مکالمہ کا سیاسی، علمی و فکری کلچر


مہذب معاشروں یا علمی و فکری بنیادوں پر موجود سماج کی سب سے بڑی خوبی جذباتیت کے مقابلے میں رواداری پر مبنی معاشرے سے جڑا ہوتا ہے۔ ایسا معاشرہ جو ایک دوسرے کے مختلف نظریات، سوچ، فکر اور خیالات کو احترام دیتا ہے تو معاشرے سے جڑے افراد کی اہمیت اور زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ لیکن اس کے لیے ضروری امر ہوتا ہے کہ ہم معاشرے کی تشکیل میں مکالمہ کے کلچر کو فروغ بھی دیں اور اس کا مجموعی طور پر احترام بھی کیا جائے۔ لیکن جیسے یہاں مختلف معاملات میں ہمیں مختلف نوعیت کے بگاڑ کا سامنا ہے تو ایسے ہی معاشرے میں مکالمہ کے عملی فقدان نے بھی ہمیں مشکل صورتحال سے دوچار کر دیا ہے۔

ایک ایسا معاشرے جو اب سیاسی، سماجی، اخلاقی اور علمی و فکری بنیادوں پر جو تقسیم بڑھی ہے تو اس کے نتیجہ میں مکالمہ کم بلکہ اپنی رائے اور خیالات کو جبر کی بنیاد پر دوسروں پر مسلط کرنا یا دوسرے کی رائے کو غلط سمجھ کر اپنی رائے کو ہی مکمل سچ تسلیم کرنا ہے۔ اختلافات کی نوعیت کسی بھی طرز کی ہو سکتی ہے اور یہ ایک سے زیادہ لوگوں میں فطری امر بھی ہوتا ہے لیکن کیا یہ ضروری ہے کہ ہم اختلافات کو کسی دشمنی کا رنگ دیں یا ایک دوسرے کو برداشت کرنے کی بجائے ان پر مختلف نوعیت کے منفی لعن طعن یا فتوی جاری کر کے مکالمہ کی اہمیت کو کم کریں۔

مکالمہ کی خوبی بحث کو آگے بڑھانا اور ایک رائے یا سوچ کے مقابلے میں ایک متبادل سوچ اور فکر کو سامنے لانا ہوتا ہے۔ مکالمہ عمومی طور پر عملاً نئے خیالات کو جنم دیتا ہے اور اسی بنیاد پر وہ آگے بڑھنے کا راستہ بھی دیتا ہے۔ کیونکہ مکالمہ پہلے سے موجود جمود کو توڑنے کا سبب بنتا ہے اور تنقید و تضحیک کے درمیان فرق کو قائم بھی کرتا ہے۔ کیونکہ عمومی طور پر ہم تنقید کرتے وقت ریڈ لائن کو کراس کرتے ہیں اور اپنے مخالف سوچ کو باقاعدہ شعوری یا لاشعوری طور پر تضحیک کا نشانہ بناتے ہیں۔

سب سے بڑا بحران اپنی سوچ اور فکر یا خیال کو سچ تسلیم کرنا اور دوسروں کی سوچ کو غلط سمجھنا ہوتا ہے۔ اسی بنیاد پر ہم لوگوں کو پرکھتے ہیں یا ان سے تعلق کو جوڑتے یا توڑتے ہیں۔ مکالمہ وہیں چلے گا جہاں ہم خود کو کسی بھی فریق کے بارے میں تعصب سے باہر نکالیں گے۔ کیونکہ جہاں تعصب ہو گا اور پہلے سے موجود خیالات میں جمود، سختی یا نئی بات کو قبول نہ کرنے کی گنجائش ہوگی وہاں مکالمہ کیسے آگے بڑھ سکتا ہے۔ کیا یہ ضروری ہے کہ ہم سوال یا مکالمہ یا اپنی رائے دیتے وقت الجھ جائیں اور بلاوجہ خود ہی ٹکراؤ کا ماحول پیدا کریں اور اس بات پر ضد کریں کہ میں ہی سچا ہوں اور میری ہی بات کو تسلیم کیا جائے۔

مسئلہ محض سیاسی نوعیت کا نہیں بلکہ آپ کسی بھی علمی و فکری مجلس میں جائیں، رسمی یا غیر رسمی میڈیا کا جائزہ لیں جس میں سوشل میڈیا بھی پیش پیش ہے یا کسی مذہبی مجلس کا حصہ ہوں سب ہی جگہ زیر بحث بنیادی نقطہ مکالمہ کے کلچر کے فقدان کا نظر آئے گا۔ ہم مکالمہ کے نام پر تعصب، نفرت، منفی خیالات، عدم برداشت اور ایک دوسرے کے خیالات کے وجود کو قبول کرنے سے انکاری ہیں۔ ہم مکالمہ کے نام معاملات کو عملی طور پر سلجھانے کی بجائے بگاڑنے کے کھیل کا حصہ بن گئے ہیں۔

کیا یہ ضروری ہے کہ ہم محض اپنی سوچ اور فکر کی بنیاد پر ہی معاشرے کی تشکیل چاہتے ہیں اور چاہتے ہیں پورا معاشرے ویسے ہی سوچے جیسے میں سوچتا ہوں تو یہ ممکن نہیں۔ معاشرے مختلف سوچ اور خیالات کے درمیان تقسیم ہوتے ہیں مگر ان میں ایک دوسرے کے لیے رواداری پر مبنی سوچ بھی ہوتی ہے کہ ہم مختلف خیالات کے باوجود اکٹھے مل کر رہ سکتے ہیں اور ساتھ چل بھی سکتے ہیں۔ مجموعی طور پر مکالمہ کا کلچر وہیں مضبوط بنیادوں پر استوار ہوتا ہے جہاں جمہوری روایات یا جمہوری کلچر یا سوچ و فکر ہوتی ہے۔

کیونکہ یہاں جمہوریت بدستور اپنے ارتقائی عمل سے گزر رہی ہے تو ہمیں مکالمہ کم اور اس کے نام پر شدت پسندی، انتہا پسندی یا پھر پر تشدد رجحانات غالب نظر آتے ہیں۔ مکالمہ کے فقدان کی ناکامی محض کسی ایک فرد یا ادارہ کی نہیں ہے بلکہ ہم مجموعی طور پر بطور معاشرہ اس میں ناکامی کا شکار ہوئے ہیں۔ سیاست دان، راہنما، مذہبی پیش رو، دانشور، صحافی، استاد، شاعر ادیب جو عمومی طور پر انفرادی یا اجتماعی طور پر رائے عامہ بناتے ہیں وہ سب ناکامی سے دوچار ہوئے ہیں۔

مسئلہ یہ نہیں کہ یہ فریق لوگوں کی ذہنی، علمی و فکری تربیت نہیں کرسکے بلکہ اس سے بھی زیادہ سنگین مسئلہ یہ رہا کہ خود ان افراد کے جو رائے عامہ بناتے ہیں یا تشکیل کرتے ہیں خود بھی مکالمہ سے کہیں دور کھڑے نظر آتے ہیں۔ ہمارا تعلیمی نظام مکالمہ کے مقابلے میں ایک مخصوص سوچ اور فکر کو مسلط کرتا ہے اور اگر کوئی اس پر سوالات کرتا ہے یا اٹھاتا ہے تو اس کو طاقت ور طبقہ سے سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

سوشل میڈیا یا رسمی میڈیا میں جو مباحث ہوتے ہیں اس میں چار طرح کے مسائل سرفہرست نظر آتے ہیں۔ اول ہم جو سوال اٹھائے جا رہے ہوتے ہیں یا جو رائے دی گئی ہوتی ہے اس کے برعکس اپنے مخصوص خیالات کی بنیاد پر اس پر تبصرہ کرتے ہیں جس میں بات کو آگے بڑھانے یا اپنا نقطہ نظر پیش کرنے کی بجائے تضحیک کا پہلو نمایاں ہوتا ہے۔ دوئم ہم مکالمہ کے نام پر لوگوں کی ذاتی زندگی کی بنیاد پر تنقید، ذاتیات پر مبنی کردار کشی، سیاسی و مذہبی فتوے یا لوگوں کے ذاتی سیاسی و مذہبی عقائد پر سخت بیان بازی میں ہم الجھ کر رہ گئے ہیں۔

سوئم جذباتیت کا شعور اور دلیل یا شواہد کے مقابلے میں بالادست ہونا، چہارم ایک دوسرے کے خیالات میں اس کے وجود سے ہی انکاری کا عمل اور زیادہ خطرناک رجحان کی نشاندہی کرتا ہے۔ مکالمہ کا کلچر یا اس کی اہمیت کو تسلیم کروانے کا عمل براہ راست ہمارے خاندانی نظام، تعلیمی نظام، کمیونٹی سے جڑا نظام اور ریاستی و حکومتی نظام سے جڑا ہوتا ہے۔ یہ سب نظام بنیادی طور پر معاشرے کی تشکیل نو اسی انداز میں کرتے ہیں کہ لوگ جبری خیالات کے مقابلے میں مکالمہ کے کلچر کو فوقیت دیں۔ گھر یا خاندان میں جب ہم خود بھی مکالمہ کے خلاف ہوں اور اپنے ہی بچوں پر رائے یا سوچ کو مسلط کرتے ہوں وہاں گھر سے باہر کا ماحول یا ریاستی نظام کیسے درست ہو سکتا ہے۔

آپ ضرور تنقید کریں یا اختلاف کریں مگر اس کا علمی و فکری سلیقہ سیکھنا ہو گا کہ کیسے مکالمہ کیا جاتا ہے اور کیسے مکالمہ کو بنیاد بنا کر ہم خود کو آگے بڑھا سکتے ہیں۔ کیونکہ اگر ہم نے خود کو مہذب انداز میں پیش کرنا ہے تو اس لیے ہمیں اپنے موجودہ طور طریقوں کو بدل کر دوسروں کو بھی اس بات کی ترغیب دینی ہوگی کہ وہ خود کو بدلیں۔ کیونکہ یہ جو مکالمہ کے نام پر الفاظ کی یا لب و لہجہ کا عملی مظاہرہ ہم شدت پسندی پر مبنی جذبات اور تقریروں یا بیانات کی صورت میں دیکھ رہے ہیں وہ کسی بھی سطح قابل قبول نہیں ہونا چاہیے۔

ہمیں مکالمہ کے کلچر کو فروغ دینے کے لیے ریاستی محاذ پر مکالمہ کو ایک قومی نصاب اور بیانیہ کی حیثیت دینی چاہیے۔ جو لوگ بھی مکالمہ کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں یا مکالمہ کے نام پر جو انتہا پسندی کو فروغ دیتے ہیں ان کا سیاسی اور سماجی سطح پر بائیکاٹ بھی ہونا چاہیے اور ان کو احتساب کے دائرہ کار میں بھی لانا ہو گا۔ سیاسی، مذہبی، لسانی اور علاقائی بنیادوں کو بنیاد بنا کر مکالمہ کو پیچھے دھکیلنا درست حکمت عملی نہیں۔

اس وقت معاشرتی سطح پر مکالمہ کو بنیاد بنانے کے لیے ہمیں ایک کوڈ آف کنڈکٹ درکار ہے۔ اسی کوڈ آف کنڈکٹ کو بنیاد بنا کر ہمیں خاندانی نظام سے لے کر ریاستی نظام تک اس اصول کو اپنی بڑی ترجیح کے ساتھ جوڑنا ہو گا۔ اسی طرح ہمیں ریاستی محاذ پر اس اصول کو بھی اختیار کرنا ہو گا کہ جو لوگ بھی متبادل آوازیں اٹھا رہے ہیں ان کے ساتھ کسی بھی سطح پر طاقت کا استعمال یا تشدد پر مبنی پالیسی کو اختیار کر کے ان کی آوازوں کو دبانے کا اختیار بھی درست حکمت عملی نہیں۔

ہمیں متبادل طور پر اٹھنی والی آوازوں کے ساتھ بات چیت یا مکالمہ کے انداز کو ہی اختیار کر کے مسائل کا حل تلاش کرنا چاہیے۔ کسی کے خلاف کسی بھی سطح کے فتووں کی حوصلہ افزائی نہیں کرنی چاہیے جس میں ہم مکالمہ کرنے کی بجائے اپنے مخالفین کو دہشت گرد، مذہب دشمن یا ملک کے غدار کے طور پر پیش کریں۔ کاش ہم ماضی کی غلطیوں سے سیکھ کر مکالمہ کو بنیاد بنا کر آگے بڑھیں تو اپنے قومی تشخص کو داخلی اور خارجی دونوں محاذوں پر بہتر مقدمہ کے طور پر پیش کر سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments