وزیرستان و پشتون خوا میں تعلیمی مشکلات اور میرا تعلیمی سفر


آگ میں سفر اختتام کو ہے :

فرض کر ایکس فاٹا یا پشتون خواہ سے لڑکا ہے۔ تعلیمی سلسلہ 2004ء میں شروع جبکہ 2012ء میں 8th کلاس میں۔ تو 2008ء تک فیصلہ کرنے سے قاصر۔ فیصلے کا اختیار والدین، سکول انتظامیہ، سماج کے پاس ہو۔ سماج سے مطلب اپنے اس پاس لوگ، موبائل و ٹی وی سکرین، ریڈیو ٹیپ ریکارڈ سپیکر و قلم کتاب کاپی پینسل ہے۔

دنیا 2000ء کے بعد تیزی سے digitalize ہو گئی۔ یہاں پاکستان 2010ء کے بعد تیزی سے ڈیجیٹلائز ہوا۔ زندگی کے مستقبل کے فیصلہ میں ڈیجیٹلائز دنیا کا کردار رہتا ہے۔ یہ کردار اور بھی بڑھتا جا رہا ہے۔ پشتون خواہ کا یہی لڑکا 2014ء کے اواخر میں اپنی پروفیشنل زندگی کا فیصلہ دو سال پہلے کرچکا ہوتا ہے۔ ان کے فیصلے میں کس کس کا کردار رہا اس پر بات کرتے ہیں۔

لڑکے نے 12 سالہ زندگی میں، شعوری و لاشعور میں کیا کچھ دیکھا و سیکھا؟ ذرا اس پر تو سوچیں۔ ایک لڑکا جس کو خود کا پتہ نہ ہو۔ وہ مستقبل کا کیا فیصلہ کرے گا؟

انکے والدین ان کے پروفیشنل و مستقبل فیصلے پر حاوی رہتا ہے۔ اگر والدین ان پڑھ ہو تو ان پڑھ والدین کیا فیصلہ کریں گے؟ اگر پڑھا لکھا ہو وہ اور بات ہے۔ پشتون خواہ کے پولرائز سماج میں تعلیم یافتہ والدین کی جھکاؤ 2012ء تک مذہب، مذہبی جماعتوں و گروہوں کی طرف تھا تو لامحالہ ان کے بچوں کا جھکاؤ مذہب و مذہبی جماعتوں، تشدد و شدت پسند مذہبی جماعت گروہ و فرقے کی طرف ہو گا اور وہ مرنے و مارنے والے طرز فکر پر مبنی نظریہ پر عمل پیرا ہو گا۔

پشتون خواہ میں سکرین کا کردار رہ چکا ہے۔ 2012 ء کے بعد ان کے کردار میں اضافہ ہو چکا ہے۔ خود سوچیں کسی پنجابی سے ملتا ہوں۔ پوچھنے پر کہ کہاں سے؟ جواب وزیرستان۔ اگلا جملہ دہشت گردی۔ کلاشنکوف، بم دھماکہ، خون، تشدد، ظلم، نا انصافی، بربریت، و خشت، استحصال اور پندرہویں صدی والا سماج والا ہوتا ہے۔ ذرا تو بتائے پنجابی نے بغیر وزیرستان دیکھے منفی کمنٹ کیوں کیا؟ ان کو زمینی حقائق سے ماورا یہ سب کس نے بتایا؟

وزیرستان کے زمینی حقائق اور پنجاب کی زبان میں حقیقت و تضاد کتنا ہے؟ یہ تو ریاستی بیانیے کے ثمرات ہیں۔ خود فیصلے کریں کہ اسکرین پشتون خواہ کے طالب علم کے مستقبل کے فیصلے پر کیا اثر ہوتے ہیں اب خود فیصلہ کر سکتے ہیں۔ طالب علموں کی پروفیشنل کریئر پر سپیکر و لاؤڈ سپیکر کا اپنا ایک اثر تھا اور ہے۔ ہمارے ابائی علاقہ وانا وزیرستان میں طالبنائزشن جیسے پراجیکٹ میں مخصوص ترانے ملتے جو برین واشنگ کے لئے آلے کے طور پر سپیکر و لاؤڈ سپیکر پر سنائے جاتے۔ آج بھی منبر و محراب پر شدت پسند مولوی سپیکر و لاؤڈ سپیکر پر من پسند اسلام کی ترویج کرتے ہیں۔

پشتون خواہ کا فرض شدہ طالب علم کا 2012ء کے بعد پروفیشنل کریئر شروع ہوتا ہے جو چار یا پانچ سال کا ہوتا ہے۔ یہ انسانی زندگی کا سب سے اینرجیٹک حصہ ہوتا ہے۔ اسی طرح سن 18ء کے بعد عملی زندگی۔

اب فرض شدہ طالب علم کی کریئر کو اچھی طرح shape دینے میں سکرین پر بات ہوگی۔ موبائل اور ٹی وی سکرین، موبائل و ٹیپ ریکارڈ اور ایم پی تھری کی سپیکر پر، مساجد کے لاؤڈ سپیکر پر یہ الفاظ اور جملے جیسے طالبان۔ مجاہدین۔ لشکر طیبہ۔ جیش محمد۔ لشکر اسلام۔ انصار السلام۔ سپہ صحابہ۔ شیعہ سنی فسادات۔ تحریک طالبان۔ تحریک طالبان افغانستان۔ تحریک طالبان پاکستان۔ شریعت محمدی۔ افغان جہاد۔ پاکستان جہاد۔ فوج۔ کشمیر۔ فلسطین۔برما۔ شہید۔ غازی۔ کلاشنکوف۔ ایٹم۔ استعمار۔ آپریشن۔ آئی ڈی پیز۔ دھماکہ۔ سرچ آپریشن۔ ڈرون۔ بمبار۔ لوگوں کی چیخیں۔ جنت و جہنم۔ حور۔ مولوی۔ پی ٹی آئی کے دھرنے۔ اے پی ایس میں بچوں کا اجتماعی قتل۔ باچاخان یونیورسٹی میں اجتماعی قتل۔ ایگریکلچرل انسٹیٹیوٹ کے ہاسٹل میں اجتماعی قتل۔ کوئٹہ وکلا کا اجتماعی قتل۔ مشال خان کی شہادت۔ ٹارگٹ کلنگ۔ بھتہ خوری۔ دھرنا۔ سیاسی انتقام۔ سیاسی گالیاں۔ وغیرہ 2000ء سے 2018ء کے درمیان سننے اور دیکھنے کو ملیں۔

ایسے میں طالب علم کا اپنا پروفیشنل کرییر کو برقرار رکھنا یقیناً داد کی بات ہے۔ اور ایسے ہی حالات کے ساتھ میرے اور میرے جیسے ہزاروں و لاکھوں پشتون بچوں کی تعلیم سلسلہ تھا اور ہے جو اختتام کو ہونے جا رہا ہے۔ ایسے حالات کے مارے انسان کے لئے زندگی میں خوشی کی کوئی گنجائش نہیں اور خوشی کے جو لمحات تھے وہ کب کے گزر چکے ہیں۔ اب انتظار کے ساتھ زندگی کی ضروریات کی طرف بڑھنا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments