کپتان کی رہائی اور پی ڈی ایم کا دھرنا


کہتے ہیں کہ تاریخ کا ایک المیہ ہے اور وہ المیہ یہ کہ تاریخ سے کسی نے سبق نہیں سیکھا۔ یہی بات وطن عزیز کی سیاسی تاریخ پر صادق آتی ہے۔ سات دہائیوں بعد بھی ہماری سیاسی قیادت نے اپنے ماضی سے کچھ نہیں سیکھا۔ نوے کی دہائی میں سیاسی محاذ آرائی اپنے عروج پر تھی کوئی بھی حکومت اپنی مدت پوری نا کر سکی۔ وقت گزرا اور سیاسی نشیب و فراز کے بعد سیاسی قیادت نے سوچا کہ محاذ آرائی سے کوئی فائدہ نہیں ہو گا اور اس کے بعد پہلے این آر او ہوا اور اس کے بعد اٹھارویں ترمیم لائی گئی۔ یہ دونوں کام سیاسی شعور کی پختگی کی علامت تھے۔ اور یہ دو اقدام ایسے تھے کہ پھر تیسرے آپشن کی ضرورت محسوس کی گئی۔ ایک ایسا آپشن جس کے ذریعے پہلے سے موجود سیاسی جماعتوں کو کنٹرول کیا جا سکے۔

2013 سے 2023 کے دس سالوں میں ملکی روایتی سیاست کو اس تیسرے سیاسی آپشن نے بدل کر رکھ دیا۔ یہ تیسرا آپشن عمران خان تھا۔ کوئی شک نہیں کہ جن کی انگلی پکڑ کر کپتان نے سیاسی عروج حاصل کیا وقت آنے پر اسی انگلی والے ہاتھ کو اپنی گرفت میں لے لیا۔ ایسی کلائی دبوچ لی کہ اب ہاتھ چھڑانا مشکل ہو گیا ہے۔ اب کوئی مانے یا نا مانے مگر سچ یہ ہے کہ عمران خان موجودہ عہد کی ایک سیاسی حقیقت ہے۔ اس کے ورکرز کا فین کلب بڑھ رہا ہے اور یہ لوگ مروجہ روایتی سیاست کے باغی ہیں اور کپتان کو ہر حالت میں اقتدار میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ ان کے نزدیک ان کا لیڈر نا صرف صادق و امین ہے بلکہ ہر قانون اور ضابطے سے بالاتر ہے۔

اس بات کی دلیل یہ ہے کہ اب سے کچھ دن قبل جب کپتان کی گرفتاری ہوئی تو ملک بھر میں ہنگامے پھوٹ پڑے۔ ملکی تاریخ میں پہلی بار کسی سیاسی جماعت کے ورکرز نے حساس مقامات کو اپنے غیظ و غضب کا نشانہ بنا ڈالا۔ توڑ پھوڑ کی اور آگ لگا کر راکھ کا ڈھیر بنا دیا۔ حالانکہ سیاسی قائدین کے لیے جیل دوسرا گھر ہوتا ہے مگر یہ کپتان کے ہی ورکرز تھے جنہوں نے کپتان کی گرفتاری کو قبول نا کیا۔ نتیجہ یہ کہ آج کپتان کو دیدہ و نادیدہ مقدمات میں ضمانت مل چکی ہے۔ بلاشبہ کسی بھی سیاسی لیڈرشپ کے لیے یہ بہت بڑا ریلیف ہے اور فی الوقت یہ ریلیف حاصل کرنے والے کپتان پہلے سیاسی قائد ہیں۔

تحریک انصاف کا موقف ہے کہ یہ مظاہرین ان کے ورکر نہیں تھے بالفرض یہ موقف مان بھی لیا جائے تو پھر بھی ان شرپسندوں کو یہ موقع بہرحال کپتان کی گرفتاری کے وقت ملا اور اس سے انکار ممکن نہیں۔ دوسرا یہ کہ کپتان کا ہائی کورٹ میں یہ بیان کہ اگر دوبارہ گرفتار کیا گیا تو اس طرح کا ردعمل دوبارہ آ سکتا ہے ان تمام جرائم کی ذمہ داری قبول کرنا ہے جو ان کی قید کے دوران ورکرز سے سرزد ہوئے۔ خیر یہ گتھی بھی سلجھ جائے گی پانی نے بالآخر پلوں کے نیچے سے ہی گزرنا ہے۔

پی ڈی ایم نے کپتان کی دو ہفتوں کی ضمانت میں ردعمل یہ دیا ہے کہ وہ 15 مئی کو سپریم کورٹ کے باہر دھرنا دیں گے اور یہ وہی دن ہے جس دن الیکشن کمیشن کی انتخابات کے شیڈول کے حوالے سے نظر ثانی کی درخواست کی سماعت ہونی ہے اور افواہیں یہ تھیں کہ اس دن شاید وزیراعظم پر توہین عدالت کی کارروائی نا شروع ہو جائے۔ اب اگر پی ڈی ایم سوموار کو سپریم کورٹ کے سامنے دھرنا دیتی ہے اور اگر یہ دھرنا طویل ہوتا ہے تو پھر یہ طے ہو گیا کہ انصاف کے اس سب سے بڑے گھر کے منصف کا اپنے عہدے سے جانا لازم ہو جائے گا۔ اور اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ کھلاڑیوں کے لیے کوئی اچھا شگون نہیں ہو گا اور اس سے کپتان کے مسائل میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔

سوال یہ ہے کہ اگر پی ڈی ایم دھرنا دیتی ہے تو کیا کپتان خاموش رہے گا تو اس ضمن میں دو باتیں ہیں کہ اگر کپتان کی ضمانت کسی ڈیل کا نتیجہ ہے تو کپتان صرف بیان دے گا اور زمان پارک میں آرام کرے گا اور اگر ڈیل نہیں ہے تو یقینی بات ہے کہ کپتان کی طرف سے بھی سڑکوں پر نکلنے کا یا پھر حالیہ فسادات میں کسی ٹوٹے ہوئے گیٹ پر دھرنا دینے کا اعلان کرے گا۔ اگر ایسا ہو گیا تو پھر ملکی سیاست کا منظرنامہ انتہائی ہولناک ہو گا۔ ایک ایسا بحران ہو گا جس کے جلد خاتمے کے لیے بہت سے ناپسندیدہ اور مشکل فیصلوں پر فی الفور عمل درآمد کی ضرورت ہوگی۔ پھر اس میں جس کے پاس طاقت ہوگی وہی آخری فاتح ہو گا اور سب جانتے ہیں کہ طاقت کس کے پاس ہے۔

اس سارے سیاسی منظر نامے کی حتمی شکل کیا ہوگی تو میری ناقص رائے کے مطابق عددی اعتبار سے پی ڈی ایم اور طاقتور ادارے اگر ایک صفحے پر ہیں تو ان کا پلڑا بھاری رہے گا اور سوموار کے دھرنے کے نتیجے میں ممکنہ استعفیٰ سے حالات کنٹرول کرنے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔ دوسری صورت میں پھر سب جائیں گے اور ہر چیز تہ و بالا ہو جائے گی اس سے انارکی پھیلے گی انتشار بڑھے گا اور حالات مزید گمبھیر ہوجائیں گے۔ اس سارے عمل کے دوران المیہ یہ ہے کہ ملک کا ہر ادارہ متنازع ہو چکا ہے اور فی الوقت کوئی قوت ایسی نہیں ہے جو ملک کی ساری سیاسی قیادت کو ایک میز پر بٹھا کر معاملات کو افہام و تفہیم سے حل کرنے پر مجبور کرے۔

لہذا اب طاقت کی بنیاد پر فیصلے ہوں گے۔ اور معاملات جب اس طرح سے حل ہونے لگیں تو بہتری کی امید کم ہی کی جا سکتی ہے۔ بھٹو نے کہا تھا کہ سیاست کی طاقت کچھ اور ہوتی ہے جبکہ طاقت کی سیاست کا مزاج کچھ اور ہوتا ہے۔ تو میرے عزیز ہم وطنو! اب ہم طاقت کی سیاست کے عہد میں داخل ہو رہے ہیں اب دیکھنا یہ ہے کہ طاقتور کون ہے۔ جو بھی طاقتور ہو گا تاج و تخت کا مالک بھی وہی ہو گا۔ اور جو کمزور ہو گا وہ پھر لمبی مدت کے لیے زیرعتاب رہے گا۔ لہذا گیم آن ہے۔ جاگتے رہیے اور ہوشیار رہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments