سی پیک میں افغانستان کی شمولیت اور ٹی ٹی پی سے مذاکرات کی دعوت، امیر متقی کا دورۂ پاکستان کتنا اہم تھا؟


متقی
افغانستان میں عبوری حکومت کے وزیر خارجہ امیر خان متقی اور ان کے وفد کے دورہِ پاکستان میں سکیورٹی، تجارت اور افغانستان کے حالات پر زیادہ توجہ رہی۔ اس دوران پاکستان کا مؤقف یہ رہا کہ افغانستان کی سرزمین کسی بھی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونی چاہیے۔

امیر متقی نے جہاں پاکستانی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ سکیورٹی مسائل کے حل کے لیے وہ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ساتھ مذاکرات بحال کرے، تو وہیں چینی وزیر خارجہ سے ملاقات میں بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے سے چین اور افغانستان کے درمیان تجارتی و اقتصادی تعاون مضبوط بنانے کی خواہش ظاہر گئی۔

افغان وزیر کی حالیہ ملاقاتوں کے بارے میں تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس مرتبہ زیادہ توجہ اقتصادی حالات، تجارت کے فروغ اور عوامی خوشحالی پر دی گئی ہے۔

اس کے علاوہ اہم پیش رفت یہ رہی ہے کہ اس مرتبہ پاکستان کے پختون رہنماؤں خاص طور پر قوم پرست رہنما جیسے عوامی نیشل پارٹی کے ایمل ولی خان اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے بھی طالبان رہنما سے ملاقاتیں کی ہیں۔

امیر خان متقی پر اقوام متحدہ کی جانب سے افغانستان سے کسی دوسرے ملک جانے پر پابندی عائد ہے لیکن حالیہ دورے کے لیے انھیں خصوصی اجازت دی گئی تھی۔

Radio Pakistan

Radio Pakistan

پاکستان کو ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کی دعوت

چین اور پاکستان کے ساتھ سہ فریقی اجلاس کے علاوہ ان کی انسٹیٹیوٹ آف سٹریٹجک سٹڈیز کے زیر انتظام سیمینار میں شرکت بحث کا موضوع بنی رہی جس میں انھوں نے پاکستانی حکومت کو ٹی ٹی پی سے مذاکرات کی دعوت دی۔

ان کا کہنا تھا کہ ٹی ٹی پی کی جانب سے پاکستان میں حملوں کے لیے افغان سرزمین استعمال نہیں کی جا رہی جبکہ ان کی حکومت نے ماضی میں بھی پاکستان اور ٹی ٹی پی کے درمیان مذاکرات کی میزبانی کی ہے۔

امیر خان متقی نے اس دورے کے دوران کہا ہے کہ ’افغانستان میں حکومت کسی کو بھی اجازت نہیں دے گی کہ ان کی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال ہو۔‘

ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے یہ کبھی نہیں کہا کہ خواتین کا تعلیم حاصل کرنا غیر اسلامی ہے بلکہ جب تک اس بارے میں واضح پالیسی ترتیب نہیں دی جاتی تب تک ان کی تعلیم کا سلسلہ معطل رہے گا۔

امیر خان متقی نے کہا کہ امارات اسلامی کی کوششوں سے تحریک طالبان پاکستان کو مذاکرات کی میز پر لایا گیا تھا تاکہ خطے میں حالات کو بہتر کیا جا سکے۔

پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات کچھ عرصے سے کشیدہ رہے ہیں جب افغانستان کی جانب سے پاک افغان سرحد پر خار دار تار کو اکھاڑا گیا اور سرحد پر تعینات کچھ اہلکاروں کی جانب سے بیان بھی جاری کیے گئے۔

@JIPOfficial

@JIPOfficial
افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی کی پختون رہنماؤں سے بھی ملاقاتیں ہوئیں

اس کے بعد پاکستان کے وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے افغانستان کا دورہ کیا تھا جس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان پائی جانی والی کشیدگی کو کم ہوئی تھی۔ امیر خان متقی کا حالیہ دورہ اس سلسلے کی ایک کڑی ہے اور اس میں پاکستان کے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔

امیر خان متقی نے پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر سے ملاقات کی اور وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری سے بھی تفصیلی بات چیت کی گئی ہے۔ پاکستانی وزارت خارجہ کے بیان کے مطابق دونوں وزرا نے امن اور سکیورٹی کے علاوہ تجارت اور روابط بحال کرنے کے معاملات پر توجہ دی ہے۔

اس کے علاوہ پاکستان چین اور افغانستان کے وزرائے خارجہ کے درمیان سہہ فریقی اجلاس منعقد ہوا ہے جس میں امن کے قیام اور سکیورٹی کے لیے روابط بحال کرنے پر زور دیا گیا ہے جبکہ تجارت کے فروغ کے لیے انسداد دہشت گردی پر کام کرنے کا کہا گیا ہے۔

افغان امور کے ماہر سینیئر صحافی حسن خان نے بی بی سی کو بتایا کہ اس مرتبہ افغان وزیر خارجہ کا دورہ تفصیلی تھا اور اس میں ان کی زیادہ ملاقاتیں حکام بالا سے رہی ہیں اور صحافیوں سے ان کے بات چیت نہیں ہو سکی۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ دورہ اس لیے اہم ہے کیونکہ اس سے پہلے انڈیا میں شنگھائی تعاون تنظیم کا اجلاس ہوا اور پھر یہاں چین کے ساتھ پاکستان اور افغانستان کے حکام کی ملاقات ہوئی ہے جس میں اہم پیشرفت ممکن ہے۔

اس حوالے سے پاکستان انسٹیٹوٹ آف پیس سٹڈیز کے ڈائریکٹر محمد عامر رانا نے کہا کہ یہ دورہ اس لیے اہم ہے کیونکہ اس میں اقوام متحدہ نے بھی امیر خان متقی کو دورے کی اجازت دی ہے جس کا مطلب ہے کہ انھیں اقوام متحدہ کی حمایت حاصل ہے اور اس میں زیادہ توجہ جیو اکنامکس (علاقائی معاشی) صورتحال پر دی جا رہی ہے۔

تجارتی سرگرمیوں کے لیے سی پیک میں افغانستان کی شمولیت

@ForeignOfficePk

@ForeignOfficePk

پاکستان، چین اور افغانستان کے وزرائے خارجہ نے سی پیک اور بیلٹ اینڈ روڑ منصوبے میں افغانستان کی شمولیت اور تعاون کا عزم ظاہر کیا ہے۔

تینوں وزرائے خارجہ کے درمیان بات چیت کے مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ’تینوں ملک مل کر کراس بارڈر تجارتی نظام کو بہتر کرنے پر متفق ہیں۔‘

اس بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ ’افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت، غیر قانونی پابندیوں اور علاقائی امن و استحکام کو نقصان پہنچانے والے اقدامات کی کھلی مخالفت کی جائے گی۔‘

افغان وزیر سے ملاقات سے متعلق چینی وزارت خارجہ کا کہنا تھا کہ ’چین کبھی بھی افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرتا۔۔۔ امید ہے کہ افغانستان ہمسایہ ممالک کے خدشات پر مثبت ردعمل دے گا۔‘

اس بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ چین بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ افغانستان تک پہنچانے کے لیے پُرعزم ہے۔

افغانستان اور چین کے وزارئے خارجہ کے پاکستان کے دورے کے حوالے سے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس وقت چین کی خواہش ہے کہ سی پیک یا ون بیلٹ ون روڈ کے لیے اس خطے میں حالات سازگار کیے جائیں اور اس میں افغانستان کو شامل کیا جائے۔

اس کے علاوہ پاکستان اور افغانستان میں امن کے قیام اور معاشی سرگرمیوں سے عوامی سطح پر خوشحالی ہو گی جس سے تجارت کو بھی فروغ حاصل ہوگا اور اس مقصد کے لیے بات چیت کے عمل کو آگے بڑھایا گیا ہے۔

اسلام آباد میں ڈان ٹی وی کے بیوروچیف افتخار شیرازی نے بی بی سی کو بتایا کہ حالیہ دورہ بظاہر چین کی طرف سے کیا گیا ہے کیونکہ اس وقت پوری دنیا میں تبدیلی آ رہی ہیں جہاں سعودی عرب اور ایران کے درمیان مذاکرات اہمیت کے حامل ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ انھیں ملنے والی اطلاعات کے مطابق پاکستان نے افغان رہنما سے کہا ہے کہ افغانستان کی سرزمین شدت پسندوں کو استعمال کرنے کی اجازت نہ دی جائے جس پر افغانستان کی جانب سے سفارتی سطح پر تو یقین دہانیاں کرائی گئی ہیں اور امید یہ کی جا رہی ہے کہ چین بھی اس بارے میں دباؤ ضرور بڑھائے گا۔

افغانستان کیا چاہتا ہے؟

bbc

طالبان کے آنے کے بعد سے افغانستان پر عالمی سطح پر پابندیاں عائد ہیں اور اس وقت پاکستان اور چین کی یہ کوشش ہے کہ افغانستان کو سفارتی سطح پر عالمی تنہائی سے نکالا جائے۔ اس کے لیے افغانستان سے کہا گیا ہے کہ وہ خواتین کو تعلیم کی اجازت دیں تاکہ عالمی سطح پر افغانستان کے لیے کوششیں تیز کی جائیں۔

اس وقت افغانستان میں خواتین کی تعلیم پر پابندی عائد ہے جس وجہ سے بین الاقوامی سطح پر افغانستان پر پابندیاں عائد ہیں۔ افغانستان حکومت اسے اپنا اندرونی مسئلہ قرار دیتی ہے لیکن افغان وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ خواتین کی تعلیم کے حوالے سے کام ہو رہا ہے صرف کچھ وقت کے لیے سلسلہ معطل کیا گیا ہے۔

افتخار شیرازی نے بتایا کہ پاکستان چین اور افغانستان ایک ایسے سمجھوتے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ افغانستان کو جو فنڈز عالمی سطح پر فریز کیے گئے ہیں ان سے پابندی ہٹائی جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ عالمی پابندیوں کی وجہ افغانستان میں حالات خراب ہو رہے ہیں۔

افغانستان میں اگست 2021 میں امریکی افواج کے جانے کے بعد طالبان نے اقتدار سنبھال لیا تھا اور صدر اشرف غنی افغانستان سے چلے گئے تھے۔ طالبان نے افغانستان میں لگ بھگ 20 سال امریکہ کے خلاف مسلح جدو جہد کی ہے۔

اقتدار میں آنے کے بعد طالبان پر عالمی سطح پر پابندیاں عائد کر دی گئی تھیں اور افغانستان کے بینکوں میں فنڈز فریز کر دیے گئے تھے۔

افغانستان میں موجودہ انسانی صورتحال پر عالمی امدادی اداروں کا کہنا ہے کہ اس وقت افغانستان کو شدید حالات کا سامنا ہے جہاں ملک کی 30 ملین کی آباد بھوک کا شکار ہے جبکہ 30 لاکھ بچے غذائی کمی کا سامنے کر رہے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر اس طرف توجہ نہ دی گئی تو ملک میں شدید بحران پیدا ہو سکتا ہے۔

https://twitter.com/BBhuttoZardari/status/1655192014831452162?s=20

’طالبان رہنما کو ریاست کی سطح پر پروٹوکول دینا نامناسب‘

عوامی نیشنل پارٹی اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی افغانستان اور پاکستان میں بھی طالبان کی سرگرمیوں کے مخالف رہے ہیں اور افغانستان میں افغان طالبان کے برسر اقتدار میں آنے کے بعد بھی دونوں جماعتیں طالبان کے اقتدار میں آنے کے سخت مخالف رہے ہیں۔

ان دونوں جماعتوں نے اقتدار میں آنے کے بعد ان کی پالیسیوں پر بھی تنقید کی تھی۔ گذشتہ روز افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی سے پختون سیاسی اور دینی رہنماؤں نے ملاقات کی ہے۔ انھوں نے مولانا فضل الرحمان، سراج الحق کے ساتھ ساتھ ایمل ولی خان اور محمود خان اچکزئی نے بھی ملاقات کی ہے۔

حسن خان کا کہنا تھا کہ بظاہر امیر خان متقی کا دورہ پبلک ریلیشن کے لیے بھی تھا اور پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ صرف مذہبی جماعتیں ہی نہیں بلکہ پشتون قوم پرست جماعتوں کے قائدین سے بھی ملاقاتیں کی ہیں۔

انھوں نے کہا کہ اے این پی کا واضح موقف تھا کہ طالبان نے بندوق کے زور پر اقتدار پر قبضہ کیا ہے اور اب وہی جماعت ان سے مذاکرات کے لیے تیار ہو گئی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

افغانستان میں انڈیا تذبذب کا شکار، طالبان سے بات کرے یا نہ کرے؟

انڈیا اور پاکستان افغان مسئلے پر ’ادھر ہم، اُدھر تم‘ کی پالیسی کیوں اپنائے ہوئے ہیں؟

افغانستان سے نکلنے والی میڈیکل کی طالبات کہاں جائیں؟ پاکستان میں بھی ’داخلے‘ پر پابندی

سوشل میڈیا پر بھی اس بارے میں بحث جاری ہے۔ اس حوالے سے ایمل ولی خان سے رابطے کی کوشش کی گئی لیکن ان کی جانب سے بارہا پیغامات بھیجے جانے کے باوجود کوئی جواب نہیں آیا۔

حسن خان نے کہا کہ صرف قوم پرست جماعتیں ہی نہیں بلکہ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین اور وزیر خارجہ بلاول بھٹو کی امیر خان متقی کے ساتھ لان میں چہل قدمی کی ویڈیو بھی جاری کی گئی جس سے ظاہر ہوتا ہے مستقبل قریب میں کچھ تبدیلیں مزید بھی نظر آ سکتی ہیں۔

@JIPOfficial

@JIPOfficial

اس بارے میں نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ کے سربراہ اور رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ کا کہنا تھا کہ وہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کا سوچ بھی نہیں سکتے۔

انھوں نے کہا کہ مختلف پروگراموں کے حوالے سے ان کو دعوت دی گئی تھی لیکن انھوں نے انکار کر دیا تھا۔

محسن داوڑ کا کہنا تھا کہ طالبان رہنما کو ریاست کی سطح پر اس طرح پروٹوکول دینا بھی مناسب نہیں تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ ایک گروپ نے اسلحہ کے زور سے قبضہ کیا ہو، مقامی لوگوں کے انسانی حقوق سلب کر دیے گئے ہوں، انھیں اظہار خیال کی آزادی نہ ہو، ملک پر ناجائز قبضہ کیا ہو تو ایسے میں ان سے بات کرنا انھیں تسلیم کرنے کے برابر ہو گا اور یہ ان لوگوں کے زخموں پر نمک پاشی کرنا ہوگا جو افعانستان میں ایسے حالات میں رہ رہے ہیں۔

مبصرین کے مطابق امیر خان متقی کا دورہ چند وجوہات کی بنا پر اہمیت کا حامل ہے اور اس میں چین کی شرکت سے اس کے مثبت نتائج نکل سکتے ہیں مزید یہ کہ تمام سیاسی قائدین سے ملاقاتیں اعتماد سازی کی کوششیں نظر آتی ہیں۔

عامر رانا کا کہنا ہے کہ چین بڑے پیمانے پر سکیورٹی کی صورتحال کے حوالے سے شامل ہو گا لیکن چین شاید ٹی ٹی پی کے حوالے سے کوئی مداخلت نہیں کرے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32498 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments