ہٹلر، مسولینی، سٹالن اور جماعت اسلامی کا منشور


یہ کہنا تو مشکل ہے کہ انتخابات کب ہوتے ہیں لیکن سیاسی ہیجان نے ابھی سے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ ہر سیاسی گروہ اپنا بیانیہ لے کر پاکستان کے عوام کے سامنے پیش ہو رہا ہے۔ کسی پارٹی کے پاس بیرونی سازش کا بیانیہ اور اپنے لیڈر کی گرفتاری کا سیاسی اثاثہ موجود ہے اور کوئی اقتصادی ترقی کے وعدوں سے قوم کا جی بہلا رہا ہے۔ اور حسب سابق مذہبی سیاسی جماعتیں پاکستان میں نفاذ اسلام کا پروگرام پیش کر کے ووٹ حاصل کرنے کی کوششیں کر رہی ہیں۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ خوش نما نعروں کو نظر انداز کر کے اس جذباتی ماحول میں غیر جذباتی انداز میں ہر سیاسی جماعت کے منشور کو پرکھا جائے۔ اس پس منظر میں جماعت اسلامی وہ پہلی سیاسی جماعت ہے جس نے کم از کم اپنے منشور کے بنیادی خدو خال پیش کر دیے ہیں گو کہ تفصیلی منشور بعد میں جاری کیا جائے گا۔ منشور کے اشارات ترجمان القرآن مئی 2023 کے شمارے میں پروفیسر خورشید احمد صاحب کی طرف سے شائع کیے گئے ہیں۔ اس جماعت کا جاری کردہ مسودہ ان الفاظ سے شروع ہوتا ہے کہ جماعت اسلامی محض ایک سیاسی جماعت نہیں بلکہ یہ زندگی کے ہر شعبہ میں پورے اسلامی نظام کو نافذ کرنے کی عالمی تحریک کا حصہ ہے۔ یہ نعرہ تو پہلے بھی بارہا لگایا گیا ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ جماعت اس کام کو کس طریق پر سرانجام دے گی؟

ان اشارات میں جماعت اسلامی کا وژن بیان کیا گیا ہے۔ جیسا کہ توقع تھی اس وژن میں قرآن و سنت کی بالادستی کے بعد آئین قانون اور جمہوریت کی حکمرانی درج کی گئی ہے۔ لیکن ان امور کا اطلاق کیسے ہو گا؟ بظاہر اس منشور میں لکھا ہے

’پارلیمنٹ کے ذریعہ تمام غیر اسلامی قوانین منسوخ کیے جائیں گے۔ ‘

ان الفاظ میں یہ تاثر دیا گیا ہے کہ قانون اور آئین میں جو بھی اسلامی تبدیلیاں لائی جائیں گی وہ پارلیمنٹ کی منظوری سے لائی جائیں گی۔ گویا تسلی دی جا رہی ہے کہ ہماری حکومت میں پارلیمنٹ ہی بالا دست رہے گی اور فیصلہ سازی کا حق عوام کے منتخب نمائندوں کے سپرد ہی رہے گا۔ لیکن اس سے اگلی سطر ملاحظہ ہو۔

’اسلامی نظریاتی کونسل کی تشکیل نو کی جائے گی اور کوئی قانون اس کی پیشگی سفارش کے بغیر منظور نہیں کیا جائے گا۔‘

سب سے پہلے تو یہ بات قابل توجہ ہے کہ ’تشکیل نو‘ کی دلفریب اصطلاح کو مبہم رکھا گیا ہے۔ اس کونسل میں کیا تبدیلیاں لائی جائیں گی اور کون ان تبدیلیوں کو منظور کرے گا، اس کی کوئی وضاحت نہیں کی گئی۔ لہذاٰ اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا جا سکتا لیکن اس جملہ کا اگلا حصہ یہ ظاہر کر دیتا ہے کہ اس نظام میں پارلیمنٹ کو اسلامی نظریاتی کونسل کا ذیلی ادارہ قرار دے دیا گیا ہے کیونکہ پارلیمنٹ کسی قانون کو منظور نہیں کر سکتی جبکہ اسلامی نظریاتی کونسل اس کی آشیر باد عطا نہ کرے کہ یہ قانون اسلامی تعلیمات کے عین مطابق ہے۔

اگر اسلامی نظریاتی کونسل کسی قانون کو رد کردے تو پھر پارلیمنٹ کی کیا مجال اس پر غور کرے۔ اور تصور فرمائیں کہ اگر یہ کونسل اگر کسی قانون کو اسلامی قرار دے دے تو پھر پارلیمنٹ اسے کس طرح رد کر سکتی ہے کیونکہ قرآن و سنت کو آئین میں بالا دستی حاصل ہے اور اس وقت بھی حاصل ہو گی جب جماعت اسلامی کو اقتدار ملے گا۔ ان تبدیلیوں کے بعد منتخب نمائندوں کی حیثیت صرف ربر سٹیمپ کی ہو گی جس کا کام اسلامی نظریاتی کونسل کی ہاں میں ہاں میں ملانا ہو گا۔ کیا ایسے نظام کے تحت جمہوریت سانس لے سکتی ہے؟

اب یہ جائزہ لیتے ہیں کہ اس وقت آئین میں اسلامی نظریاتی کونسل کے اراکین کس طرح مقرر ہوتے ہیں اور ان کے سپرد کیا کام ہے۔ آئین کی شق 228 میں یہ ذکر موجود ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کے اراکین کس طرح منتخب کیے جائیں گے۔ اس شق کی رو سے یہ اختیار صدر کے پاس ہے کہ وہ آٹھ سے بیس تک افراد کو اس کونسل میں مقرر کرے اور یہ اختیار بھی صدر کہ پاس ہے کہ وہ اس کونسل کا صدر مقرر کرے۔ اگر پارلیمنٹ کے اوپر اس کونسل کو بالا ادارے کے طور پر لگادیا جائے تو دوسرے الفاظ میں قانون سازی کے عمل پر ایک فرد واحد کی اجارہ داری قائم ہو جائے گی۔

یہ درست ہے کہ آئینی طور پر ایسے افراد اس میں مقرر ہو سکتے ہیں جنہیں قرآن مجید اور سنت کی رو سے اسلامی اصول اور فلسفہ کا علم ہو۔ لیکن ملاحظہ فرمائیں کہ آئین کی شق نمبر 62 میں بھی یہ درج ہے کہ ممبر پارلیمنٹ کے لئے بھی یہ ضروری ہے کہ وہ اسلامی تعلیمات کا خاطر خواہ علم رکھتا ہو، پارسا ہو، دینی فرائض کا پابند ہو ایماندار ہو۔ عرض ہے کہ نہ تو وطن عزیز کو پارلیمنٹ کے لئے ایسے ممبران میسر آئے جو کہ پارسا ہوں۔ اور نہ ہی اسلامی نظریات کونسل کے لئے ایسے اراکین میسر آئے جو کہ دستور کے تقاضوں کے مطابق اپنے فرائض ادا کر سکیں۔

دوسرا پہلو یہ ہے کہ آئین کی رو سے کون سے قوانین مشورے کے لئے اسلامی نظریاتی کونسل کے پاس جائیں گے۔ تو عرض ہے کہ آئین کی رو سے صرف صدر یا متعلقہ صوبے کا گورنر قوانین کو مشورے کے لئے اس کونسل کی طرف بھجوا سکتا ہے یا اگر کسی ایوان یا صوبائی اسمبلی کی رکنیت کا دو بٹا پانچ یہ مطالبہ کرے کہ کوئی قوانین مشورے کے لئے اسلامی نظریاتی کونسل کی طرف بھجوایا جائے تو یہ کونسل مشورہ دے سکتی ہے کہ تجویز کردہ قانون اسلامی احکام کے خلاف تو نہیں ہے۔

لیکن جماعت اسلامی تو آئین سے بالا یہ نظام تجویز کر رہی ہے کہ ہر قانون پارلیمنٹ میں جانے سے پہلے اسلامی نظریاتی کونسل کے فلٹر سے گزر کر جائے گا اور اگر وہ اسے رد کر دے گی تو یہ قانون پارلیمنٹ میں پیش ہی نہیں ہو گا۔ اس کا نتیجہ صرف ایک مذہبی طبقہ کی آمریت اور جمہوریت اور پارلیمانی نظام کی موت کے سوا کچھ اور انہیں نکل سکتا۔ اور اس کے بعد پارلیمنٹ کی حیثیت ایک مفلوج ادارے کی ہو جائے گی۔

یہ مذہبی سیاسی جماعتوں کا ایک دیرینہ مطالبہ رہا ہے کہ علماء کے پاس کسی بھی قانون کو ویٹو کرنے کا اختیار ہونا چاہیے۔ جب 1973 کے آئین کو منظور کرتے ہوئے بحث ہو رہی تھی تو 5 مارچ 1973 کو مفتی محمود صاحب نے یہ مطالبہ کیا تھا کہ یہ حق ہر رکن کو ہونا چاہیے کہ وہ کسی بھی قانون کو رائے کے لئے اسلامی نظریاتی کونسل کی طرف بھجوائے اور جب یہ قانون اس کونسل کے سامنے پیش ہو جائے تو پارلیمنٹ میں اس بارے میں قانون سازی کا عمل روک دینا چاہیے۔ اور مفتی محمود صاحب نے اس بات پر اعتراض کیا تھا کہ کیا وجہ ہے کہ پارلیمنٹ کو اس بات کا پابند نہیں بنایا گیا کہ وہ لازمی طور پر اس کونسل کی سفارش پر عمل کرے۔

جماعت اسلامی کا ہمیشہ سے یہ نظریہ رہا ہے کہ کسی ملک کی اصلاح کے لئے ضروری نہیں کہ آپ پہلے اکثریت حاصل کریں پھر اپنی مرضی کا نظام نافذ کریں۔ اکثر قلیل گروہ ہی کسی ملک پر قبضہ کر کے یہ کارنامہ سرانجام دیتے ہیں۔ جون 1939 میں جب ہندوستان ایک سیاسی ہیجان سے گزر رہا تھا، اس وقت ابولاعلیٰ مودودی صاحب بانی جماعت اسلامی نے تحریر فرمایا تھا:

’کثرت اور قلت کا سوال صرف قوموں کے لئے ہی پیدا ہوتا ہے جماعتوں کے لئے نہیں۔ جو جماعتیں کسی طاقتور نظریہ اور جاندار فلسفہ کو لے کر اٹھتی ہیں وہ ہمیشہ قلیل التعداد ہی ہوتی ہیں۔ اور قلت تعداد کے باوجود بڑی بڑی اکثریتوں پر حکومت کرتی ہیں۔ روسی کمیونسٹ پارٹی کے ارکان کی تعداد اس وقت صرف 32 لاکھ ہے اور انقلاب کے وقت اس سے بہت کم تھی مگر اس نے 17 کروڑ انسانوں کو مسخر کر لیا۔ مسولینی کی فاشسٹ پارٹی صرف 4 لاکھ افراد پر مشتمل ہے اور روم پر مارچ کرتے وقت تین لاکھ تھی، مگر یہ قلیل تعداد ساڑھے چار کروڑ اطالویوں پر چھا گئی۔ یہی حال جرمنی کی نازی پارٹی کا ہے۔ اگر قدیم زمانہ کی مثالیں خود اسلامی تاریخ سے دی جائیں تو ان کو یہ کہہ کر ٹالا جا سکتا ہے کہ وہ زمانہ گزر گیا اور حالات بدل گئے۔ لیکن یہ تازہ مثالیں آپ کے اسی زمانے کی موجود ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ قلت آج بھی حکمران بن سکتی ہے۔ ‘

(تحریک آزادی ہند اور مسلمان جلد دوئم ص 64 )

اس اقتباس کا مطلب واضح ہے کہ صالحین کا ایک قلیل گروہ ملک کی اکثریت پر حکمرانی حاصل کر کے اس ملک کی اصلاح کرے۔ اور اس کے لئے ملک کی اکثریت کی رضامندی حاصل کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ جس وقت ابو الاعلیٰ مودودی صاحب نے یہ الفاظ لکھے تھے سوویت یونین میں سٹالن کا سکہ چلتا تھا۔ اٹلی مسولینی کے شکنجے میں تھا۔ اور جرمنی میں کوئی ہٹلر کے سامنے چوں چرا بھی نہیں کرتا تھا۔ ان آمروں کی چمک دمک سے متاثر ہو کر یہ نتائج اخذ کیے گئے تھے۔

مگر ملاحظہ فرمائیں کہ چند ہی برسوں میں نازی پارٹی اور فاشسٹ گروہ کی صف لپیٹ دی گئی۔ ہم نے اپنی آنکھوں سے سوویت یونین بکھرتے اور وہاں سے کمیونزم کا جنازہ اٹھتے دیکھا۔ لیکن جو ممالک اکثریت کی رضامندی سے کسی قانون اور دستور کے تحت چلائے جا رہے تھے وہ آج بھی اسی طرح چل رہے ہیں۔ آپ کو اپنے فیصلے کرنے کا اختیار ہے۔ آپ کا مستقبل آپ کی مرضی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments