آج میں کس کی حمایت کروں؟


wusat ullah khan وسعت اللہ خان

یا توان لوگوں کو ادراک نہیں کہ ہم کھائی میں گر چکے ہیں اور اپنا وزن اٹھانے کے لیے کرین اور اس کے کرائے کا انتظام بھی ہمیں خود ہی کرنا ہے۔ پھر گمان ہوتا ہے کہ جو ریاست اپنے ہی چڑیا گھر میں ایک ہاتھی (نور جہاں) کو ہی خشک تالاب سے اٹھا کے کھڑا نہ کر پائی وہ اپنے ہی وزن کو کیسے کھائی سے نکال پائے گی؟

یا پھر ان لوگوں کو پورا ادراک ہے کہ انھوں نے اپنے ہی ہاتھوں اس ملک کے ساتھ کیا ہاتھ کر دیا ہے اور اب یہ خود سامان باندھ کے کسی بھی ناگہانی کے سر پے ٹوٹنے سے پہلے پہلے پتلی گلی سے نکلنے کے لیے تیار بیٹھے ہیں اور زندگی بھر اپنی ہی ذات پر بھروسہ کرنے اور اپنی ہی ناک سے آگے کچھ بھی دیکھنے کے ناقابل یہ لوگ باقیوں کو اللہ پر بھروسے کی تلقین کر رہے ہیں۔

یا ان لوگوں کو اب بھی انتظار ہے کہ کوئی مسیحا اچانک فلمی انداز میں سپر مین کی طرح آسمان سے اترے گا اور موجودہ لوٹ افزا نظام سمیت انھیں ٹوٹے ہوئے گھر کی چھت سے اٹھا کے دریا پار اتار دے گا۔

یا یہ لوگ اب بھی اس ناممکن خواہش کو تعبیر کرنے کے خبط میں مبتلا ہیں کہ یہ سب مل بانٹ کے کیک بھی کھاتے رہیں مگر کیک ثابت کا ثابت رہے۔

یا یہ لوگ ہنوز دلی دور است کے داستانی مسخرے ہیں۔

یا پھر یہ سب کے سب اس نااہل پیڑھی کی طرح ہیں جسے یہ ریاست ورثے میں ملی باپ دادا کی موروثی جائیداد لگتی ہو اور اسے آخری سانس تلک مجرئی شب و روز برقرار رکھنے کے لیے آخری بیگھے تک بیچا جا سکتا ہو۔

اس پر رسائی و اختیار کا نشہ بھی اس قدر چڑھا ہوا کہ اپنی ہی گول پوسٹ میں گول پر گول کر کے ایک دوسرے کو بدھائی دے رہے ہوں اور وفاداروں سے اندھی داد وصول کر رہے ہوں۔

یا پھر یہ ٹولہ وہ جواری ہے جو آخری فیصلہ کن ہاتھ کی امید پر ہر شے گروی رکھ چکا ہے مگر پتے رکھنے پر ہرگز تیار نہیں۔

چین ہمارا یار تو ہے مگر اسی چین میں ہزاروں برس پہلے سن زو نام کا جو ماہرِ عسکریات گزرا اس کے بقول ’جب دشمن فاش غلطی پر غلطی کر رہا ہو تو ہرگز، ہرگز نہ ٹوکا جائے‘ اور بہترین لڑائی وہ ہے جو شروع ہونے سے پہلے ہی جیت لی جائے ۔

کہیں باہر سے نہیں گھر سے اٹھا ہے فتنہ
شہر میں اپنے ہی لشکر سے اٹھا ہے فتنہ
حاکمِ شہر کے دفتر سے اٹھا ہے فتنہ

آج کسی دشمن کو اس ’ مل بانٹ‘ گروہ کو نیچا دکھانے کے لیے ایک گولی ضائع کرنے یا ایک پیسہ خرچ کرنے یا کوئی چھوٹی موٹی سازش کرنے کی بھی ضرورت نہیں۔ بس گیلری میں بیٹھ کے ٹانگ پر ٹانگ چڑھا کے تھیٹر سے لطف اندوز ہونے کی گھڑی ہے۔

دشمن تو دشمن دوست بھی دانتوں تلے انگلیاں دابے یہ فی البدیہہ بلیک کامیڈی دیکھ رہے ہیں۔

سکرپٹ سیدھا کرنے میں مدد کرے بھی تو کون کرے جب اسے یقین ہی نہ ہو کہ یہ نوٹنکی فن کار بزعم خود یوری پیڈیس اور شیکسپئر کے منبر سے ایک قدمچہ بھی نیچے اترنے کو تیار نہیں۔

اس ریاست کے ایک ہاتھ کی انگلیوں سے بھی کم جو دوست بچ گئے ہیں انھیں پہلی بار پتہ چل رہا ہو گا کہ گنوار کی اکڑ کا اصل مطلب کیا ہے۔

اب سے پہلے تک ہم اپنی پسند کے ولن کے سینگوں سے اپنی ناکامیوں کی دھجیاں باندھ کے خود کو تسلی دے لیتے تھے۔ مگر آج تو 75 برس میں یکے بعد دیگرے آنے والے ولنز کی ارواح بھی موجودہ اشرافیوں کو گرو مان کے سجدہ ریز ہیں۔

ان لال بھجکڑوں کے ہوتے دولے شاہ کے چوہے بھی آئن سٹائن سے اوپر نظر آ رہے ہیں۔ ان کے سامنے تو وہ افسانوی بندر بھی کود پھاند بھول گیا ہے جس کے ہاتھ میں استرا تھا۔ وہ تین جاپانی بندر تو عرصہ ہوا دیوار کود کے فرار ہو چکے جو ’نہ برا کہو ، نہ برا سنو ، نہ برا دیکھو‘ کے مبلغ تھے۔

چند برس پہلے احمد پور شرقیہ میں دورِ نوابی کے سب سے لاڈلے محل صادق گڑھ پیلس کو اندر سے دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ اس محل پر جب جوبن تھا تو دنیا کا کون سا بڑا آدمی یہاں قدم رنجہ نہیں ہوا۔ پھر یوں ہوا کہ ورثا ہی اس کی آخری چوکھٹ اکھاڑ لے گئے۔

بکنگھم پیلس میں نصب میگا سائز آئینوں سے بھی بڑے صادق گڑھ پیلس کے مرکزی ہال میں نصب وکٹوریہ دور کے آئینے اپنے پیچھے صرف نشان چھوڑ گئے۔

اب اس عظیم الشان کھنڈر کی حفاظت چند جدی پشتی چوکیدار کرتے ہیں اور ورثا آج بھی اس سانحے پر پشیمان ہونے کے بجائے الزام در الزام کی رکابی میں بھر بھر کے دلیلیں کھاتے اور جواز پیتے ہیں۔ تین دیگر لاڈلے محل فوج کی تحویل میں چلے گئے اور ان میں کوئی عام آدمی بلا اجازت پر نہیں مار سکتا۔

ممکن ہے صادق گڑھ پیلس کا قصہ آپ میں سے بعضوں بعضوں کو یہاں انمل بے جوڑ سا لگ رہا ہو مگر اس پیلس کے 65 ایکڑ کو بڑھا کے تین لاکھ مربع میل تصور کر لیجیے توسب سمجھ میں آ جائے گا۔

چوہدری پرویز الہی ہوں یا پرویز بلوچ یا پرویز خان، کسی کے گھر پر بھی ایسے یلغار نہیں ہونی چاہیے۔ عزتِ نفس، بنیادی حقوق، خواتین اور بچوں کا بہرصورت احترام ہونا چاہیے اور ایسے کسی بھی قصے یا واردات میں عدالت کبھی نظرانداز نہیں ہونی چاہئے بھلے وہ لاہور ہو یا گوادر یا وانا۔

یہاں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا یہ معروف قول دہرانے کی ضرورت نہیں کہ کفر کی حکومت تو چل سکتی ہے مگر ناانصافی کی نہیں۔ عمران خان کی یہ بات دل کو لگتی ہے کہ 15 رکنی سپریم کورٹ کے تمام جج متحد ہو کر آئین کی حفاظت کریں۔

روایت کے مطابق دوران جنگ حضرت علی کرم اللہ وجہہ ایک دشمن کے سینے پر چڑھ بیٹھے۔ قتل کرنا ہی چاہتے تھے کہ دشمن نے منھ پر تھوک دیا۔

حضرت علی فوراً سینے سے اتر گئے۔ پوچھا گیا کہ قتل کیوں نہیں کیا؟ فرمایا کہ اس نے مجھ پر تھوک دیا تھا۔ قتل خدا کی راہ میں نہ ہوتا بلکہ اس میں میرا ذاتی غصہ بھی شامل ہو جاتا۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ دورِ راشدین کے تین خلفا کے ادوار میں چیف جسٹس تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments