میرے بچن کے دن


کتنے اچھے تھے دن
آج بیٹھے بٹھائے کیوں یاد آ گئے
میرے بچھڑوں کو مجھ سے ملا دے کوئی
میرا بچپن کسی مول لا دے کوئی

محمد علی شہکی اور افشاں احمد کا یہ دوگانا ہم بچپن میں ریڈیو اور ٹی وی پر سناء اور دیکھا کرتے تھے، اچھا ضرور لگتا تھا لیکن اس وقت اس کے مفہوم پر غور و فکر نہیں کرتے تھے۔ اب سنتے ہیں تو آنکھوں میں آنسو اور دل سے ایک آہ نکلتی ہے اور احساس ہوتا ہے کہ شاعر نے کتنے احساس و جذبات سے بھر پور پیغام دیا تھا۔ واقعی بچپن کا کوئی مول نہیں ہوتا۔ اس وقت ہم ہنسنے کے بہانے ڈھونڈتے تھے، بات بات پر ہنسی مذاق ہوتا تھا۔ جیسے سالگرہ کا دن آتا تو امی ہماری پسند کا کھانا پکاتیں اور ہم دیگر بچوں کے ساتھ مل کر کھاتے تھے۔

اور گانے بجاتے تھے۔ اس زمانے میں چند گلوکار ہمارے پسندیدہ تھے جیسے حسن جہانگیر اور جنید جمشید۔ ان کی کیسٹوں کو ہم خوب زوردار آواز سے بجاتے اور ناچتے تھے۔ تصویریں کھنچواتے تو خوب ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہونے والی تصویریں کھنچواتے تھے کہ جنھیں اب یاد کر کے کچھ شرمندگی سی ہوتی ہے۔ کچھ توڑ پھوڑ بھی کرتے تھے۔ گھر میں کوئی سبزی جیسے ساگ وغیرہ آتا تو ہم ان کو چھری سے ایک جگہ رکھ کر کاٹتے جاتے اور کہتے جاتے کہ ”نان کھاؤ، پیمہ کھاؤ“ ۔

پیمہ سے مراد قیمہ ہوتا تھا۔ نہ جانے کہاں سے یہ الفاظ سیکھ لیے تھے حالانکہ اس وقت نہ تو ہم نان شوق سے کھاتے تھے نہ قیمہ۔ گھر کی مرغی کو ”گگی“ کہتے اور سیسمی سٹریٹ کے بگ برڈ کو ”گجی“ کہتے تھے۔ مرغی جیسے ہی انڈا دے کر اٹھتی تو ہم فوراً انڈا اٹھا کر فرش پر دے مارتے اور کہتے کہ ”گگی انا ٹھا“ یعنی مرغی کا انڈا ٹوٹ گیا۔ اسی طرح گھر کی بطخوں کے پیچھے بھاگتے دوڑتے اور ان کو گھوڑا بنا کر ان کے اوپر بیٹھ بھی جاتے۔

بیچاری بطخیں دوڑتی جاتیں۔ چھوٹے بھائی کو آلو کھانا بہت پسند تھے، وہ کہتا کہ ”میں آلو، لالہ گیدڑ“ ۔ اسی طرح ہماری ایک خاص شرارت اپنے ریڈیو یا ٹیپ کو ”مہنگے داموں“ بیچنا تھا۔ ہوتا یہ کہ نانی اماں ہمیں کوئی ریڈیو یا ٹیپ دلواتیں چند دنوں بعد تو ہمارا ان کو کھولنے کا ارادہ بن جاتا۔ نانی اماں ہمارے ارادوں کو بھانپ کراس ریڈیو یاٹیپ کو صندوق میں رکھ دیتیں کہ تم جب بڑے ہو گے تو دوں گی۔ لیکن ہم بھی کہاں باز آنے والے تھے۔

ہم کہتے کہ اماں ہماری چیز ہے تو ہمیں دیں نا، ہم اپنے صندوق میں رکھ لیں گے۔ لیکن صندوق میں رکھنے کی بجائے ہم چھوٹے بھائی کے ساتھ مل کر ان کا انجر پنجر کر دیتے۔ ہم چھوٹے بھائی کو بہلاتے کہ اب ہم اسے زیادہ ”مہنگے داموں“ فروخت کریں گے۔ لیکن مہنگے داموں کیا فروخت ہوتے، جب ہمارا جی بھر جاتا تو نانی اماں سے کہتے کہ اب ان کا ”گاں گوشت“ کریں۔ یعنی جس طرح بڑی عید پر گائے کے گوشت کو بھونا کرتے ہیں، اسی طرح اس کو بھی جلائیں۔ اس عمل کے بعد ہم کہتے کہ ہم نے ریڈیو یا ٹیپ کی ”جاں بکی“ کردی ہے۔ یعنی انہیں ”مکتی“ دلا دی ہے۔

گھر میں اپنے کھلونوں کو الماریوں میں سجاتے، ہر کچھ دنوں بعد انہیں اٹھا کر الماری کی صفائی کرتے اور ساتھ ہی ماسٹر مولٹی فوم کے اشتہار کے بچوں کی طرح ”کام، کام، کام، دن رات کریں ہم کام“ بھی گنگناتے جاتے۔

اب وہ سب کچھ نہ جانے کہاں چلا گیا اور جب اس وقت کی یاد آئے تو بس یہی بول ذہن میں گونجتے ہیں۔
میرے بچن کے دن
کتنے اچھے تھے دن
آج بیٹھے بٹھائے کیوں یاد آ گئے
میرے بچھڑوں کو مجھ سے ملا دے کوئی
میرا بچپن کسی مول لا دے کوئی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments