نانی، خصم اور حلالہ


ھم واقعات کے رونما ہونے کے جدلیاتی تجزیے سے بہت حد تک درست نتائج اخذ کر سکتے ہیں۔ اس سلسلے میں مختلف جہات سے ان واقعات کا باریک بینی سے مشاہدہ اور مطالعہ بھی ہمیں ممد و معاون ثابت ہوتا ہے۔ ہمیں کسی واقعے سے متعلق درست نتیجے تک رسائی کے لئے اس سے جڑے دیگر پہلوؤں، حالات و واقعات سے ربط کو مد نظر رکھنا پڑتا ہے۔ اس عمل کے دوران ہمیں بعض اوقات مفروضے بھی قائم کرنے پڑتے ہیں اور ان مفروضوں کو ممکنہ نتائج کی بے شمار چھلنیوں سے گزارنا پڑتا ہے۔ تب کہیں جا کر ہم کسی حد تک درست نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں مگر بعض اوقات وہ اخذ شدہ نتیجہ ہماری کسی تجزیاتی عنصر کی کمی یا کوتاہی کی وجہ سے غلط بھی ثابت ہو جاتا ہے۔

یہاں میں کوشش کرتا ہوں کہ چند واقعات پر اپنا تجزیہ پیش کروں اور نتائج اخذ کرنے کا کام آپ کے لئے چھوڑ دوں تاکہ اس مشکل کام کی ذمہ داری میرے کندھوں پر نہ ہو۔

یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ اسٹیبلشمنٹ نے پندرہ بیس سالہ مسلسل اسلامی صدارتی نظام کے نفاذ کے منصوبے کے تحت کٹھ پتلی کو بعینہ اسی طرح لانچ کیا کہ جس طرح ہالی ووڈ موویز والوں نے سپر مین، جیمز بانڈ ٹائپ سپر ہیروز سیریز لانچ کیں۔ جس طرح ابن صفی نے عمران سیریز لکھی۔

دنیا بھر کے ارب ہا انسانوں کی عمومی نفسیات کو مد نظر رکھتے ہوئے اس کٹھ پتلی کو بھی مافوق الفطرت خصوصیات کا حامل دکھانے اور ثابت کرنے کے لئے پروپیگنڈا کے تمام ریاستی و غیر ریاستی وسائل، طاقت، پیسہ، دھونس، دھاندلی اور میڈیا کا بے دریغ استعمال کیا گیا۔ اسی کا نتیجہ تھا کہ لوگ اسے کائنات کا واحد صادق اور امین، امت مسلمہ کا واحد عظیم لیڈر، غریبوں کا واحد مسیحا اور یہاں تک کہ ولی الاولیا، پیر و مرشد، وقت کا قطب، سمجھنے کے ساتھ ساتھ فرط جذبات میں اسے اللہ کا برگزیدہ بندہ تک کہہ جاتے ہیں۔

عوام چونکہ اپنی روزمرہ کے معاشی اور سماجی امور و مجبوریوں ہی سے فارغ نہیں ہو پاتے لہذا وہ اپنے اپنے مسیحا ڈھونڈ لیتے ہیں۔ ایسے میں اگر ریاست اس قسم کا مسیحا نما بت تراش کر بطور جملہ حل المشکلات پیش کر دے تو اس عوام کے پاس واحد آپشن بچتا ہی یہی تھا۔ گزشتہ اپریل اسٹیبلشمنٹ نے یہ باور کر لیا تھا کہ اس نرگسیت زدہ کٹھ پتلی کا انتخاب کر کے ان سے حماقت سر زد ہوئی ہے تو انہوں نے اسے اٹھا باہر پھینکا۔

کل تک جو کٹھ پتلی اٹھتے بیٹھتے، اسٹیبلشمنٹ کے حق میں ہمہ وقت رطب اللسان تھا اس نے اپنی زبان کو گز بھر سے بھی زیادہ لمبی کر لیا۔ ایک سال ملک بھر میں انتشاری کھیل کھیلنے کے بعد ، دو نہیں بلکہ ایک پاکستان کا نعرہ لگانے والوں نے کئی مقدمات میں پولیس سے آنکھ مچولی کھیلنا شروع کر دی۔ اپنے پیروکاروں کو اپنی ڈھال بنا لیا، عدالتی وارنٹ گرفتاریوں کا تمسخر اڑا کر زمان پارک میں جمع شدہ لونڈوں اور لونڈیوں کو پولیس سے لڑا دیا۔

دو تین ماہ پہلے میں نے پی ٹی آئی کے قومی لیول کے تین پرائیویٹ وٹس ایپ گروپوں میں بمشکل رسائی لی جن میں پاکستان بھر کے اضلاع کی مقامی قیادت موجود تھی۔ کبھی کبھار ان کی سکرولنگ کر لیا کرتا تھا۔ کٹھ پتلی کی حالیہ گرفتاری کے بعد کی صورتحال کے بعد میں نے گروپس کو باقاعدہ فالو کرنا شروع کیا۔ ایک ایک پوسٹ کو پڑھا، ایک ایک وڈیو کو دیکھا۔ مسلسل دو دن اور دو راتوں میں بمشکل چند گھنٹے ہی سو پایا۔

بیشتر اضلاع کی لوکل سطح کی قیادتوں نے گرفتاری کے وقت سے ہی واضح اہداف متعینہ اور ہدایات دینی شروع کیں جو اولاً جی ایچ کیو، آئی ایس آئی دفاتر، کور کمانڈرز کے ہاؤسز، کنٹونمنٹ ایریاز کی طرف پیشقدمی کے تھے اور ثانیاً نون لیگ کے عمائدین کے گھروں پر ہلہ بولنے، ان کا گھیراؤ کرنے سے متعلق تھے۔

پیپلز پارٹی کے متعلق البتہ کم غصہ اور پوسٹس ہوئیں۔ جلاؤ گھیراؤ کی وڈیوز فخریہ انداز میں بنا کر پوسٹ کی گئیں۔ فوج میں بغاوت کی وڈیوز اور پوسٹس دھڑا دھڑ آ رہی تھیں۔ فوج کو گندی اور ننگی گالیوں کی پوسٹس کے سینکڑوں سکرین شاٹس اور وڈیوز میرے پاس اب بھی موجود ہیں۔ اس سارے مواد کے تجزیے سے بھی یہ ظاہر ہوتا ہے کہ خان کی گرفتاری کی صورت میں مہیا کردہ ہدایات پر ہی من و عن عمل کیا گیا ہے۔

ایک چیز جو ذہن میں پہلے ہی دن سے کھٹک رہی تھی یہ تھی کہ چند سو یا ہزار لوگوں کے گروہ بہ آسانی کور کمانڈر ہاؤس جلا دیتے ہیں، جی ایچ کیو میں گھس جاتے ہیں، کنٹونمنٹ ایریاز میں نمائشی جنگی جہاز جلا دیتے ہیں، سی ایس ڈی پلازے لوٹ لیتے ہیں اور بالخصوص فوجی تنصیبات کو نقصان پہنچا دیتے ہیں اور اسٹیبلشمنٹ ٹک ٹک دیدم، دم نہ کشیدم کی تصویر بنی بیٹھی رہتی ہے۔

تیسرے روز اچانک سپریم کورٹ ایک گھنٹے کے نوٹس پر کٹھ پتلی کو عدالت میں طلب کرتی ہے اور مختصر ترین وقت میں نیب کی طرف سے گرفتاری کو غیر قانونی قرار دے کر اسے اپنی حفاظتی تحویل میں شب بسری کرواتی ہے۔ اگلے دن ہائیکورٹ اسے آزاد چھوڑ دیتی ہے۔ گویا ملک میں جلاؤ گھیراؤ بالخصوص فوجی تنصیبات پر حملے اور تباہی معمول کے مطابق ہوئے ہوں۔ گویا یہ سب کچھ ایک بے معنی ایکسرسائز ہوئی ہو۔

اکثریت عوام کا ذہنی تناؤ، پریشانی، پبلک کی ذاتی املاک کا نقصان جبکہ سرکاری املاک کا نقصان بھی عوام ہی نے بھرنا ہو، تین دن تک عوامی حق، انٹرنیٹ کی سہولت سلب کر لینا کہ جس پر عوام نے پیسے بھی ادا کیے ، ٹیکس بھی دیا، رائٹ ٹو انفارمیشن کے آئینی حق سے محرومی کوئی معنی نہیں رکھتی۔ ملک کی اشرافیہ کا آئینی بحران جس میں حسب معمول و حسب روایت و حسب سابق عوام ہی رگڑے گئے، عوام ہی لٹے اور مارے گئے۔

میرا گھر تھانے کے قریب مین جی ٹی روڈ پر واقع ہے۔ چند سال پیشتر دو تین سو لوگوں نے تقریباً نصف کلومیٹر دور اپنے کسی مطالبے کی خاطر روڈ بلاک کر دیا۔ پولیس نے روڈ کھلوانے کی بھرپور کوشش کی، مطالبات کی بابت کافی یقین دہانیاں کروائیں مگر لوگ اڑے رہے۔ تھوڑی دیر بعد ایک اے ایس آئی اپنے افسران کے سامنے آیا اس نے ہجوم کے حق میں دلائل دیے اور افسران کو بھی اس احتجاج میں عوام کے شانہ بشانہ شامل ہونے پر قائل کر لیا اور وہ قائل ہو گئے۔ طے یہ پایا کہ جلوس تھانہ کے سامنے چل کر روڈ بلاک کرے۔ ہجوم نے آ کر تھانے کے سامنے روڈ بلاک کر دیا۔ پولیس والوں نے خود انہیں جھاڑیاں کھینچ کر دیں۔ میں بھی گھر سے نکل کر بطور تماشائی وہاں پہنچ گیا۔ اچانک ہی میرے واقف پولیس اہلکار نے میرے قریب آ کر میرے کندھے کو پکڑ کر کہا کہ شاہ جی نکل لو۔ میں نے متعجب اور استفہامیہ انداز سے اس سے پوچھا مسئلہ کیا ہے؟ تو اس نے دانت پیستے ہوئے باقاعدہ دھکا دے کر مجھے کہا کہ شاہ جی پوچھو مت، نکل جاؤ نہیں تے رگڑے جا سو۔

ابھی میں وہاں سے نکل ہی رہا تھا کہ تھانے کے اندر سے اور سڑک کے دونوں اطراف سے پنجاب کانسٹیبلری کے سینکڑوں جوانوں نے سہ اطرافی ہلہ بول دیا۔ میں تو خیر نکل گیا مگر ہجوم میں سے ڈیڑھ سو سے زائد گرفتار ہوئے اور باقی درگت بنواتے ہوئے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ یعنی مستقبل قریب میں رگڑے کے آپشن کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ اپنے تقدس کی بے حرمتی کو بھول جانا خواہ وہ جس قدر بھی لاڈلا ہو اس قدر آسان بات نہیں ہے۔ مگر رگڑے کی زد میں اگر کبھی آئے بھی تو کٹھ پتلی کے پیروکار ہی آئیں گے جس کا غالب امکان بھی ہے۔

بات ہو رہی تھی کہ اسٹیبلشمنٹ نے پندرہ بیس سالہ اسلامی صدارتی نظام کے منصوبے کے تحت کٹھ پتلی کو لانچ کیا۔ جس کی وجہ سے اس کی بدنامی ہوئی، اسے نکال باہر کیا اور خود جانور بن گئے۔ اس نے انہیں تگنی کا ناچ نچا دیا۔ مگر جس اسٹیبلشمنٹ نے اس قدر طویل عرصہ محنت و مشقت و وسائل جھونکنے کے بعد اسے بطور مسیحا اور سپر ہیرو لانچ کیا تھا اس میں سے ایک حصہ اپنی ناکامی کو تسلیم کرتے ہوئے صبر شکر کر کے نیوٹرل ہو گیا، دوسرا معتدبہ حصہ اپنے ہی بنائے ہوئے اس بت پر مع اہل و عیال ایمان لے آیا۔ ایک تیسرے گروہ سے اپنے اس عظیم الشان دیرپا انوسٹمنٹ سے بنے منصوبے کی ناکامی ہضم نہیں ہو رہی کہ اس کی کامیابی کی صورت میں راوی نے کم از کم پندرہ بیس سال بالخصوص خاکی اشرافیہ کے لئے اسلامی صدارتی نظام کی چھتری تلے چین ہی چین لکھنا تھا۔

اور یہی وہ گروہ ہے جو چین سے نچلا نہیں بیٹھ رہا۔ اسی کی شہ پر یہ ابھی تک لاڈلا بنا ہوا ہے۔ وہ جلاؤ گھیراؤ کے واقعات کی مذمت نہیں کر رہا بلکہ دھمکی دے رہا ہے کہ اگر مجھے دوبارہ گرفتار کیا گیا تو میرے کہے بغیر دوبارہ ایسے واقعات ہونگے۔ اس طرح وہ اسی مذکورہ بالا عمومی نفسیات کے تحت ماورائی طاقتوں کا حامل، ماورائے قانون، عمرو عیار کی طرح کا چالاک سپر ہیرو بنا ہوا ہے۔ اسے سات سے زائد خون معاف ہیں۔ گویا لائسنس ٹو کل کا حامل ہے۔

اسی تیسرے گروہ کی شہ پر یہ فوجی تنصیبات پر حملوں کے باوجود دندناتا پھر رہا ہے۔ یقین کیجئے اپنے ماضی کے قول کے عین مطابق یہ واقعی “خطرے ناک” ہوا چاہتا ہے۔ یہاں اب حکیم محمد سعید اور ڈاکٹر اسرار احمد کی اس فتنے کی بابت تیس سال پرانی پیشگوئیوں پر بھی یقین سا دل میں بیٹھا جاتا ہے کہ یہ عالمی سامراج کا ایجنٹ ہے۔

اس تحریر میں لکھے واقعات اخذ شدہ میرے نتائج کو ابھی مزید چھلنیوں سے گزرنا باقی ہے۔ مثلاً ایک نتیجہ یہ بھی ہے کہ نانی نے خصم کیا، برا کیا، کر کے چھوڑ دیا اور برا کیا، پھر حلالہ کر لیا، سلسلہ جاری و ساری ہے۔

دیکھیں کہ آئندہ حالات کس کروٹ بیٹھتے ہیں کہ اشرافیہ کی باہمی جنگ ہے، عوام نے جانیں دی بھی ہیں تو فقط اشرافیہ کے انتقال اقتدار کی لڑائی اور کشمکش کے مطالبے پر کہ میرا لیڈر اچھا ہے، باقی سارے گندے ہیں۔ جو مر گئے انہیں کوئی سوشل سیکیورٹی نہیں ملے گی۔ کٹھ پتلی نے ان کے ورثاء کو گھر بلا کر ان سے تعزیت کرنی ہے اور وہ فوٹو سیشن لے کر واپس اپنے گھر آ جائیں گے۔ یہ بات تو طے ہے کہ اس نے اپنی جماعت کے شہداء کے نام پر ایک کمیٹی بنانی ہے اور ان کے نام پر بھی چندہ اکٹھا کرنا ہے۔

در اصل ہم عوام کسی حد تک مجبور، اور بہت حد تک بدحواس اور احمق ہیں۔ عوامی حقوق کے حصول، مہنگائی کے خاتمے، مفت تعلیم، صحت، رہائش، روزگار کے حصول کے لئے کوئی جلوس نہیں نکالتے، کوئی ہڑتال نہیں کرتے، کوئی احتجاج نہیں کرتے۔

میں اپنے دوسرے تجزیے کی بابت ضرور بتاتا چلوں کہ اسلامی صدارتی نظام کا بھرپور مشاہدہ میں چھ سال تک ایران میں قیام کے دوران کر چکا ہوں۔ میری ناقص فہم کے مطابق اسلامی صدارتی نظام سے مارشل لاء بدرجہا بہتر ہے

(نوٹ) میں اس بے ربط تحریر کے قارئین سے استدعا کروں گا کہ وہ میرے گزشتہ سے پیوستہ آرٹیکل ”سپر ہیروز، عمومی نفسیات اور عمرانی کلٹ“ کو ضرور پڑھیں آپ کو اس تحریر کی تفہیم میں زیادہ معاونت ہوگی کہ یہ اسی ہی مضمون کا حالیہ واقعات کے تناظر میں تسلسل ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments