چین اور دنیا کے درمیان روابط کا فروغ


رواں سال 2023 کے آغاز سے اب تک 20 سے زائد ممالک اور بین الاقوامی تنظیموں کے رہنما اور اعلیٰ حکام، چاہے وہ روس، فرانس، یورپی یونین اور برازیل جیسی بڑی طاقتیں ہوں یا افریقہ اور اوقیانوسیہ کے چھوٹے ممالک ہوں، اور یہاں تک کہ سعودی عرب اور ایران جیسے ممالک جو پہلے ایک دوسرے کے شدید مخالف تھے، تناؤ کو کم کرنے یا پھر ترقیاتی مواقع کے اشتراک کے لیے چین کے ساتھ رابطے میں آئے ہیں۔ غیر ملکی رہنماؤں کے استقبال کے ساتھ ساتھ، چینی وزارت خارجہ نے عالمی مسائل کے حل کے لیے چین کے خیالات، تصورات اور دانشمندی کو فعال طور پر متعارف کرایا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ چین عالمی بدامنی کے دور میں بین الاقوامی برادری کے زیادہ تر ارکان کو تعاون فراہم کر رہا ہے اور اپنی اصلاحات اور کھلے پن کو سنجیدگی سے فروغ دیتے ہوئے بین الاقوامی ماحول کو فعال طور پر بہتر بنا رہا ہے۔ یوں چین اور دنیا کے درمیان روابط کو فروغ مل رہا ہے جس سے چینی جدید کاری اور دنیا کی امن اور بحالی کی ضرورت دونوں کو فائدہ پہنچ رہا ہے۔ ویسے بھی دنیا گزشتہ تین سالوں میں کووڈ 19 وبائی صورتحال کا شکار رہی ہے، اور 2022 کے بعد سے یوکرین بحران کی وجہ سے مرتب ہونے والے ثانوی اثرات کا بھی سامنا کرنا پڑا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ آج دنیا بھر کے تمام ممالک، ”امن اور استحکام، جاری تنازعات میں کمی، ترقیاتی مواقع، یقینی صورتحال میں سرمایہ کاری اور جدید ٹیکنالوجیز“ کو اپنے لئے اہم ترین تصور کرتے ہیں۔ اس صورتحال میں بڑی طاقتوں کا کردار انتہائی اہم ہے جو وافر طاقت کے ساتھ دنیا کو لازمی وسائل فراہم کرنے کے قابل ہیں، جس میں چین نمایاں پلیئر کے طور پر ابھرا ہے اور فطری طور پر چین کا خیر مقدم بھی کیا گیا ہے۔ ایک جانب چین سعودی عرب اور ایران کے لیے ثالثی فراہم کر رہا ہے تو دوسری جانب روس، یوکرین اور یورپی یونین کے لئے منڈیاں، کثیر الجہتی اور امن کی امید لا رہا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا بھر کے ایسے تمام ممالک جو معاشی بحالی، ترقی اور سلامتی کا مطالبہ کرتے ہیں، چین ان کے لیے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو، ٹیکنالوجیز، سرمایہ کاری اور تجربے کے ساتھ ساتھ آر ایم بی کی انٹرنیشلائزیشن کے تحت مواقع فراہم کر رہا ہے تاکہ مشترکہ طور پر ایک متبادل بین الاقوامی ادائیگی کا نظام تشکیل دیا جا سکے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ چین کی ترقی عہد حاضر کے رجحان کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے اور دنیا کی اکثریت نے اس کا خیر مقدم کیا ہے۔ اس کے برعکس گزشتہ دہائیوں میں بالادستی کے زیر اثر عالمی نظام نے دنیا کو کافی تکلیف پہنچائی ہے، اور یہ وقت کے رجحان کے بالکل متصادم ہے۔

یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جب دنیا بدامنی کا شکار ہے تو بین الاقوامی برادری کی اکثریت کے لیے یہ توقع رکھنا بہت معقول ہے کہ کوئی بڑی طاقت ”اسٹیبلائزر“ اور ”بنیادی حیثیت“ کا کردار ادا کرے اور اب وہ چین سے یہ امید رکھ رہے ہیں۔ چین نے ویسے بھی اپنی عملی کوششوں سے بارہا ثابت کیا ہے کہ وہ ایک ایسی دنیا کی تعمیر ہرگز نہیں چاہتا ہے جس کے مرکز میں چین ہو، بلکہ چین کے نزدیک جس چیز کی ضرورت ہے وہ حقیقی اور جامع کثیر الجہتی ہے۔

حالیہ مہینوں میں سامنے آنے والی سفارتی اور معاشی سرگرمیوں سے دنیا بخوبی دیکھ سکتی ہے چین نے اپنے دروازے دنیا کے لیے مزید کھولے ہیں اور بات چیت کے لیے ہمیشہ اپنی آمادگی دکھائی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ دنیا کیسے چین سے سامنے آنے والے نئے مواقع سے فائدہ اٹھاتی ہے اور عالمی مسائل کے حل میں چینی دانش کیسے دنیا کی مدد کرتی ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments