غیر سیاسی باتیں – میرا پاکستان


پاکستان کی پچھتر سالہ تاریخ میں فوج کا ملک کے تعمیری کردار میں بھی ایک اہم حصہ ہے۔ دفاع پاکستان کے بنیادی کردار کے علاوہ ملک کی تعمیر اور ترقی کے منصوبہ جات میں فوج نے اپنا بھر پور حصہ ڈالا ہے کراچی پورٹ کی تعمیر کے علاوہ ملک میں بجلی کی فراہمی کے لئے بنائے جانے والے بڑے ہائیڈرو پاور پروجیکٹس بھی فوج کی نگرانی میں تعمیر کیے گئے ہیں، چین اور پاکستان کے مشترکہ منصوبوں جن میں سی پیک قابل ذکر ہے یہ بھی فوج کی حفاظتی نگرانی میں ہی مکمل کیا جا رہا ہے اس کے علاوہ قدرتی آفات میں بھی فوج کا کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے اور جب بھی سول حکومت نے فوج کو آواز دی فوج نے اس صدا پر لبیک کہا ہے۔

ریاست پاکستان کے تحفظ کا معاملہ ہو فوج کبھی پیچھے نہیں رہی بلکہ اس نے ہمیشہ صف اول کے دستے کا کردار ادا کیا ہے۔ ریاستی معاملات میں فوج کے سیاسی کردار کو پاکستان کی سیاسی قیادت ہدف تنقید تو بناتی ہے مگر مشکل کی ہر گھڑی میں اور سیاسی تنازعات کے حل کے لئے فوج کی طرف ہی دیکھتی ہے یہی دو عملی ہے جس کا ہماری سیاسی اشرافیہ ہمیشہ سے شکار رہتی ہے۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ پاکستان میں فوج کے سیاسی کردار کے پس منظر میں بھی ہماری سیاسی قیادت ہی شامل رہی ہے کیونکہ جب سیاسی قیادت سیاسی تنازعات کو سیاسی انداز میں حل کرنے میں ناکام ہو جاتی ہے تو پھر لامحالہ ان کی نظر فوج کی طرف ہی اٹھ جاتی ہے۔ آج پاکستان کے سیاسی حالات کا حل بھی ہمارے قائدین کے بس سے باہر نظر آتا ہے اور ہمارے ایک سابق منتخب وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے تو برملا فوج کو دعوت بھی دے دی ہے۔

ریاست پاکستان میں فوج کے کردار سے انکار نہیں کیا جا سکتا اور جو یہ سمجھتا ہے کہ فوج کے بغیر ملک کا نظام چلایا جا سکتا ہے اس کی سیاسی بصیرت پر شک ہوتا ہے سیاسی حکومتوں میں ملک کی اسٹیبلشمنٹ کا پس پردہ کردار ہمیشہ موجود رہتا ہے۔ بین الاقوامی تعلقات کا معاملہ ہو یا اندرونی سیکورٹی پالیسی ان میں اسٹیبلشمنٹ کے کردار کو کسی صورت رد نہیں کیا جا سکتا۔ کچھ عرصہ سے چند ناعاقبت اندیش براہ راست فوج پر جمہوری نظام میں دخل اندازی کرنے کا الزام بھی بلا جھجک، بلا دھڑک اور بغیر یہ سوچے سمجھے لگا رہے ہیں کہ وہ ان جانے میں یا جانتے بوجھتے ایسی ریاست دشمن طاقتوں کے ایجنڈے کو پروان چڑھا رہے ہیں جن کی خواہش ہمیشہ سے ایک کمزور پاکستان کی رہی ہے۔

ماضی قریب میں ہمارے ہاں ایک بات کی بہت پابندی کی جاتی رہی کہ فوج اور عدلیہ کو عوامی فورم پر قطعاً زیر بحث نہیں لایا جائے گا اور فوج کو بلاوجہ سیاسی تنازعات میں ملوث نہیں کیا جائے گا اس پر سختی سے عمل بھی ہوتا رہا لیکن ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال جو کہ بہت پیچیدہ اور اب اس میں کسی حد تک جذباتی عنصر بھی شامل ہو چکا ہے ان پیچیدہ سیاسی معاملات میں فوج اور عدلیہ کو اپوزیشن اور حکومت دونوں کی جانب سے بے جا ہدف تنقید بنایا جا رہا ہے جو کہ ریاست پاکستان کی سلامتی کو خطرات کی جانب دھکیلنے کی جانب پہلا قدم کہا جا سکتا ہے اور جو کام ہمارا دشمن نہ کر سکا وہ اب ہم اپنے ہاتھوں سے خود ہی انجام دے رہے ہیں۔

پاکستان کی جمہوری حکومتوں نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بہتر تعلقات کو ہمیشہ ترجیح دی ہے لیکن آج بدقسمتی یہ ہو گئی ہے کہ افواج پاکستان اور سیکورٹی ایجنسیوں اور عوام کے شہداء کی قربانیوں کو پس پیش ڈال کر ہماری سیاسی طاقتیں اپنے اقتدار کے حصول اور اس کو دوام بخشنے کے لئے فوج پر ہی بلا واسطہ تنقید کر رہی ہیں۔ یہ بات سمجھنے کی ہے کہ فوج ایک مضبوط نظم و نسق والا ادارہ ہے اس میں خدمات انجام دینے ہر فرد کی اپنی ایک اہمیت ہے وہ چاہے حاضر سروس ہو یا ریٹائر ہو چکا ہو چونکہ بطور ادارہ پالیسیوں کا تسلسل کم و بیش وہی رہتا ہے اس لئے اگر کسی کو یہ خوش فہمی ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے کردار کو ختم کر سکتا ہے تو پاکستان کے معروضی حالات میں یہ ممکن نہیں ہے۔ اگرچہ پاکستان میں سیاسی نظام حکومت قائم ہے لیکن اسٹیبلشمنٹ کی سرپرستی کے بغیر ملک کے حالات نہایت نامناسب ہو جاتے ہیں جن کا تماشا ہم آج کل دیکھ رہے ہیں۔ پاکستانی سیاسی رہنماؤں کا اپنے اہداف کے تحفظ کے لئے پاک فوج کے خلاف تنقید کرنا ایک نالائق اور غلط قدم ہے اس قدم سے ملک کی داخلی اور خارجی پالیسیوں پر برا اثر پڑ سکتا ہے۔ سیاسی رہنماؤں کی یہ تنقیدیں اپنے ہی ملک کو اداروں میں تنزلی اور توڑ پھوڑ کا سبب بن سکتی ہیں۔

سیاسی رہنماؤں سے درخواست ہی کی جا سکتی ہے کہ وہ ریاست پاکستان میں پاک فوج کے کردار کو جھٹلانے کی کوشش نہ کریں اور سیاسی معاملات کو اپنے بل بوتے پر حل کریں۔ سیاسی نظام کے ساتھ مشترکہ کام کرتے ہوئے ملک کے دفاع اور حفاظت کو بہتر بنانے کے لیے اپنے تجربات اور استعدادات کو فائدہ مند طریقہ پر استعمال کر سکتے ہیں نہ کہ اپنے نظریات کو تھوپنے کے لیے دوسروں کی قربانیاں نظر انداز کر دیں۔

دوسری جانب ہمارے سپہ سالار نے قوم کو خبردار کیا ہے کہ دشمن عوام اور فوج کے درمیان دراڑ ڈالنے کے لئے سر گرم ہے ملک کے حالات جیسے بھی ہوں پاکستان کے عوام اپنی افواج پر مکمل اعتماد رکھتے ہیں کیونکہ عوام یہ سمجھتے ہیں کہ فوج ہی ان کو ہر مشکل سے نکال سکتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہر مشکل میں عوام فوج کی طرف ہی دیکھتے ہیں اور وہ اس کو اپنا مسیحا سمجھتے ہیں کیونکہ ملک کی سیاسی قیادت نے توان کو ہمیشہ مشکلات کی جانب ہی دھکیلا دیا ہے عوام جانتے ہیں کہ فوج کے بغیر ملک کا دفاع اور حفاظت نا ممکن ہے۔

وہ فوج کی مثبت کارکردگی اور قومی مفادات کے لیے دی جانے والی قربانیوں کے ہمیشہ معترف رہتے ہیں البتہ ملک میں جاری سیاسی کشمکش میں پاکستان کا ایک عام شہری سخت پریشان اور ہیجان کا شکار ہے اور اس ہیجان کے خاتمے کے لئے وہ سیاسی رہنماؤں سے مایوس ہو کر اسٹیبلشمنٹ کی طرف ہی دیکھ رہا ہے۔ عوام کی توقعات کو بحال اور ان کے دلوں میں ملک کی محبت زندہ رکھنے کے لئے اسٹیبلشمنٹ کو اپنا مثبت کردار کرنا چاہیے ورنہ جس محفل میں بیٹھیں ایک ہی بات ہوتی ہے کہ ملک کا کیا بنے گا اور محفلوں کی یہ گفتگو اب خطرناک ہوتی جا رہی ہے۔

میرے گھر میں بچے مجھ سے پوچھتے ہیں کہ ہمارا مستقبل کیا ہو گا ہمارا پاکستان کون سا والا ہے کیونکہ جب سے انہوں نے ہوش سنبھالا ہے کہ ان کے کانوں میں مختلف نعروں کی گونج ہی سنائی دیتی رہی ہے۔ جن میں سب سے پہلے پاکستان، امیر اور غریب کا پاکستان، نیا پاکستان، پرانا پاکستان، ریاست مدینہ، ہمارا پاکستان وغیرہ شامل ہیں میں نے ان کے سوال کے جواب میں کہا کہ ہمارا پاکستان قائد اعظم کا پاکستان ہے جس کا خواب علامہ اقبال نے دیکھا تھا اور یہ میرا اور عوام کا پاکستان ہے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments