سیاست یا انتقام؟


سابق وزیراعظم عمران خان صاحب نے اقتدار تو بلند و بانگ دعووں کے ساتھ سنبھالا تھا۔ اور عوام کو یقین دلایا گیا کہ اب ان کی تقدیر بدلنے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا۔ موروثی سیاست دانوں کی کرپشن سے ستائے ہوئے عوام نے ان کے ہاتھ پر بیعت کی اور ان کا ساتھ دینے کے لے کمر کس لی۔ مگر خدا جانے ایسا کیا ہوا کہ وقت گزرنے کے ساتھ سب دعوے دھیمے پڑتے گئے۔ اور خان صاحب نے جس امر پر سب سے زیادہ زور لگا دیا وہ مخالفین کی پکڑ دھکڑ تھی۔ اور اپوزیشن کے تقریباً تمام بڑے ناموں کو ایک بار جیل کا منہ دکھانے میں کامیاب بھی رہے۔ ظاہر ہے اس میں ملکی مسائل کہیں بہت پیچھے دب کر رہ گئے۔ یوں اگر کہا جائے کہ انتقامی سیاست کی عملی مثال خود خان صاحب نے سیٹ کی تو شاید غلط نہ ہو گا۔

انتقامی سیاست کی اس روش کو مزید بڑھاوا دینے میں موجودہ تیرہ جماعتی اتحاد نے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ خان صاحب نے جب اس ٹولے پر زمین تنگ کی تو انھیں ان کی حکومت گرانے میں ہی اپنی عافیت نظر آئی۔ مہنگائی کی آڑ میں اس مشن کو عملی جامہ پہنانے کی تیاریاں شروع ہوئیں تو انھیں اندازہ ہوا کہ یہ کسی ایک پارٹی کے بس کی بات نہیں۔ ان میں سے ایک پگڑی بردار وڈیرے نے سب کو ایک پارٹی کے خلاف متحد ہونے کا مشورہ دیا۔ یوں کئی دہائیوں کے بچھڑے ہوئے لمحوں میں ایک ہو گئے کیونکہ سبھی پھنس چکے تھے۔ وہ یہ بھی بھول گئے کہ کس نے کس کا پیٹ پھاڑ کر عوام کا پیسہ باہر نکالنا تھا۔ اور کس نے کس کو سڑکوں پر گھسیٹنے کا عوام سے وعدہ کیا تھا۔

اس سب کے باوجود بھی اگر یہ تیرہ جماعتی اتحاد عوام کو چھوٹے موٹے ریلیف دینے میں کامیاب رہتا یا تھوڑے تحمل سے کام لیتا تو شاید صورت حال یکسر مختلف ہوتی۔ مگر انھوں نے سابقہ روش کو برقرار رکھتے ہوئے آتے ہی اپنے کیسسز ختم کرنے کے ساتھ ساتھ مخالفین کو عدالتوں میں گھسیٹنا شروع کر دیا۔ حالانکہ اس اتحادی ٹولے کے ایک نمائندے نے حکومت گرانے کے فوراً بعد اسمبلی میں کھڑے ہو کر کہا تھا کہ وہ کسی سے بدلہ نہیں لیں گے۔

لیکن اس اتحادی جماعت نے بھی سارا زور مخالفین کو عدالتوں میں گھسیٹنے اور ان پر مقدمات کے پہاڑ کھڑے کرنے میں لگا دیا۔ ظاہر ہے اس صورت حال میں عوام کی خبر گیری کرنے اور ملکی مسائل حل کرنے کی فرصت کس کے پاس تھی۔ اس دھرتی نے ایسے مسائل کو جنم دیا جنھوں نے اس کے باسیوں کو ہلا کر رکھ دیا۔ جو اس سے قبل پوری ملکی تاریخ میں نہ کسی آنکھ نے دیکھے اور نہ کسی کان نے سنے۔ اور وقت گزرنے کے ساتھ یہ ناسور مسلسل بڑھتا جا رہا ہے۔ مگر وہ اس سے کیونکر سبق سیکھیں گے کیونکہ ان کا تو یہ مسئلہ کبھی رہا ہی نہیں۔ وہ جس ایجنڈے پہ کام کرنے آئے تھے اس پر تیزی سے کام کیے جا رہے ہیں۔

اپوزیشن کا شاید ہی کوئی بڑا کردار ایسا ہو جس پر انھوں نے مقدمات نہ بنائے ہوں اور اسے دو ایک بار جیل کا منہ نہ دکھایا ہو۔ جس کی کئی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ سابق وزیر اعلیٰ پنجاب پرویز الہی کو گرفتار کرنے کے لیے ان کے گھر کو جس طرح توڑا گیا یا پھر خود عمران خان صاحب کی غیر موجودگی میں ان کے گھر کا جو حشر بکتر بند گاڑیوں سے کیا گیا وہ مناظر بذات خود انسان کو ورطہ حیرت میں ڈالنے کے لیے کافی ہیں۔ صرف ایک شخص کو راہ سے ہٹانے میں اس تیرہ جماعتی ٹولے نے شاید ہی کوئی حربہ باقی چھوڑا ہو۔ ان پر کیسسز کے انبار لگائے گئے۔ کیونکہ ایک صاحب میڈیا پر علی الاعلان کہہ چکے تھے کہ یا تو یہ رہیں گے یا ہم۔

اور جب سات مقدمات میں ضمانت کے لیے خان صاحب اسلام آباد ہائی کورٹ پہنچے تھے تو نیب نے چند موروثی بابوں کو خوش کرنے کرنے کے لیے رینجرز کے ذریعے انھیں کمرہ عدالت کے شیشے توڑ کر گرفتار کروا دیا۔ یہ الگ بات ہے کہ سپریم کورٹ نے محض ایک دن بعد گرفتاری غیر قانونی قرار دے کر انھیں رہا کر دیا۔ لیکن ان دو دن میں جو حشر ہوا وہ پوری دنیا نے دیکھا۔ مشتعل کارکنان نے اس ازلی غلامی کے حصار کو توڑنے کے لیے اپنے ہی ملک کا بے بہا نقصان کیا۔

جنھیں اب شرپسند اور دہشت گرد قرار دے کر دھڑا دھڑ گرفتار کیا جا رہا ہے۔ ان کے دہشت گرد ہونے کے راگ مسلسل الاپے جا رہے ہیں۔ اور ممکن ہے انھیں پھانسی کی سزا دلوانے پر بھی غور کیا جائے۔ مگر یہ کوئی بھی نہیں کہہ رہا کہ یہ غیر قانونی گرفتاری کس کی ضد اور خواہش کی تکمیل تھی۔ انٹرنیٹ اور تمام سوشل میڈیا سروسز کو معطل کر دیا گیا تا کہ جو کچھ ہو رہا ہے وہ عوام نہ دیکھ سکیں۔ جو تا حال بند ہیں۔

کئی دہائیوں سے اس طرز حکمرانی کی بھینٹ چڑھتے اور ستائے ہوئے مشعل عوام نے کسی بھی چیز کو نہیں بخشا۔ ملکی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ عوام نے افواج تک کو نہیں چھوڑا۔ شاید اب ان پر بہت سے عقدے وا ہو چکے ہیں۔ اور ویسے بھی غلامی کے بت توڑتے وقت طریقہ کار کے صحیح یا غلط ہونے کا خیال کسے رہتا ہے۔ یہ مناظر دیکھ کر خود وڈیرے بھی چکر گئے ہیں۔ اس موروثی خواہش اور سیاست میں نقصان کس کا ہوا یہ سبھی باخوبی جانتے ہیں۔ پوری دنیا اس ڈرامے بازی پر حیران ہے۔

ہونا تو یہ چاہیے کہ وہ اس سے کچھ سبق سیکھیں۔ لیکن شاید ایسا ہونا نہ ممکنات میں سے ہے۔ اگر انتقامی سیاست کا یہی سلسلہ چلتا رہا اور حکمران اسی طرح ایک دوسرے کو گھسیٹنے میں محو رہے تو عوام اور ان کے مسائل کہیں بہت نیچے دب کر رہ جائیں گے۔ اور ایک وقت آئے گا جب ان کی سسکیوں کی آوازیں بھی مدھم پڑ جائیں گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments