عقل مندی کا زعم


” محبت ایک وہم ہے“ جانسن کے نزدیک یہ بات ایک حقیقت تھی اور صرف کچے ذہن ہی محبت کا شکار ہوتے ہیں۔ وہ یونیورسٹی میں معاشیات کا ایک ہونہار طالب علم تھا جو یونیورسٹی کے ایک ہوسٹل میں مقیم تھا جہاں سینکڑوں دیگر طالب علم رہتے تھے۔ اس کی لیاقت کے چرچے تھے اسے اور اس کے واقف کاروں کو اس کا شاندار مستقبل سامنے نظر آ رہا تھا۔ اس کا آخری تھیسز لکھا جا چکا تھا اور کام کی آفرز چند بڑی کمپنیوں سے بھی آ چکی تھیں لیکن اس نے کسی کو جوائین کرنے کا فیصلہ ابھی کرنا تھا۔ اپنی حقیقت پسندی کی بدولت وہ سمجھتا تھا کہ سماج میں کامیاب کیرئیر کے لئے اسے ایک خوبرو جیون ساتھی کی بھی ضرورت ہے۔ وہ حقیقت پسند ہونے کی وجہ سے وہ کسی رومان وغیرہ کو کوئی اہمیت نہیں دیتا تھا اس وجہ سے نہ اس کا دل کسی لڑکی کے لئے دھڑکا تھا اور نہ ہی وہ کسی لڑکی کے احاطہ پسندیدگی میں آ سکا۔

اپنے مستقبل کو ملکی حالات اور اپنی صلاحیتوں کے ساتھ مواقع کا اندازہ کر کے جانسن نے اسی ہوسٹل میں مقیم ایک خوبرو لڑکی کو اپنے لئے ایک مناسب ساتھی کے طور پر دیکھنا شروع کیا۔ ایک روز اس نے اسے اپنے خیالات سے بھی آگاہ کر دیا۔ لڑکی نے بتایا کہ وہ تو ڈیوڈ کے ساتھ پہلے سے ہی منسلک ہے لہذا جانسن دل سے یہ خیال نکال ہی دے تو بہتر ہو گا۔ اسے اس انکار کی اپنے شاندار کیرئیر کی بدولت توقع ہرگز نہ تھی جس پر اسے کچھ حیرت اور تکلیف تو ہوئی لیکن کسی زبردستی بھی تو نہیں کی جا سکتی تھی۔

جانسن جو چند دن سے اسی پیچ و تاب میں تھا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ لڑکی نے مقابلۃً کم درجہ کے لڑکے کو ترجیح دیتے ہوئے اسے رد کر دیا ہے اور اس گھامڑ پر فریفتہ ہے۔ اسے ہوسٹل کے کوریڈور میں چلانے آواز سنائی دی۔ وہ باہر نکلا تو معلوم ہوا کہ اس لڑکی کا دوست ڈیوڈ کراہ رہا ہے اور کچھ بتا بھی نہیں رہا۔ اس نے بھی جا کر درد کی وجہ پوچھی تو اس نے جواب دیا کہ اس کا درد ٹھیک ہو سکتا ہے اگر اسے کالے رنگ کی چمڑے کی فلاں مارکہ کی پرانی جیکٹ مل جائے۔

جانسن نے اسے سوچا کہ اس طرح کی ایک جیکٹ اس کے پاس ہے تو سہی اور وہ اس اجڈ کو دے بھی دے گا۔ اس نے جیکٹ فراہم کرنے کی حامی بھر لی مگر اس شرط پر کہ وہ جولیا کو چھوڑ دے۔ ڈیوڈ نے اطمینان بھری التجا سے کہا کہ خدارا مجھے جیکٹ دیدو اور جولیا تمہارے ساتھ جاتی ہے تو میری طرف سے آزاد ہے۔ اس پر جانسن جیکٹ لے آیا اور جولیا سے کہا کہ تم ادھر سے فارغ ہو گئی ہو اور محبت کی حقیقت سے بھی واقف۔ یہ ایک وہم ہے آؤ اب ریسٹورنٹ چلتے ہیں۔

وہ ساتھ چلی گئی تاہم ڈیوڈ کے ساتھ اپنی محبت پر قائم تھی۔ جانسن نے سمجھایا کہ اپنا شعور بیدار کرو۔ انسان کو اپنا مستقبل سامنے رکھ کر زندگی کے فیصلے کرنے چاہئیں۔ اسے الجھن ہو رہی تھی ایک یونیورسٹی کی طالبہ علم کے دماغ میں یہ سیدھی سی بات آ کیوں نہیں رہی کہ رومان اور محبت محض خیالی اور تصوراتی کیفیت کا نام ہے جبکہ اس عمر میں اسے اپنے مادی مستقبل کی فکر کرنی چاہیے۔ اس روز دلائل کا بس اتنا اثر ہوا کہ باقی باتیں اگلی ملاقات میں ہوں گی ۔

اس طرح کی ملاقاتوں میں جانسن اسے حقائق زندگی کے مطابق فیصلوں کے لئے دلائل دیتا رہا اور وہ آہستہ آہستہ اس کے دلائل کی تائید کرنے لگی اور وہ ڈیوڈ کے ساتھ محبت کو بھی ایک وقتی جذبہ سمجھنے کا اظہار کرنے لگی جس سے جانسن پر امید ہو گیا کہ اس کی محنت ثمر آور ہونے لگی ہے۔

جولیا کو شادی کے لئے پروپوز کرنے کے لئے جانسن نے بالآخر اپنی جولیا سے پسندیدگی اور روایتی محبت کا ایک روز اظہار کر دیا۔ اس پر جولیا نے وہی دلائل جو جانسن نے محبت کے خلاف دیے تھے الٹا کر سامنے رکھ دیے۔ جانسن کو از حد خوشی ہوئی کہ وہ اب زیادہ باشعور ہو چکی ہے اور دونوں کا طرز فکر بھی ہم آہنگ ہو رہا ہے لہذا اس میں زیادہ افادیت نظر آنے لگی جس پر اسی سے شادی کی خواہش اور بڑھ گئی۔

اب جولیا کو وہ شادی پر رضامند کرنے کے لئے جو دلائل اور فوائد بیان کرتا وہ آگے سے ان کو رد کر دیتی۔ جانسن سے جو اسے پہلے اپنی کامیابی سمجھ رہا تھا اب جولیا کی ہٹ دھرمی کی بدولت اسے اپنے مقصد میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔ جانسن کو اب سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ اسے کس طرح قائل کرے اور بالآخر اس نے تنگ آ کر پوچھا کہ تم نے زندگی گزارنے کے لئے کسی سے تو شادی کرنی ہے اور میرے میں کیا کمی ہے جو تم مان نہیں پا رہی۔ جولیا کا اس پر جواب تھا :

”میں نے اس سے شادی کرنی ہے جس کے پاس فلاں مارکہ کی کالے رنگ کی چمڑے کی پرانی جیکٹ ہے“ ۔

یہ جواب سننے کے ساتھ جانسن کی شعور بیداری کے لئے اپنی کی ہوئی ساری محنت اکارت گئی دیکھ کر اس کی عقلمندی کے زعم کا محل دھڑام سے زمیں بوس ہو گیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments