انتخابات واحد حل


اسمبلی قومی ہو یا صوبائی اس کا سب سے اہم آئینی کام ہی آئین سازی ہے

اور عوام اپنے نمائندے منتخب کر کے قومی یا صوبائی اسمبلی میں اسی لیے بھجواتے ہیں کہ ان کی امنگوں اور ضروریات کے مطابق آئین سازی کی جائے۔ اسی لیے جمہوری نظام حکومت میں اسمبلیاں مقننہ کہلاتی ہیں یعنی آئین ساز ادارہ۔ آئین سازی چونکہ صرف مقننہ کا حق ہے اس لیے کوئی بھی ادارہ اسے اس آئینی کردار سے نہیں روک سکتا اور اگر کوئی ادارہ بشمول سپریم کورٹ اسے اس آئینی کردار سے روکتا ہے تو یہ عوام کے بنیادی حق پر ڈاکا تصور ہو گا اور اقدام غیر آئینی ہو گا۔

آپ قومی و صوبائی اسمبلیوں کے اختیارات کا اندازہ اس آئینی شق سے لگا لیں کہ اگر صدر یا گورنر قومی یا صوبائی اسمبلی کا پاس کردہ کوئی بل نظرثانی کے لیے بھجوائے اور قومی یا صوبائی اسمبلی اس بل کو دوبارہ بغیر کسی ترمیم کے پاس کر کے صدر یا گورنر کو بھجوا دے تو صدر یا گورنر کے دستخطوں کے بغیر بھی وہ آئین بن جاتا ہے، یعنی ملک اور صوبے کا سب سے بڑا آئینی عہدہ بھی قومی اور صوبائی اسمبلی کے پاس کردہ قانون کو ایک بار کے علاوہ مسترد کرنے کا حق نہیں رکھتا ایسے میں اگر سپریم کورٹ یا کوئی دوسرا ادارہ آئین سازی کے اس حق کو تسلیم نہ کرے تو پھر یہ توہین پارلیمنٹ ہوگی اور پارلیمنٹ اپنا استحقاق مجروح ہونے پر آئینی کردار ادا کر سکتی ہے، کیونکہ یاد رکھیں جمہوری طرز حکومت میں حکمرانی اور آئین سازی کا اصل حق عوام کو ہوتا ہے اور عوام یہ حق اپنے منتخب کردہ نمائندوں کے ذریعے استعمال کرتی ہے۔

عدلیہ آئین کی تشریح کرنے اور آئین کے مطابق انصاف کی فراہمی کی ذمہ دار ہے۔ آئین کی تشریح کے لیے بھی وہ پابند ہے کہ اگر اسے کہیں ابہام ہے تو وہ پارلیمنٹ کے ان ممبران سے رائے یا مدد لے گی جو مذکورہ بل کو پارلیمنٹ سے پاس کرواتے وقت پارلیمنٹ میں موجود تھے۔ اگر خدانخواستہ ایسا کوئی ممبر حیات نہیں ہے تو پھر پارلیمنٹ کی کارروائی کے منٹس کو دیکھا جائے گا، بل پر بحث کو پڑھا جائے گا، بحث کرنے والے ممبران کے نکتہ نظر کو سمجھا جائے گا اور پھر آئین کی تشریح کی جائے گی۔

سپریم کورٹ کو آئین دوبارہ لکھنے کا کوئی اختیار حاصل نہیں اور نہ وہ آئین کی من پسند تشریح کر سکتی ہے، اگر وہ ایسا کرتی ہے تو نہ صرف پارلیمنٹ کا استحقاق مجروح ہوتا ہے بلکہ عوام کا حق حکمرانی بھی متاثر ہوتا ہے۔ اس اہم آئینی نکتے کی تشریح کے بعد ہم آتے ہیں پاکستان کے موجودہ سیاسی حالات پر ۔ اس وقت وفاق میں قائم حکومت سے آپ کو جتنا بھی اختلاف ہو مگر آپ اسے غیر آئینی قرار نہیں دے سکتے کیونکہ اس حکومت میں شامل ممبران قومی اسمبلی 2018 کے انتخابات میں عوام نے منتخب کیے تھے۔

چونکہ ان انتخابات میں کسی بھی سیاسی پارٹی کو واضح اکثریت نہیں ملی تھی اور پی ٹی آئی آزاد امیدواروں کو پارٹی میں شامل کرنے کے باوجود حکومت بنانے کے لیے مطلوبہ اکثریت سے محروم تھی تو اس نے دیگر پارٹیوں کے ساتھ مل کر حکومت بنائی۔ ساڑھے تین سال کی حکومت کے بعد دیگر پارٹیاں پی ٹی آئی سے نالاں ہو گئیں اور انہوں نے اپوزیشن کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔ ایک آئینی طریقے سے تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی جو منظور ہوئی اور حکومت بدل گئی لیکن بدقسمتی سے سپریم کورٹ نے اس کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرنا شروع کر دیں۔

آئینی ترامیم جو خالصتاً پارلیمنٹ کا حق ہے اسے وہ حق استعمال نہیں کرنے دیا جا رہا اور ہر آئینی ترمیم کو مسترد کر دیا جاتا ہے۔ سول سروس کے افسران کے تبادلے جو خالصتاً منتخب وزیراعظم کا اختیار ہے اس پر پابندی لگا کر وزیراعظم کو مفلوج کر دیا گیا۔ وفاق کی پولیس سروس کا ایک افسر جس نے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کی طرف سے آنے والے تبادلے کے حکم کو مسترد کر دیا کو عدالت نے تحفظ دے دیا حالانکہ اگر یہ چلن عام ہو گیا اور سرکاری افسران اپنی من مانیاں کرنے لگے اور من پسند پوسٹوں پر تعینات ہونے لگے تو ملک کا مجموعی نظام نہ صرف متاثر ہو گا بلکہ پورے کا پورا نظام ہی بیٹھ جائے گا اور انارکی پھیلے گی اس لیے سپریم کورٹ کے موجودہ اقدامات کم از کم ملک کے مفاد میں تو نہیں ہو سکتے۔

اب آتے ہیں حل کی طرف اس صورت حال سے نکلنے کا واحد راستہ ملک میں ایک ساتھ عام انتخابات ہیں لیکن یہ عام انتخابات آئینی تقاضوں کے مطابق ہونے چاہیے۔ سندھ، بلوچستان اور قومی اسمبلی کسی بھی صورت اپنی مقررہ مدت سے پہلے تحلیل نہ کی جائے کیونکہ انتخابات پر اربوں روپے کے اخراجات ہوتے ہیں اور اسمبلیوں کی مدت پوری کی جائے۔ پنجاب اور کے پی کے اسمبلی کی تحلیل اگرچہ آئینی تھی مگر غیر ضروری تھی اور محض نظام کو متاثر کرنے کے لیے یہ قدم اٹھایا گیا۔

اب چونکہ پی ٹی آئی خود دونوں اسمبلیوں کی بحالی کے لیے سپریم کورٹ پہنچ چکی ہے تو حکومتی وکلاء کو اس کی مخالفت نہیں کرنی چاہیے اور سپریم کورٹ یہ اسمبلیاں بحال کر دے۔ دونوں اسمبلیاں اپنی مدت پوری کریں اور ایک ساتھ ملک میں صاف اور شفاف انتخابات ہوں۔ آنے والی پارلیمنٹ ایسی ترامیم کرے جس سے سپریم کورٹ کی آئینی حدود طے ہوں اور پاکستان میں جہاں ہر ادارہ پنا کام چھوڑ کر دوسرے کے کام میں مداخلت کرنے لگتا ہے وہ اپنے کام پر توجہ دے اور ملک بھی آگے کی طرف اپنے سفر کا آغاز کرے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments