عمران خان کو ضمانت کیسے ملی؟


عمران خان کو ضمانت ملنے کے بعد ملک میں جاری افراتفری کچھ کم اور زندگی کچھ دنوں کے لیے تھمتی نظر آ رہی ہے۔ یہ پیغام سب کو مل چکا ہے کہ کسی مائی کے لعل میں اتنی جرات نہیں کہ وہ عمران خان پر ہاتھ ڈال سکے ورنہ ملک میں افراتفری پھیلانے اور عوام کا جینا حرام کرنے میں بس چند منٹ ہی لگتے ہیں۔ پی ڈی ایم کے سپریم کورٹ کے باہر دھرنا دینے کے اعلان سے بھی بڑے قاضی صاحب کی صحت پر کوئی اثر پڑتا دکھائی نہیں دے رہا۔

کئی روز تک شہر اقتدار کے ایوانوں میں یہ خبر گونجتی رہی کہ بڑے قاضی صاحب سے راولپنڈی اور آبپارہ کے بڑوں کی ملاقات کچھ رنگ لائے گی اور الیکشن کے انعقاد سمیت کئی فیصلوں میں اپنی ضد چھوڑ کر کچھ لچک دکھائی جائے گی مگر یہ ہو نہ سکا۔ بڑے قاضی صاحب خان صاحب کی ہر خواہش کو پائے تکمیل تک پہنچانے کا وچن لے چکے ہیں اور ویسے بھی بڑے قاضی صاحب نے کون سا ملک میں رہ کر ڈیم بنانا ہے یا پھر ووٹ لینے کے لیے عوام کے پاس جانا ہے کہ ان کو آئین، قانون، ملک اور عوام کی فکر ہو۔

چند لوگ عمران خان کو قوم اور ملک سے بھی بالاتر دیکھ رہے ہیں کہ ملک اور قوم جل کر تباہ بھی ہو جائے مگر عمران خان پر کوئی آنچ نہ آنے پائے اور وہ دوبارہ وزیر اعظم بن جائے۔ پاکستان تحریک انصاف کے بیانیے اور جلاؤ گھیراؤ والی سیاست نے مکتی باہنی اور آر ایس ایس تنظیموں کی یادیں تازہ کرا دیں کہ اب اگر دوبارہ عمران خان کو جیل بھیجا گیا تو پہلی دفعہ تو ہم نے مریض اتار کے ایمبولینسز کو جلایا اگلی باری مریض بھی جل سکتے ہیں۔

ملک میں پھیلی افراتفری، جلاؤ اور گھیراؤ میں پاکستان تحریک انصاف نے کور کمانڈر کے گھر، ریڈیو پاکستان پشاور کے دفتر، شہدا کی یادگاروں سمیت کئی سرکاری اور غیر سرکاری املاک کو شدید نقصان پہنچایا۔ مگر حکومت کو یہ بھی موقع غنیمت سمجھنا چاہیے کہ کہیں ان بلوائیوں نے جی ایچ کیو سمیت ملک بھر میں سرکاری عمارتوں پر اپنے سیاسی پرچم لہرا کر عمران خان کو رہا نہیں کروا لیا۔ اس لیے بادی النظر میں عافیت اسی میں تھی کہ کورٹ سے عمران خان کو ضمانت مل جائے ورنہ راستے تو اور بھی تھے، اس لیے بڑے قاضی صاحب خان صاحب کو خوش آمدید کہہ کر عرض کر رہے تھے کہ آپ اس انتشار کی مذمت کریں اور ہمیں پتہ ہے کہ آپ کو یہ سیاسی چور اچکے پسند نہیں مگر ان کے ساتھ مذاکرات کریں۔

اور کہیں لوگوں کو یہ تاثر نہ ملے کہ قاضی صاحب کی پسندیدہ شخصیت عمران خان ہیں، اس لیے عمران خان صاحب کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں انتظار کی زحمت بھی اٹھوانی پڑی اور خان صاحب کو ویڈیو پیغام جاری کرنا پڑا کہ توازن کو برقرار رکھا جائے۔ لڑائی پنجاب کی ہے مگر نقصان پورے ملک اور عوام کا ہو رہا ہے مہنگائی آسمانوں کو چھو رہی ہی لوگوں کو کھانے کے لالے پڑ چکے ہیں۔ ان بڑوں کی سیاسی لڑائی میں بھلا غریب عوام کا کیا لینا دینا۔

ایک طرف عمران خان کو جیل بھیجنے سے ملک بند ہو جاتا ہے تو دوسری طرف سے وزیر اعظم شہباز شریف کا قوم کے سامنے رونا رہ گیا ہے کہ کس طرح ان کے ہاتھ باندھ کر ان کو حکومت دی گئی ہے۔ عوام کا کہنا ہے کہ پھر کیوں پی ڈی ایم اس حکومت کو چھوڑ نہیں دیتی کیوں پی ڈی ایم اور اتحادی جماعتیں اس اقتدار سے چپکی ہوئی ہیں؟ وجہ کیا ہے؟ کیا بڑے قاضی صاحب کی رخصتی کے بعد پی ڈی ایم حکومت پر لٹکتی تلوار ہٹ جائے گی یا فیض کی باقیات چلتی رہیں گی؟

پی ڈی ایم اس غور و فکر میں ہے کہ بڑے قاضی صاحب کا تو ہم کچھ بگاڑ نہیں سکتے کسی طرح بس توہین عدالت کے نوٹس سے کچھ بچت ہو جائے جو فی الحال ہوتی نظر نہیں آ رہی۔ پاکستان تحریک انصاف کی ملک میں افراتفری، انتشار اور جلاؤ گھیراؤ کی سیاست نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے جن پر غور و فکر کرنا وقت کی اشد ضرورت ہے۔ سندھ، بلوچستان اور خیبرپختونخوا کا ڈومیسائل رکھنے والے سیاسی لیڈران کیا عمران خان کے پارٹی کی طرح ملک میں انتشار، افراتفری اور جلاؤ گھیراؤ کی سیاست کرنے کی جسارت کر سکتے ہیں؟

کیونکہ سندھ اور بلوچستان کے عام لوگ یہ جانتے ہیں کہ اگر کوئی اور عمران خان کی جماعت کی طرح جناح ہاؤس اور جی ایچ کیو پر حملہ کرنے کا سوچے کا بھی تو پھر ان کی میتیں اٹھانے والے بھی کوئی نہ ہو گا؟ کیا اسٹیبلشمنٹ عمران کے آگے مجبور ہے یا پھر ہائبرڈ اور ففتھ جنریشن وار سمجھنے میں قاصر ہیں؟ کیا عمران خان الطاف حسین سے بھی مضبوط بن کر ابھرے ہیں یا پھر عمران خان کا مستقبل بھی تاریک ہونے جا رہا ہے؟ کیا عمران خان کو ضمانت اس ڈر کی وجہ سے دی گئی کہ بڑے قاضی کو پتہ تھا کہ اگر ان کی ضمانت میں کوئی کمی کوتاہی برتی گئی تو ملک کے حالات سری لنکا سے بھی بدتر ہو سکتے ہیں اس لیے ضمانت دے کر کر ملک و قوم کو بچا لیا گیا؟ کیا اسٹیبلشمنٹ کی سپورٹ ابھی تک عمران کے ساتھ ہے یا پھر واقعی اسٹیبلشمنٹ سیاست کو خیر باد کہہ کر بیرکوں میں چلی گئی ہے۔ یا پھر دال میں کچھ کالا ہے؟ یا پھر پوری دال ہی کالی ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments