سپر ہیروز، عمومی نفسیات اور عمرانی کلٹ


فلم ایک طاقتور ترین مثبت اور منفی ہر دو لحاظ سے پراپیگنڈہ میڈیا بھی ہے۔ کون ہے جس نے اپنے بچپن سے اب تک مختلف النوع فلمیں نہ دیکھی ہوں۔

فلموں کی اقسام اور موضوعات تفریح طبع کے ساتھ ساتھ رجحان سازی بھی کرتے ہیں۔
اس سے اخلاقی تربیت کا کام بھی لیا جا سکتا ہے اور ذہنی تخریب کاری بھی ممکن ہے۔
میں بچپن سے ہی انڈین، پاکستانی اور ہالی وڈ موویز دیکھتا آیا ہوں اور اب بھی دیکھتا ہوں۔

بچپن ہی سے ہیرو کا کردار سب کی طرح مجھے بھی بھاتا ہے بالخصوص وہ ہیرو جو ماورائی اور مافوق الفطرت قسم کی قوتوں کا حامل ہو، جو سو پچاس دشمنوں کو پٹخ دیتا ہو، ظلم اور ظالم کے خلاف ہو اور ہمیشہ جیت ہی اس کا مقدر ٹھہرتی ہو بدلہ لینے کی خصوصیت ہو۔

ہیرو کی دیگر خوبیوں میں خوبصورتی، سمارٹ نیس، رومانٹک، باڈی بلڈر، منفرد ڈائیلاگز، سٹائل، امارت بھی متاثر کن ہو اور دشمن کے مقابلے میں چالاک اور مکار بھی ہو۔

بیشتر اوقات کئی ذاتی و سماجی معاملات میں، میں خود بھی ان ہیروز جیسا بننا چاہتا تھا۔ سپر مین، سپائیڈر مین، ریمبو، جیکی چن، بروس لی، وین ڈیم، سکس ملین ڈالر مین، کیپٹن امریکہ، جیمز بانڈ الغرض سبھی کو سب پسند کرتے ہیں۔

گزشتہ تحاریر میں، میں ایران میں موجود اپنی پاکستانی کمیونٹی کی بابت یہ ذکر کر چکا ہوں کہ بیشتر پاکستانی افراد ایرانیوں سے بطور انڈین خود کو متعارف کرواتے ہیں۔

وجہ ایرانیوں کی انڈیا سے محبت اور پاکستان سے سرد مہر قسم کا رویہ ہے جس کی وجوہات پھر کبھی لکھوں گا۔

ایرانی قوم انڈین ڈب شدہ فلمیں کثرت سے دیکھتی ہے۔ اور پھر وہ بوقت ملاقات ہماری ( انڈین ) فلموں کا دوستانہ انداز سے تمسخر بھی اڑاتے ہیں کہ ایک ہیرو پچاس دشمنوں کو گھونسے مار کر پچاس فٹ دور کیسے پھینک سکتا ہے۔ یہاں میں یہ کہوں گا کہ ایرانی بیک وقت بھولے اور حقیقت پسند ہیں مگر انہیں بھی وہی سپر ہیروز ہی پسند ہیں۔

بچپن میں ہمیں کہانیاں بھی وہی زیادہ پسند آتی تھیں جن میں سپر ہیروز ہوں ٹارزن، دیو اور جنوں سے مقابلہ کرنے والے شہزادے، عمران سیریز، دیوتا کا ٹیلی پیتھی جاننے والا فرہاد علی تیمور وغیرہ۔ مزے کی بات یہ ہے کہ منفی خصوصیات رکھنے والے ہیرو بھی ہمیں بہت پسند تھے مثلاً عمرو عیار اور نک ویلوٹ جو بیک وقت چور، ٹھگ، جھوٹے، دھوکہ باز، زانی، نشئی سب کچھ تھے۔ اس پر مستزاد نسیم حجازی کی خاک اور خون، ”اور تلوار ٹوٹ گئی“ ، یوسف بن تاشفین، قیصر و کسریٰ، داستان مجاہد، آخری چٹان، آخری معرکہ، اندھیری رات کے مسافر، کلیسا اور آگ، معظم علی، حیدر علی، انسان اور دیوتا، داستان مجاہد وغیرہ میں موجود مذہبی سپر ہیروز نے بھی ہمارے ذہنوں کو اپنے ٹرانس سے نکلنے نہیں دیا۔

بچے، بڑے اور بوڑھے سب ان سپر ہیروز کو اپنی عمومی نفسیات کی وجہ سے پسند کرتے ہیں۔ اور وہ عمومی نفسیات ہیں کیا؟ اس گتھی کو سلجھانے کے لئے جزوی طور پر ہمیں سگمنڈ فرائڈ کے اس قول سے بھی مدد مل سکتی ہے۔ سگمنڈ فرائڈ کہتا ہے کہ ” بیان نہ کیے گئے جذبات کبھی نہیں مرتے۔ وہ زندہ درگور ہو جاتے ہیں اور بعد ازاں زیادہ بدنما طریقوں سے سامنے آتے رہیں گے“

ھم اپنی ذاتی یا سماجی مجبوریوں، کمزوریوں اور محرومیوں کی تلافی یا کتھارسس ڈھونڈتے ہیں ان میں۔ آپ اسے کسی حد تک یوٹوپیائی ذہنیت بھی قرار دے سکتے ہیں۔

اس کی دوسری اہم توجیہہ انسان کا خود کو بحیثیت مجموعی کمزور اور بے بس سمجھ کر ایک سپر نیچرل طاقت کا تخیل ہے کہ کوئی ہونا چاہیے جو ہمیں دشمن، آفات، مصائب، مسائل اور پریشانیوں سے بچا لے گا اور نا ممکن کو ممکن کر دکھائے گا۔ جبکہ در اصل یہ ہماری غیر حقیقی خواہشات کا پرتو ہوتا ہے۔

اسی عمومی یوٹوپیائی ذہنیت، احساس کمتری و محرومی، معاشرتی گھٹن کی نفسیات کے پیش نظر فلمساز سپر ہیرو کے کردار تخلیق کرتے ہیں جن میں ہم اپنا کتھارسس ڈھونڈتے ہیں۔

سپر ہیروز سے وابستگی نفسیاتی عارضہ ہے اور اگر یہ عارضہ شدید ہو جائے تو بہت سے مزید نفسیاتی عوارض جنم لیتے ہیں۔

فلموں اور کہانیوں سے قطع نظر حقیقی دنیا میں بھی اس قسم کے غیر حقیقی سپر ہیروز بنتے بھی ہیں اور تخلیق بھی کیے جاتے ہیں۔

اپنے ارد گرد نظر دوڑائیے۔

قومی سطح کی شناخت کے حامل ڈھونگی اور جعلی پیر اور عامل، مذہبی اور سیاسی گدی نشین اس کا عام دستیاب ثبوت ہیں۔ آپ بھلے ہی ان کو بخوبی جانتے اور ڈھونگی گردانتے رہیں، ان کے پیروکار انہیں سپر ہیرو کا درجہ دیتے ہیں۔

در اصل یہ شاطر لوگ عمومی عوامی نفسیات کے بہترین نباض، چکنی چپڑی باتوں کے ماہر، مسائل کا آسان ترین اور فوری حل پیش کرنے والے اور اس پر مستزاد ان میں سے بعض سحر انگیز شخصیت کے مالک بھی ہوتے ہیں یا پھر سحر انگیز شخصیت ہونے کا میک اپ کر لیتے ہیں۔

یہ لوگ ہجومی نفسیات کا بھی بخوبی فائدہ اٹھانا جانتے ہیں اور عوامی محرومیوں کو اپنی چرب زبانی سے کیش کرنے کے فن میں بھی طاق ہوتے جاتے ہیں۔ یاد رہے کہ ہجومی نفسیات جعلی اور جھوٹے حقائق کی ترویج اور ذہنی انجذاب و قبولیت کے لئے آسان ہدف ہوتی ہے۔

یہ لوگ اصل حقائق کو توڑ موڑ اور مسخ کر کے عامتہ الناس کو حقائق کی دنیا سے غیر حقیقی معجزاتی اور کرشماتی دنیا میں لے جاتے ہیں۔ عوام کے مذہبی رجحان کے پیش نظر یہ اپنے حلیے، گفتگو اور ظاہری کردار میں بھرپور مذہبی ٹچ دیتے ہیں۔ عوام کی بھوک، بیروزگاری اور محرومی کے لئے مستقل بندوبست کی بجائے یہ عارضی حل، خیراتی امور متعارف کرواتے ہیں۔ انکم سپورٹ پروگرام، لنگر خانے وغیرہ جس کی واضح مثال ہیں۔

ہر فیلڈ کا شاطر انسان اپنے ارد گرد ایک مضبوط کلٹ بنا لیتا ہے جبکہ کلٹ کی تعریف یہ ہے کہ یہ عام لوگوں کی محرومیوں سے وابستہ توقعات و خواہشات کے پھیلاؤ سے وجود میں آتا ہے۔ یہ لوگ اندھے مقلدین ہوتے ہیں جو سطحی اور عامیانہ حقائق کو دیکھ کر اپنی رائے بناتے ہیں اور شاطر کی بچھائی گئی بساط کی طرف بھیڑ چال چلتے ہوئے اس کے مہرے بن جاتے ہیں۔

وطن عزیز میں اب تک یہی کچھ ہوتا آیا ہے اور اس مرتبہ بھی یہاں کی سیاسی فضاء میں 75 سال سے ایک بہترین عوامی سیاستدان کے لئے موجود سیاسی خلاء کو پر کرنے کے لئے اصل مقتدرہ نے ایک سپر ہیرو سیاستدان کی شخصیت کی ہمہ قسم جائز و ناجائز وسائل استعمال کر کے تعمیر سازی کی۔

جملہ مقتدرہ قوتیں، بیوروکریسی، ہمہ قسمی پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کے ذریعے اسے پروموٹ کر کے عوامی برین واشنگ کی گئی اور اسے بطور ( سپر ہیرو ) مسیحائے قوم و نجات دہندہ پیش کیا گیا۔

پروپیگنڈا سیلز نے اس کے باقاعدہ پیروکار بنا دیے ہیں جو اس کی ہر موشگافی پر آمنا و صدقنا اور لبیک کہتے ہیں۔

یہ لیڈر شدید قسم کی نرگسیت کا شکار ہے جسے نارسیسٹک پرسنیلٹی ڈس آرڈر کہا جاتا ہے اور کثیر تعداد میں عوام اس ذہنی نرگسیت زدہ شخص کو اپنا نجات دہندہ قرار دے رہے ہیں۔ اور اب تو یہ انفرادی نرگسیت اس کے پیروکاروں میں بھی بدرجہ اتم پائی جاتی ہے جو خود کو بزعم خود معاملہ فہم، انتہائی باشعور، باخبر اور مخالف نقطہ نظر کے حاملین کو احمق، جھوٹا، بے ایمان، ذہنی غلام، سازشی اور غدار، ناقابل رحم و ہمدردی سمجھتے ہیں اور انہیں نیچا دکھانے کے لئے ہر حد تک چلے جانے کو جائز گردانتے ہیں۔

بات شروع ہوئی تھی فلموں کے سپر ہیروز سے کہ جنہیں دنیا میں شاید ہی کوئی ناپسند کرتا ہو۔

یہ جاننے کہ باوجود کہ یہ سپر ہیروز والے بیشتر کام ناممکنات میں سے ہیں، سپر نیچرل قسم کے ہیں، فرضی ہیں مگر ہماری محرومیوں اور معصوم خواہشات و توقعات کو عارضی طور پر انٹرٹین کرتے اور مبہم سا کتھارسس مہیا کرتے ہیں۔

یقین مانیے بھولے عوام اس شاطر کو عالم اسلام کا سپر ہیرو، مسیحا، نجات دہندہ اور نجانے کیا کیا تسلیم کئیے ہوئے ہیں۔

ہزاروں سالوں کی معلوم انسانی تاریخ میں ایسے بے شمار ٹھگ انہی خصوصیات کو دکھا کر عوام کو ٹھگ جاتے رہے ہیں۔ میں بھی اپنی مختصر زندگی میں بارہا اسی قسم کے ٹھگوں کو مسیحا مان کر، کبھی بہ حیلۂ مذہب اور کبھی بنام وطن اپنا مال، جان اور وقت گنوا چکا ہوں۔

حق رکھتا ہوں کہ اپنی ناقص فہم اور کامل تجربے کہ بنیاد پر پیشنگوئی اور نصیحت کر دوں کہ

” اے عمرانی گروہ! یقیناً اپنے اس انتخاب پر تمہیں پچھتانا پڑے گا کہ سپر ہیروز فقط ایک عوامی عمومی نفسیات کو بھلے ضرور لگتے ہیں مگر صرف فکشن فلموں میں پائے جاتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments