پابندی
پھر چراغ لالہ سے روشن ہوئے کوہ و دمن
مجھ کو پھر نغموں پہ اکسانے لگا مرغ چمن
پھول ہیں صحرا میں یا پریاں قطار اندر قطار
اودے اودے، نیلے نیلے، پیلے پیلے پیرہن
اپنی جولاں گاہ زیر آسماں سمجھا تھا میں
آب و گل کے کھیل کو اپنا جہاں سمجھا تھا میں
عشق کی اک جست نے طے کر دیا قصہ تمام
اس زمین و آسماں کو بے کراں سمجھا تھا میں
جب عشق سکھاتا ہے آداب خود آگاہی
کھلتے ہیں غلاموں پہ اسرار شہنشاہی

ذوق شعر رکھنے والا قاری ان اشعار کی فنی خوبیوں سے لطف اندوز ہونے کے ساتھ ساتھ فلسفہ حیات کی فنکارانہ صلاحیتوں سے بھی مستفید ہوتا ہے۔ قاری کا ذہن فلسفے کے اظہار کے اس انداز سے بوجھ بھی محسوس نہیں کرتا اور قبولیت سے بھی انکار نہیں کرتا۔ پانی کو آگ بنا دینا، ستاروں کو توڑ کر ان سے آفتاب تراش لینا اور فلسفہ کے سنگ و آہن سے گداز پیدا کر کے گل بوٹے بنا لینا اقبال ہی کا خاصہ ہے۔ وہ محاسن اور صفات جو عظیم شاعری کے لیے ضروری ہیں تمام کی تمام اقبال کی شاعری میں پائی جاتی ہیں۔

انہوں نے فلسفیانہ افکار کو جس سلیقے اور فنکاری کے ساتھ شعری قالب میں ڈھالا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ اقبال کی شاعری میں مقصود و مطلوب اور مرکزی نقطہ انسانی خودی ہے۔ رعنائی فکر، نزاکت تخیل، حسن تشبیہ، ندرت تمثیل، دلکش پیرائیہ بیان، اثر انگریز اسلوب اظہار الغرض تمام شعری خوبیاں اقبال کے کلام میں موجود ہیں۔

اقبال کی لمبی غزلوں میں غضب کا ترنم اور موسیقیت پائی جاتی ہے۔
کبھی اے حقیقت منتظر نظر آ لباس مجاز میں
کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں مری جبین نیاز میں

اردو میں اقبال کی تخلیقی زرخیزی کے اہم ترین دور کا اشارہ ”بال جبریل“ ہے کیونکہ اقبال نے غزل کے جس ذائقے کا احساس دلایا تھا وہ بال جبریل تک آتے آتے واضح اور شیریں ہو گیا تھا۔ اس دور کی شاعری اقبال کی فکری اور تخلیقی بلوغت کی شاعری ہے۔ یہیں اقبال شعر و سخن کی نئی روایت کے امکانات کے در کھولتے ہیں۔ افکار کی ترویج کے لیے شعر کو پرانی بندشوں سے آزار کرتے ہوئے ردیف کی دیواروں کو توڑ دیتے ہیں۔ بال جبریل کی غزلوں میں مکالمے اور خود کلامی کا رنگ غالب ہے۔

اقبال کی غزل ان کی قومی شاعری کے مجموعی تخلیق سے جدا نہیں ہے۔ اقبال اپنے دور کی غزل کی روایت سے بہت اونچا بول گئے تھے۔ اس بلند آہنگی کا مقصد دراصل سوئی ہوئی قوم کو بیدار کرنا تھا۔ قوم کو بیدار کرنے کا عزم، بلند قومی و اجتماعی خودی اجاگر کرنے کا شوق ان کے ذہن پر ہر وقت سوار تھا اور کیوں نہ ہوتا یہی تو ان کا مقصد حیات تھا۔

اوروں کا ہے پیام اور میرا پیام اور ہے عشق کے درد مند کا طرز کلام اور ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments