خالد حمید فاروقی کا ذکر خیر
28 جنوری 2017 کی ایک انتہائی سرد دن تھا اور صبح کے تقریباً چار بج رہے تھے جب ہم نے جرمنی سے بلجیم کے لئے سفر شروع کیا۔ ہماری منزل ”برسلز“ تھی۔ تقریباً ساڑھے آٹھ بج رہے تھے جب ہم برسلز میں داخل ہوئے۔ برسلز یورپی یونین کا اور نیٹو کا ہیڈ کوارٹر ہے اور اس بارے بہت کچھ سن چکا تھا اور دیکھنے کی شدید خواہش تھی جو آج پوری ہو رہی ہے۔ شہر میں داخل ہوتے ہی بلند و بالا اور قدیم اور جدید طرز تعمیر کی عمارتیں نظر آنے لگی تھیں۔
افنان خان لودھی صاحب کے ساتھ متعدد سفر کرنے کے مواقع ملے، اس دوران علم ہوا کہ ان کا ایک شوق فوٹو گرافی بھی ہے۔ جہاں جہاں من پسند عمارت نظر آتی فوراً کیمرے میں محفوظ کر لیتے ہیں اس سفر میں بھی ایسا ہی تھا۔ برسلز پہنچ کر ہمیں اب ہمیں ناشتہ کے لئے کسی مناسب ریسٹورنٹ کی تلاش تھی جو جلد ہی مل گیا اور پروگرام شروع ہونے تک باقی وقت وہیں گزارا۔ ہم نے دس بجے بیلجیم پریس کلب کے زیر اہتمام ”رائٹرز کانفرنس“ میں شرکت کرنا تھی جس میں یورپ میں مقیم پاکستانی صحافی، ادیب اور شعراء کرام شرکت کر رہے تھے۔
مجھے اس پروگرام کی دعوت خالد حمید فاروقی نے دی تھی۔ ثاقب عمران صاحب ان دنوں بلجیم پریس کلب کے صدر تھے۔ اسی پروگرام میں لاہور کے پرانے دوست اور ترقی پسند شاعر و لکھاری سیسل شیراز راج سے بھی سالوں بعد ملاقات ہوئی تھی۔ لاہور سے نکلنے والے ایک ماہنامہ ”نوائے انسان“ کی توسط سے اس انسان دوست سے رابطہ ہوا تھا۔ اور نوائے انسان وجاہت مسعود صاحب کی تخلیق تھی۔ برسلز کی رائٹر کانفرنس چار فکری نشستوں پر مشتمل تھی۔
اس کانفرنس میں خالد حمید فاروقی کے علاوہ شیراز راج اور صدر عمران ثاقب کی بھاگ دور نمایاں تھی۔ خالد فاروقی مہمانوں کی دیکھ بھال اور شیڈول پروگرام کی اس طرح دیکھ بھال کر رہے تھے گویا کسی بارات کی آمد ہے۔ موقع ملتا تو خالد فاروق سے چند جملے بول لیتا تھا۔ اس پروگرام سے جان کاری ہوئی تھی کہ خالد حمید فاروقی کو صحافت، اردو ادب اور اردو زبان سے کس قدر لگاؤ ہے۔ انہوں نے اپنی نیک فطرت اور انسان دوستی طبیعت کی وجہ سے یورپ میں مقیم پاکستانی صحافیوں، ادیبوں شاعروں اور لکھاریوں میں ایک بہت عزت و احترام کا مقام حاصل کر رکھا تھا اور سب کو اکٹھا بھی کر رکھا تھا۔ جس کا ثبوت یہی کانفرنس تھی جس میں صحافتی، ادبی اور شاعری کی دنیا کے بڑے بڑے نام موجود تھے۔
دیار غیر میں فاروقی صاحب نے ایک اچھوتا پاکستانی خاندان بسا رکھا تھا جس میں صحافی، شاعر ادیب، انسانی حقوق کے کارکن سبھی شامل تھے۔ سب کو محبت و احترام کی لڑی میں پرویا ہوا تھا۔ بلاشبہ برسلز میں پاکستانی صحافت کی پہچان خالد حمید فاروقی تھے۔ وہ برسلز میں جیو کے بیورو چیف ہونے کے باعث عالمی رپورٹنگ کے تناظر میں وہ ہمیشہ فعال نظر آتے تھے۔
انہوں نے مسئلہ کشمیر سمیت دیگر سلگتے عالمی مسائل پر بھرپور رپورٹنگ کی۔ جرمنی کے سب سے بڑے نشریاتی ادارے ڈوئچے ویلے ( ڈی ڈبلیو) کے اردو سیکشن کے ساتھ بھی ان کی وابستگی رہی۔ ان کے قلم اور ان کی آواز نے اردو کو یورپ میں پھیلانے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ میں ان دنوں روزنامہ مشرق لاہور کے لئے رپورٹنگ کرنے کے علاوہ باقاعدگی سے کالم نگاری کی بھی کوشش کرتا رہتا تھا۔ میرے کالم جب خالد حمید فاروقی کی نظروں سے گزرے تو انہوں نے چند ماہ قبل ہی مجھے اس رائٹر کانفرنس میں شرکت کی تاکید کی تھی۔
بلاشبہ یہ شرکت بہت سود مند رہی تھی اور ایک ہی نشست میں یورپ سے متعارف ہو گیا تھا۔ ایک دن فاروقی صاحب کا فون آیا کہ کامران خان نے کسی خبر پر آپ کے کمنٹس لینے ہیں، کراچی سٹوڈیو سے آپ سے رابطہ کیا جائے گا۔ حسب وعدہ کراچی سٹوڈیو سے مجھ سے رابطہ کیا گیا لیکن دو بار کوشش کے باوجود انٹر نیٹ پرابلم کی وجہ سے لائیو کمنٹ نہ ہو سکا تھا۔ اس حد تک وہ تعاون کرنے والے صحافی تھے۔ خالد حمید فاروقی کا تعلق کراچی شہر سے تھا۔
انہوں نے کراچی یونیورسٹی کے علاوہ انٹر نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف سوشل سٹڈیز سے بھی اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ وفات کے وقت برسلز میں جیو کے بیورو چیف اور سینئر صحافی کے طور پر صحافتی ذمہ داریاں ادا کر رہے تھے۔ ان کی وجہ شہرت عالمی رپورٹنگ تھی۔ روس یوکرائن کی جنگ کے دنوں میں وہ یوکرائن کے جنگ زدہ علاقوں سے لائیو رپورٹنگ کرتے رہے۔ ایک بار ان کو واٹس ایپ پر میسیج بھیجا کہ فاروقی صاحب، اپنا بھی خیال رکھیں تو ان کا جواب ملا کہ Thanks shahid sb۔
خالد حمید فاروقی صاحب کا صحافت سے عشق سب پر واضح تھا۔ وہ بڑے عالمی ایونٹس کی کوریج کے لئے یورپی ممالک میں بکثرت سفر کیا کرتے اور مکمل معلومات سے بھرپور خبر ادارے کو بھیجتے۔ وفات سے قبل ان کی اہم رپورٹنگ میں فرانس کے صدارتی انتخابات کی کوریج بھی شامل تھی۔ فاروقی صاحب خود بھی تمام انسانوں سے مذہب، رنگ و نسل سے بالا تر ہو کر سبھی سے محبت کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ برسلز و یورپ کے اعلیٰ سرکاری حلقوں میں قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔
انسانی حقوق کے شعبہ میں ان کی من پسند لیڈر عاصمہ جہانگیر تھیں۔ فروری 2018 میں جب اچانک عاصمہ جہانگیر کی وفات ہوئی تو انہوں نے اس کی تعزیت میں ایک بڑا تعزیتی اجلاس جنیوا میں منعقد کیا تھا اور ہمیں دعوت دی تھی۔ یہاں بھی میں نے اور افنان صاحب نے اکٹھے شرکت کی تھی۔ اس موقع پرایک نمائش کا بھی اہتمام کیا گیا تھا انسانی حقوق سے وابستہ عاصمہ جہانگیر کے قدر دان غیر ملکیوں نے عاصمہ جہانگیر کی خدمات پر روشنی ڈالی تھی۔
اس پروگرام کا کریڈیٹ بھی خالد حمید فاروقی کو جاتا تھا۔ عاصمہ جہانگیر کی یاد میں ایک پروگرام مارچ 2018 میں فرینکفرٹ میں منعقد ہوا تھا۔ برسلز سے شیراز راج کے ہمراہ خاص طور پر فرینکفرٹ آ کر عاصمہ جہانگیر کو خراج تحسین پیس کیا تھا اور ان کے ساتھ اپنے تعلق کی یادوں کا ذکر کیا تھا۔ اگلے سال فروری 2019 میں جرمنی کے شہر میونخ میں سیکورٹی کانفرنس جاری تھی، میں بھی روزنامہ مشرق کی نمائندگی میں پاکستان جرمن پریس کلب کے پاکستانی صحافیوں کے ساتھ وہاں موجود تھا۔
پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی پاکستان کی نمائندگی کے لئے وفد کے ساتھ موجود تھے۔ امریکہ، جرمنی اور یورپین یونین میں تعینات پاکستانی سفیر بھی وہاں موجود تھے۔ خالد حمید فاروقی صاحب کسی دوسرے ملک میں کسی اور ایونٹ کی کوریج کر رہے تھے اور سیکورٹی کانفرنس میں شامل نہ تھے۔ مجھے ان کے میسیج اور فون کال دونوں ملے کہ 8 سے دس سیکنڈ کے چند ویڈیو کلپس بنا کر مجھے بھیج دیں ساتھ ہی کچھ ٹیکنیکل باتیں بھی بتائیں مجھے جن کا خیال رکھنا تھا۔
اس واقعہ سے پتہ چلتا ہے کہ وہ صحافت سے کیسا لگاؤ رکھتے تھے اور عالمی ایونٹس کو کتنی اہمیت دیتے تھے۔ اسی سال دسمبر میں کرونا کی وبا کی علامتیں ظاہر ہونا شروع ہو گئیں تھیں اور پھر اگلے دو سال انہی پابندیوں کی نذر ہو گئے اور سب کچھ بند ہو گیا تھا۔ 7 مئی 2022 کو اچانک ان کی وفات کی خبر نے سب کو غم زدہ اور افسردہ کر دیا تھا۔ لندن سے گھر واپس آتے ہوئے دوران سفر حرکت قلب بند ہو جانے سے اپنے خالق حقیقی سے جا ملے تھے۔
خالد حمید فاروقی کے دوست احباب کی فہرست بہت طویل ہے ان میں عمران ثاقب صدر پریس کلب بیلجیم، شیراز راج کے ساتھ ان کا دہائیوں کا ذاتی اور صحافتی اور قلمی تعلق رہا۔ ڈوئچے ویلے سے تعلق رکھنے والے مقبول ملک صاحب نے ان کی اچانک وفات پر ان کے ساتھ اپنی یادوں کا ذکر کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ”فاروقی سے آج تک جتنی بھی ملاقاتیں ہوئیں ان میں ان کے پاس بولنے کے لئے، اظہار رائے کے لئے موضوعات کی کبھی کوئی کمی نہیں رہی تھی۔
کبھی بون میں ڈی ڈبلیو اردو کے دفاتر میں، کبھی بون کے ورلڈ کانگریس سینٹر میں، کبھی گلوبل میڈیا فورم کے دوران دریائے رائن پر کروز شپنگ کے دوران تو کبھی بون میں عاطف توقیر کے گھر کے باغیچے میں گرمیوں کی شام ہونے والی کسی Grill پارٹی کے دوران خالد حمید فاروقی کبھی چائے یا کبھی کافی کا کپ ہاتھ میں لئے کھڑے کھڑے بات کرتے تھے ( مقبول ملک کی فیس بک کا نوٹ۔ ان کی اجازت سے ) ۔ خالد حمید فاروقی کی وفات کے ایک سال ہونے کے موقع پر ان کے دیرینہ دوست سیسل شیراز راج نے ان کی زندگی کی جدوجہد کو شاندار لفظوں میں بیان کیا ہے اور لکھا ہے کہ“ خالد حمید فاروقی کی ناگہاں رحلت کو ایک برس بیت گیا۔ ایک دکھ بھری حیرت ہے جو دل کو گرفت کرتی ہے۔ شیراز آگے مزید لکھتے ہیں کہ ”ضیاء الحق کے کالے قوانین، قید و بند کی صعوبتیں، بحالی جمہوریت کی تحریک، صنفی مساوات کی تحریک، انسانی حقوق کی تحریک، آزادی صحافت کی عظیم تحریک، شعر و ادب کے فرزانے دیوانے۔ خالد کا دل ان تمام کے ساتھ دھڑکتا تھا“ ۔
خالد حمید فاروقی کی وفات پر پاکستان اور یورپ بھر میں گہرے دکھ و رنج کا اظہار کیا گیا تھا۔ پاکستان جرمن پریس کلب نے ان کی وفات پر تعزیتی پریس ریلیز جاری کی تھی جو روزنامہ مشرق لاہور میں ان کی تدفین کی خبر کے ساتھ 11 مئی 2022 کو باتصویر شائع ہوئی تھی۔ 9 مئی کو برسلز میں نیٹو کے ہیڈ کوارٹر کے نزدیک قبرستان میں خالد حمید فاروقی کو سپرد خاک کر دیا گیا۔ ان کی تدفین کے موقع پر انتہائی رقت آمیز مناظر دیکھنے کو ملے تھے۔ دہائیوں تک ایک ساتھ کام کرنے والے یورپ کی صحافی اس موقع پر بہت رنجیدہ اور غمزدہ تھے۔ اس اچانک صدمے کو قبول کرنے کو کوئی بھی تیار نہ تھا لیکن یہ حقیقت تھے کہ خالد حمید فاروقی اب اس دنیا میں نہیں رہے تھے لیکن ان کا نام اور کام زندہ رہے گا۔
- بھارتی انتخابات کا ایک ”آزادانہ“ جائزہ - 14/06/2024
- خود نوشت، ”ریاض نامہ“ پر ایک نظر - 24/05/2024
- آزادی صحافت کا عالمی دن - 06/05/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).