ہم سب قیدی ہیں


ڈراما سیریل پری زاد میں ہاشم ندیم نے کیا خوب لکھا ہے کہ ”سب سے بڑی جیل باہر کی دنیا ہے جب آپ کی جیب میں پیسے ہوں تو جیل بھی کسی آرام دہ جگہ سے کم نہیں لگتی“ ۔ میں کس قیدی کی بات کرنے جا رہا ہوں یہ مجھے بھی پتا نہیں، اس قیدی کی جیب میں پیسے ہیں یا جیب خالی ہے اس کا بھی مجھے کوئی علم نہیں۔ ہم سب کا ذہن اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے کھڑا ہوا، سویا ہوا اور بیٹھا ہوا ہر آدمی مجرم ہے، یہ بھی سوچتے ہیں کہ جیل کی چھوٹی سی ایریا غلامی اور رسوائی کا آنگن ہے باقی باہر کی دنیا آزاد اور معصوم ہے۔

بات مجرموں کی نہیں بات معصوموں کی ہے، بات قید کی نہیں بات رہائی کی ہے، بات غلامی کی نہیں بات آزادی کی ہے، بات ہوگی بات تو ضرور ہوگی۔ جیل صرف تباہی، سختی، رسوائی یا بربادی کا آنگن ہی نہیں بلکہ پتھروں یا کنکریٹ کی یہ تنگ عمارت کسی حد تک تربیت کی درسگاہ بھی ہے۔ اس عمارت کے ساتھ درسگاہ کا لفظ کچھ غیر متوازن ضرور لگ رہا ہو گا لیکن یہ اک سچ ہے، دنیا کی تاریخ کو جھانک کر دیکھو جو کچھ جیل کی تنہائی سکھاتی ہے وہ زمانے کے مصروف عمل ادارے بھی نہیں سکھاتے۔

آپ کو وقت ملے تو افریقہ کے نیلسن منڈیلا سے سندھ کے رسول بخش پلیجو اور شیخ ایاز کی جیل ڈائریوں پر اک نگاہ ضرور ڈالنا۔ یہاں یہ کیا خوب المیہ ہے کہ لفظ ”قانون“ جیل بھرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے لیکن یہ ہی لفظ اگر چاہے تو جیل کو سماج کے آنگن سے ہمیشہ کے لیہ ختم بھی کر سکتا ہے۔ لیکن ایسا ہرگز نہیں ہو گا مسئلہ سارا جیب کا ہے، جیب کا فلسفہ آئین کے تقاضے بھی مسمار کرنے میں دیر نہیں کرتا۔ جس کی کتنی ہی زندہ مثالیں آپ کو اس سماج کی ہر سڑک پر ملی جائیں گی۔

کیا یہ سچ ہے کہ جیل سے باہر کی دنیا اک آزاد چمن ہے؟ ہاں لیکن ہر کسی معاشرے کے لیے نہیں کچھ ایسے بھی معاشرے ہیں جو جیل سے بھی زیادہ بدترین ہوتے ہیں۔ جن میں قیدیوں پر جو ظلم ہوتا ہے وہ ظلم قیدی بھی دیکھ نہیں سکتے لیکن جب وہ وقت اور حالات کے سائے میں اپنے دماغ کی رگوں پر زور دیتے ہیں تو وہ اس بدترین جبر کو ضرور محسوس کرتے ہوں گے۔ جس سماج میں باہر کی دنیا فکر، سوچ، علم اور ذہنی آزادی سے اوجھل ہو اور اسی سماج کی جیلوں میں قیدی کتابیں لکھ کر شائع کروائیں تو کیا اس سماج میں جیل کے تصور کو رسوائی اور خواری کا مقام اور باہر کی دنیا کو اک آزاد گلستان کہہ سکتے ہیں؟

جیل کی دنیا میں آپ کو مکمل کتاب ملیں گے لیکن باہر کی دنیا میں آپ کو ادھورے اور نامکمل نظم بھی بہت کم ملیں گے۔ درحقیقت یہ دنیا بھی اک جیل ہے ہم سب قیدی ہیں ہمیں آئین فطرت پر سفر کرتے اس مقام پر پہنچنا ہے جہاں بس تاریکی ہی تاریکی ہے۔ ہم آئین فطرت سے دور ہیں اس لیہ فرسٹریشن کا مرض ہماری رگوں میں دوڑ رہا ہے۔ سائنس فطرت ہے جس سے مکالمہ کرتے کرتے ہم نے بہت ترقی کی ہے۔ کئی مقامات پر سائنس اور فطرت کی جھڑپ کو جنم دیتے ہوئے بھی ہم نے بہت ترقی کی ہے، لیکن ذات کے جبر کو کراس کر کے حقیقی آزاد زندگی کے در پر دستخط دینے کے لیہ فطرت کی باہوں میں سونا بھی پڑتا ہے، وہ مقام انسانیت سے لے کر چمن کے اک اک پودے اور کائنات کی ہر چیز سے عشق کرنے سے ہی حاصل کیا جا سکتا ہے۔

میں جا رہا ہوں اس قید کی طرف جہاں رقص ہے تو ماتم بھی ہے، جہاں اڑان ہے تو بار بار گرنا بھی ہے، جہاں انٹرنیشنل کلچر ہے تو رسموں کا راج بھی ہے، جہاں آزادی ہے تو غلامی بھی ہے، جہاں محبتیں ہیں تو نفرتیں بھی ہیں، جہاں قہقہے ہیں تو چیخیں بھی ہیں، جہاں خوشیاں ہیں تو غم بھی ہیں، جہاں سکون ہے تو درد بھی ہیں، جہاں ہوائیں ہیں تو دھوپ بھی ہے، جہاں قصیدے ہیں تو نوحے بھی ہیں بس صرف اور صرف یکسانیت، مساوات، انصاف اور استحکام نہیں ہے۔

یہ زندان وہ زندان ہے جس میں ہم رہ رہے ہیں یہ قید سماجی جیل ہے جس کی سلاخوں کے پیچھے ہم نہیں ہیں لیکن یہ سلاخیں ہمارے وجود میں گھسیٹی ہوئی ہیں۔ کیا غضب کا قید ہے کہ نفرتوں کے لیے سارے دروازے کھلے ہوئے ہیں لیکن محبتوں کے سارے راستے بند پڑے ہیں۔ اک دن وقت نکال کر کسی قبائلی لڑکی سے ملاقات کرو اس کا موقف یہ ہو گا کہ انہیں یہ اجازت ہے کہ وہ ہاتھ میں ہتھیار اٹھا کر دشمنوں کے درجنوں بندے ہلاک بھلے کر دے لیکن ان کے عشق کا دامن اگر دشمنوں کے آنگن تک جا پہنچے تو ان کو اپنے ہی مار دیتے ہیں۔

وہ تھوڑا ہنس کر اور بھی ضرور بولے گی کہ دشمنوں کو چھوڑو لیکن ہم اتنے بدنصیب ہیں کہ ہمیں خواہشوں اور حسرتوں کا پتا تک نہیں، ہم محبت اور عشق کے فلسفے کو جانتے تک نہیں ہم سے جانوروں جیسا سلوک کیا جاتا ہے۔ آپ ہتھیاروں کے سائے میں زندگی بسر کرنے والی ان اداس عورتوں کی دردناک کہانیاں سنو گے تو اشک آنکھوں کے ساحل پر نمودار ہو جائیں گے۔ یہ نازک وجود کیسے تشدد کے سائے تلے جیتے ہیں۔ تاریخ کے اس بدترین زندان میں جس جنس کو بڑی اذیت کا سامنا ہے وہ عورت ہے۔ قبائلی کشمکش میں اغوا، ریپ اور زبردستی شادیوں سے لے کر دیگر جنگوں میں مال غنیمت کی طرح تقسیم تک اس کو معاشرے کی ہر سڑک پر رسوائی ہی نصیب ہے۔

آپ یہ نہ سمجھیں کہ عورت جتنا برداشت کر رہی تو اس کا مطلب کہ مرد بالکل آزاد ہے، نہیں ایسا نہیں اس معاشرے کے آئینے کے بھی دو رخ ہیں۔ عورت کو اس طرح رسوا کرنے والا مرد بھی غلام ہی ہوتا ہے۔ یہ سماج انسان کا دشمن ہے کہیں کہیں مرد بھی اذیتوں کا سامنا کر رہے ہیں لیکن زیادہ تر اس قید میں عورت ہی تنگ ہے۔ ہم سب قیدی ہیں اک ایسی دنیا کے جہاں ہر چیز ہمیں میسر ہے سوائے تخیل کی آزادی کے، محبتوں کی گنگناہٹ کے، افکار کی موسیقی کے، حق بات کی توانائی کے، گفتار کی تازگی کے، انصاف کی آب کے اور حقیقت کی فضاؤں کے ہمیں ہر چیز میسر ہے۔

ہم سب قیدی ہیں اک ایسے دور کے جہاں ہر موڑ پر فریب اور جھوٹ کا راج ہے۔ ہم سب قیدی ہیں اک ایسے زندان کے جس کی سرحدیں نہیں، جس میں جسمانی تشدد کم لیکن منفی نظریات سے آزاد خیالات اور ذہنوں کو مسمار کرنے کی وبا عام ہے۔

ہم سب قیدی ہیں، ہم سب قیدی ہیں، اے راہ حق کے راہگیر، اے ذہنی آزادی کے سبز درخت کے سرخ پتے آؤ! آؤ اس زندان کو مسمار کریں جس نے ہمیں تاریخ کا بدترین غلام کر رکھا ہے، آؤ! کسی نئی سحر کا آغاز کریں جس میں خیالات، محبت اور سوچنے کی آزادی میسر ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments