نواز شریف کے نام الطاف حسین کا کھلا خط
یکم مئی 2023 بروز پیر
محترم میاں محمد نواز شریف صاحب
سلام و آداب
آج آپ جس مشکل دور میں رہ کر ذہنی اذیت کا شکار ہیں اس کا مجھے بخوبی اندازہ ہے۔ ماضی کا ذرا سفر کریں۔ آپ کو کراچی COP کا ایشیا کی تاریخ کا وہ سب سے بڑا جلسہ تو شاید یاد ہو گا جب 26 جنوری 1990 کو شاہراہ قائدین پر منعقد ہوا تھا اور جس میں ماسوائے پیپلز پارٹی کے، ملک کی تمام ہی سیاسی و مذہبی جماعتوں اور ان کے رہنماؤں نے شرکت کی تھی۔ اس جلسے کا سارے کا سارا خرچہ اور تمام تر انتظامات ایم کیو ایم نے کیے تھے۔ تمام رہنماؤں کے خطابات کے بعد جب میں نے خطاب کیا تھا تو دیگر سیاسی معاملات پر گفتگو کرتے ہوئے میں نے یہ کہا تھا کہ صوبہ پنجاب سے وزیراعظم کیوں نہیں بن سکتا۔ اس وقت میرے مخاطب صرف عوام ہی نہیں تھے بلکہ تمام سیاسی و مذہبی رہنما اور آپ بھی تھے اور آپ ہی مستقبل کے وزیراعظم کے متوقع امیدوار بھی تھے۔ میں نے آپ کو وزیراعظم بنوانے میں صرف ان تھک محنت کی تھی بلکہ انتہائی اہم کردار بھی ادا کیا تھا۔ آپ سے صرف ایک ہی وعدہ لیا تھا کہ آپ اقتدار میں آ کر ملک میں رائج ’فرسودہ جاگیردارانہ نظام‘ کا خاتمہ کر کے لاکھوں اور ہزاروں ایکڑ زمینیں ضبط کر کے انہیں غریب کسانوں، ہاریوں اور مزارعین میں تقسیم کر دیں گے جس کے جواب میں آپ نے نہ صرف مثبت انداز میں سر ہلا کر ”ہاں۔ ہاں“ کی تھی بلکہ زبان سے یہ بھی کہا تھا کہ میں خود بھی جاگیردارانہ نظام کا شدید مخالف ہوں لیکن اقتدار میں آتے ہی آپ کی سوچ و فکر کا زاویہ یکسر تبدیل ہو گیا اور آپ نے اپنے ایک سچے اور مخلص دوست الطاف حسین سے نہ صرف سراسر بے وفاقی کی بلکہ اس کے ساتھ کھلا دھوکہ بھی کیا جس نے آپ سے نہ ایک پائی حاصل کی، نہ ہی زمین یا بڑے بڑے یا چھوٹے سے چھوٹا کوئی پلاٹ یا پرمت اپنی ذات یا اپنے خاندان کے لیے حاصل کیا اور نہ ہی کسی قسم کا کوئی اور مفاد حاصل کیا۔
آپ نے نہ تو جاگیردارانہ سسٹم کا خاتمہ کیا اور نہ ہی عوام کی بھلائی کے لیے موثر اقدامات کیے۔ آپ ہی کے دور حکومت میں ایم کیو ایم کے خلاف فوجی آپریشن بھی شروع ہوا۔ اس وقت کے چیف آف آرمی سٹاف جنرل آصف نواز جنجوعہ مرحوم، جس نے ایم کیو ایم سے خارج کردہ جرائم پیشہ افراد پر مبنی ایم کیو ایم حقیقی بنائی تو آپ نے چیف آف آرمی سٹاف جنرل آصف نواز مرحوم کو ایسا غیر قانونی اور غیر آئینی کام کرنے بھی نہیں روکا اور جب اس وقت کے صوبہ پنجاب کے آئی جی سردار محمد چوہدری مرحوم نے لاہور سے ایم کیو ایم حقیقی کے دہشت گردوں کو گرفتار کیا تو آپ (میاں محمد نواز شریف) ہی تھے جنہوں نے حقیقی دہشت گردوں کو رہائی دلوائی تھی جس کا تذکرہ مرحوم سردار محمد چوہدری نے اپنی تحریر کردہ کتاب The Ultimate Crime کے صفحہ نمبر 605 میں جو تذکرہ کیا میں وہ یہاں تحریر کر رہا ہوں۔
During the army action in Sindh in 1992، he made Muhajir Qaumi Movement his only target، though he was supposed to act against dacoits and gangsters everywhere in the province۔ Some gangsters in MQM fled to Lahore۔ Helped by timely intelligence، the police were able to arrest all of them۔ Gen۔ Asif Nawaz wanted me to release them۔ ”But they are murderers and criminals،“ I told him۔ ”Their arrest will help in achieving the objectives of the army action۔“ But he had some other objectives in mind۔ ”You are not fully aware of the situation in Karachi،“ he said، ”I want to set these thieves to catch bigger thieves،“ I، however، did not give in۔ He then approached the Prime Minister۔
Whatever he told him، the result was that Nawaz Sharif rushed immediately to Lahore and held a high level meeting right at the airport۔ My arguments cut no ice with him۔ Then the Additional IGP، Special Branch، Maj۔ Zia۔ ul۔ Hassan، narrated the details of the criminal acts of those under arrest۔ When he insisted، rather emotionally، that the arrests were justified، the Prime Minister، instead of changing his mind، lost his temper۔ The tremendous pressure of the army chief seemed to be showing itself۔ So، we had to find a way out to allow release on bail۔ The same criminal elements later reappeared in Karachi as ”MQM Haqiqi“ ۔ The Chief of Army Staff was their patron۔
ترجمہ :
1992 ءمیں سندھ میں آرمی ایکشن کے دوران انہوں نے مہاجر قومی موومنٹ کو اپنا واحد ہدف بنایا حالانکہ انہیں تو صوبے میں ہر جگہ ڈاکوؤں اور پتھارے داروں کے خلاف کارروائی کرنی تھی۔ ایم کیو ایم سے نکالے ہوئے کچھ جرائم پیشہ افراد لاہور فرار ہو گئے تھے۔ بروقت انٹیلی جنس کی مدد سے پولیس ان سب کو گرفتار کرنے میں کامیاب رہی۔ جنرل آصف نواز چاہتے تھے کہ میں انہیں رہا کر دوں۔ میں نے انہیں بتایا کہ گرفتار شدگان قاتل اور شرپسند ہیں۔ ان کی گرفتاری سے آرمی ایکشن کے مقاصد حاصل کرنے میں مدد ملے گی۔ ان کے دماغ میں کچھ اور ہی تھا۔ انہوں نے جواب میں کہا کہ میں کراچی کے حالات سے پوری طرح واقف نہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں ان چوروں کو بڑے چوروں کو پکڑنے کے لیے استعمال کرنا چاہتا ہوں۔ تاہم میں ان سے متفق نہ ہوا۔ اس پر انہوں نے وزیراعظم سے رابطہ کیا۔ انہوں نے وزیراعظم کو جو کچھ بھی بتایا اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ نواز شریف فوراً لاہور پہنچ گئے اور ائرپورٹ پر ایک اعلیٰ سطحی میٹنگ کی۔ میرے دلائل کا ان پر کچھ اثر نہ ہوا۔ ایڈیشنل آئی جی پولیس برانچ میجر ضیا الحسن نے زیر حراست افراد کی مجرمانہ کارروائیوں کی تفصیلات بیان کیں۔ جب اس نے بصد اصرار بتایا بلکہ جذباتی ہو کر کہا کہ گرفتاریاں جائز تھیں تو وزیراعظم اپنی سوچ بدلنے کے بجائے آپے سے باہر ہو گئے اور شدید غصہ کی حالت میں بھڑک اٹھے۔ آرمی چیف کا شدید دباؤ واضح تھا لہٰذا ہمیں ضمانت پر رہائی کی اجازت دینے کا راستہ تلاش کرنا پڑا۔ وہی جرائم پیشہ عناصر بعد میں کراچی میں ”ایم کیو ایم۔ حقیقی“ کے نام سے نمودار ہوئے۔ چیف آف آرمی سٹاف ان کے سرپرست اعلیٰ تھے۔
نواز شریف صاحب!
آپ کو یہ پیراگراف پڑھ کر شاید سب کچھ یاد آ گیا ہو گا۔ بہر حال بالآخر فوج نے 19 جون 1992 کو سندھ میں فوجی آپریشن شروع کر دیا۔ فوج 19 جون 1992 کی علی الصبح اپنے فوجی ٹرکوں میں جدید ترین ہتھیاروں سے مسلح حقیقی دہشت گردوں کو بٹھا کر صوبہ سندھ کے تمام شہروں بشمول کراچی میں داخل ہوئی اور ایم کیو ایم کے خلاف خونریز آپریشن شروع کر دیا گیا۔
19 جون 1992 کے دن جب فوجی آپریشن شروع ہوا تھا تو اس وقت آپ لندن میں ہی موجود تھے اور لندن کے ڈور چیسٹر ہوٹل میں قیام پذیر تھے۔ بمشکل میں نے آپ سے ملاقات کی اجازت حاصل کی اور میں آپ سے ملاقات کرنے ڈور چیسٹر ہوٹل جا پہنچا اور میں نے آپ سے بھرپور احتجاج کرتے ہوئے کہا تھا کہ ”میں نے یا ایم کیو ایم نے آپ سے کون سی بے وفائی کی تھی کہ آج ہمارے خلاف فوجی آپریشن شروع کر دیا گیا ہے اور ایم کیو ایم کے دفاتر پر حقیقی دہشت گردوں نے فوج کی مدد کے ساتھ قبضہ کر لیا ہے بلکہ متعدد ساتھیوں کو شہید بھی کر دیا ہے“ ۔
میں نے آپ سے مزید کہا تھا کہ آپ کے ایک وفاقی وزیر چوہدری نثار علی خان، جنہوں نے قومی اسمبلی کے ایوان میں فوج کے اعلان کردہ بیان کی تحریر کو پڑھ کر بھی سنایا تھا کہ فوج نے سندھ میں ڈاکوؤں۔ پتھارے داروں، انہیں پناہ دینے والے بڑے جاگیرداروں اور ransom kidnapping for (اغوا برائے تاوان) کی وارداتیں کرنے والوں سمیت 72 بڑی مچھلیوں کے خلاف آپریشن کا منصوبہ بنا لیا ہے او ر فوج کی تیار کردہ فہرست میں 72 بڑی مچھلیوں کے نام بھی درج تھے اور وہ فہرست آج بھی قومی اسمبلی کے ریکارڈ پر موجود ہے۔ اس فہرست میں ان مجرمانہ سرگرمیوں میں سہولت کاری کرنے والوں کے نام بھی درج تھے جن میں پیر پگارا مرحوم، غلام مصطفی جتوئی، بے نظیر بھٹو مرحومہ اور آصف زرداری کے نام بھی شامل تھے۔
اس 72 بڑی مچھلیوں کی فہرست کے بارے میں، میں نے آپ کو متعدد بار ذاتی طور پر زور دے کر آگاہ کیا تھا کہ 72 بڑی مچھلیوں کی فہرست صرف ایک دھوکہ ہے۔ دراصل یہ فوجی آپریشن ایم کیو ایم کے خلاف کیا جائے گا اور یہ آپریشن 72 بڑی مچھلیوں کے خلاف ہرگز ہرگز نہیں کیا جائے گا بلکہ صرف اور صرف ایم کیو ایم کے خلاف کیا جائے گا۔ آپ نے بار بار مجھے یقین دلایا تھا کہ الطاف بھائی، میری موجودگی میں تو ایسا ہو سکتا ہے اور نہ ہی میں فوج کو ایم کیو ایم کے خلاف کوئی ایسا قدم اٹھانے کی اجازت دوں گا۔
مگر ہوا وہی جس خدشے کا اظہار میں آپ سے بار بار کرتا رہا تھا۔ جس پر آپ نے جواب دیا تھا کہ میں پاکستان جا کر صدر غلام اسحاق خان سے بات کر کے اس فوجی آپریشن کو رکوا دوں گا۔ ہاں ایک بات آپ کو اور یاد دلا دوں کہ میری موجودگی میں آپ نے ڈورچیسٹر ہوٹل کے کمرے سے فون کر کے صدر غلام اسحاق خان سے بات بھی کی تھی۔ میں آپ کی یقین دہانی کے بعد اپنے گھر واپس آ گیا لیکن پاکستان پہنچ کر آپ نے فوجی آپریشن رکوانے کے بجائے فوج کی حمایت میں بیان دیتے ہوئے کہا تھا کہ ”میں نے بڑے مقصد کے لیے اپنے 14 دوستوں (قومی اسمبلی میں ایم کیو ایم کے منتخب ارکان) کی قربانی دے دی ہے“ ۔
محترم نواز شریف صاحب!
جو فوجی آپریشن 19 جون 1992 کو آپ کے دور حکومت میں شروع ہوا تھا وہ آج تک کسی نہ کسی طرح جاری ہے۔ اس دوران ایم کیو ایم کے 25 ہزار سے زائد معصوم کارکنان، ان کے رشتے دار شہید کیے جا چکے ہیں۔ سینکڑوں کو لاپتہ کیا گیا، ان لاپتہ ساتھیوں کی عدالتوں میں پٹیشنز دائر کرنے کے باوجود وہ آج تک لاپتہ ہیں ماسوائے ان کے جن کی مسخ شدہ لاشیں ویرانوں اور سڑکوں سے بازیاب ہوئیں۔ ہزاروں بوڑھے والدین کے سہارے چھین لیے گئے اور جو شادی شدہ تھے ان کی سہاگنیں آج تک بیوگی کی چادر اوڑھنے پر مجبور ہیں۔ لاکھوں یتیم بچے بھوک افلاس یا فاقہ کشی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ہزاروں کارکنان جھوٹے مقدمات میں جیلوں میں قید ہیں۔ بینظیر بھٹو کا دور ہو یا زرداری کا دور حکومت ہو، اس میں بھی یہ فوجی آپریشن کم ہونے کے بجائے تیز سے تیز تر ہوتا گیا۔ اب آپ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر اور اپنے ضمیر کے مطابق خود فیصلہ کریں کہ آپ اپنے آپ کو کس حد تک دل کو کچل دینے والے ان تمام سانحات کا ذمہ دار سمجھتے ہیں؟
نواز شریف صاحب!
آپ بار بار مجھ سے وعدہ کر کے اسے توڑتے رہے اور فوج کے آگے اس طرح سجدہ ریز ہو گئے تھے کہ آپ نے اس کے بعد میرے بار بار ٹیلی فون کرنے کے باوجود مجھ سے ٹیلی فون پر بات کرنا بھی گوارا نہ کیا۔ وقت آگے بڑھتا گیا اور جولائی 2007 آ گیا۔ جولائی 2007 میں آپ نے لندن میں تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں کی ایک آر پارٹیز کانفرنس بلائی۔ اس کانفرنس میں ایم کیو ایم کے سوا ملک کی ہر چھوٹی بڑی سیاسی و مذہبی جماعت بشمول بے نظیر بھٹو کی پیپلز پارٹی کے ارکان اور تحریک انصاف کے رہنما عمران خان بھی شریک تھے۔
نواز شریف صاحب!
اس اجلاس میں آپ نے اپنے بیان کردہ نکات کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایک اور قرارداد بھی منظور کروائی تھی کہ اس اجلاس میں شریک کوئی بھی سیاسی و مذہبی جماعت ایم کیو ایم کے کسی ممبر سے نہ تو ملاقات کرے گی اور نہ ہی کسی قسم کی کوئی سیاسی یا غیر سیاسی بات چیت کرے گی اور اگر کسی نے اس قرارداد کی خلاف ورزی کی تو اسے اتحاد سے نکال باہر کیا جائے گا۔
نواز شریف صاحب
اگر آپ یہ بڑی دھوکہ دہی ایم کیو ایم کے ساتھ نہ کرتے اور اپنے مخلص دوستوں کہ قطعی فراموش کرنے کی قرارداد پیش نہ کرتے تو نہ تو قدرت کا مکافات عمل (Karma ) حرکت میں آتا اور نہ آج آپ کو اتنی بڑی رسوائی کا سامنا کرنا پڑتا کہ آپ کے اپنے سگے بھائی کے وزارت عظمیٰ کے اعلیٰ عہدے پر فائز ہونے کے باوجود آپ اب تک ملک واپس نہ جا سکے اور مستقبل قریب میں بھی آپ کی ملک واپسی ہر پاکستانی کے لیے ایک سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے۔ یہاں میں اپنا ہی ایک قوم دہراتا ہوں کہ
”کسی بھی شخص کو اس دنیا میں کوئی بڑا مقام ملے یا عہدہ ملے تو اسے خدا کا دیا ہوا عطیہ سمجھو اور کوئی مقام، عہدہ یا ذمہ داری کو حاصل کرنے کے بعد خود کو زمین پر خدا نہ سمجھنے لگو“ ۔
میری یہ تحریر میاں محمد نواز شریف صاحب کے ساتھ ساتھ ملک کے تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں کے رہنماؤں اور ان کے کارکنوں سمیت ایک ایک فرد کے لیے ہے۔
شکریہ۔
الطاف حسین (لندن)
یکم مئی 2023
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).