کتاب


کتاب وہ دوست یا ساتھی ہے جو برے وقت میں ساتھ دیتا ہے۔ کتاب وہ دوست ہے جو آپ کا ساتھ نہیں چھوڑتا تاوقتیکہ آپ اس کو الوداع کہیں۔ کتاب وہ محبوبہ ہے جس کو آپ بلا کسی جھجک یا بلا شرکت غیرے چھو سکتے ہیں، اس کا بوسہ لے سکتے ہیں، سینے سے لگا سکتے ہیں، آنکھوں سے مسل کر پیار کر سکتے ہیں، اس کے اندر جھانک کر دیکھ سکتے ہیں، اس کے چپے ہوئے راز افشاں کر سکتے ہیں، اس کے ( اندام ) ورق ورق اور پرزے پرزے کی ورق گردانی کر سکتے ہیں۔

یہ وہ محبوبہ ہے کہ جس کو جتنا چاہو اتنا یہ مہربان ہوتا ہے، یہ وہ حسین ترین محبوبہ ہے جو یہ تاثر کو غلط کر دیتا ہے کہ حسیناؤں میں وفا نہیں ہوتی، یہ وہ حسین محبوبہ ہے کہ کبھی ناز نخرے نہیں اٹھاتی، جب چاہو جس وقت چاہو گود میں لے کر سینے پر پلٹا کے لٹا دو اس کے چہرے اور ماتھے پر لکھی ہوئی ہر سطر کو غور سے پڑھیں، اس کے پیشانی پر انگلی پھیرے، بوسہ لے لیں اف تک نہیں کرتا اس کو جتنا وقت دو جواب میں یہ آپ کو وقت دیتا ہے۔ یہ وہ ساتھی ہے کہ جب آپ مشکل میں ہوں تو یہ آپ کی انگلی پکڑ کر اس مشکل سے نکال دیتا ہے۔ یہ وہ ساتھی ہے جس کے ساتھ آپ باتیں کر سکتے ہیں آپ اس کو بول سکتے ہیں اور یہ آپ کو خاموشی سے سنتا ہے اور اس کی اس خاموشی میں سارے جوابات پنہاں ہوتے ہیں۔

کتاب خالص محبت کا مرقع ہوتا ہے یہ کسی ساجھے داری کا متحمل نہیں ہو سکتا ۔ یہ اپنے مضمون یا متن سے سروکار رکھتا ہے یہ کسی دوسرے کے متن سے غرض نہیں رکھتا البتہ حوالہ ضرور دیتا ہے اگر اس میں پیوندکاری کی گئی ہو یہ بالکل اس درخت کی طرح وہی پھل دیتا ہے جس کی پیوندکاری اس کے جسم میں لگائی گئی ہو یا تخم کے ذرات اس کے وجود میں اتارے گئے ہوں۔

کتاب اپنی یاری دوستی میں حساب کتاب کا بھی نہیں قائل۔ اور بامصداق رحمان بابا کے شعر کے ایک مصرعے کے۔
دیاری حساب کتاب کے دفتر نہ وی
یاری کے حساب کتاب میں دفتر نہیں ہوتا۔

یہ اور بات کہ کتاب کو ہم خریدتے ضرور ہیں لیکن خرید کر اس کو پڑھنے کے بعد جو ہمیں پے کرتا ہے وہ قیمت خرید سے کئی گنا زیادہ اور سود مند ہوتا ہے۔ کتاب ذہن کو وسیع، جذبات کو تفریح اور امکانات کو سعی دیتا ہے اور اس کے بعد کتاب اوراق یا سطور کا مجموعہ نہیں رہتا بلکہ عمل کا جیتا جاگتا مجسم صورت بن جاتا ہے۔ یہ فعل یا عمل میں اس طرح موجزن ہو جاتا ہے کہ زیست کے اتھاہ گہرائیوں سے وہ گوہر نایاب تلاش کر لاتا ہے کہ جس کے بارے میں ہم صرف سوچ کی حد تک دائرہ حصار میں تو رہ سکتے ہیں لیکن اس حصار کو کسی بھی صورت پھلانگ نہیں سکتے۔

کتاب عقیدہ بھی ہے کتاب نظریہ بھی ہے، کتاب عشق بھی ہے، کتاب معشوق بھی ہے، کتاب محبت بھی ہے کتاب مزدوری بھی ہے، کتاب مالک بھی ہے کتاب مزدور بھی ہے۔ کتاب مٹھاس بھی ہے کتاب کڑواہٹ بھی ہے۔ کتاب وقت کا زیادہ بھی ہے کتاب وقت کا بچت بھی، کتاب بگاڑتا بھی کتاب سنوارتا بھی، کتاب مارتا بھی ہے کتاب مار سے بچاتا بھی ہے۔ کتاب گمراہ بھی کرتا ہے اور کتاب راہ راست پر لاتا بھی ہے۔

کتاب بظاہر نقطوں اور سطور کا مجموعہ ہوتا ہے لیکن ان نقطوں اور سطور کے درمیاں دنیا و مافیہا کے راز پنہاں ہوتے ہیں۔

کتاب وہ ہمراز ہے جو کبھی راز افشاں نہیں کرتا کتاب وہ ساتھی ہے جو کبھی بے وفائی نہیں کرتا کتاب وہ ہمسفر ہے جو آدھے راستے میں نہیں چھوڑتا کتاب وہ راہنما ہے جو نہ خود بھٹکا ہوا ہوتا ہے اور اس کے فالو کرنے والے کو بھٹکاتا ہے۔ کتاب وہ سخی بابا ہے جو دوسروں پر لٹاتا ہے لیکن اس کے فیض کے سرچشمے کبھی سوکھتے نہیں ہر وقت اور ہر موسم میں رواں دواں اور جاری و ساری رہتے ہیں۔ لیکن، لیکن کتاب اس وقت اپنے قاری سے لاتعلق ہوتی ہے جب قاری صرف اس کی قراءت کرتے رہیں لیکن اس کے قراءت کو عملی جامہ نہیں پہناتا اس کے کہے پر نہیں چلتا اور کتاب کو سرسری لیتا ہے تو پھر کتاب بھی قاری کو سرسری لیتا ہے اور لوگوں کے درمیان اپنی جڑیں نہیں پھیلا سکتا اور کسی بھی وقت کسی بھی وقت کے تیز طوفان یا آندھی کے نظر ہو کر زمین بوس ہو جاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments