انتظار حسین اور ”آخری آدمی“


انتظار حسین اپنے افسانے ”آخری آدمی“ میں جادوئی حقیقت پسندی کے ادبی اسلوب کو اختیار کرتے ہوئے اس بات کی وضاحت کرتے ہیں کہ موروثی گناہ انسانوں کو ایک ابدی وسوسوں میں پھنسا دیتا ہے۔ جتنا ہی انسان اپنی تقدیر کے خلاف مدافعت کریے، اتنا ہی حقارت، پچھتاوے اور غم کے الاؤ آس پر یلغار کرتے ہیں۔ جب تک انسانی وجود کے جواز لذت گری اور خود سیفتگی سے تعلق رکھا ہے، انسانیت کے زوال و تنزل ناگزیر ہوتا ہے۔ افسانہ موروثی گناہ جیسے عیسائیت کے نقطہ نظر کو اپناتے ہوئے ہمیں خبردار کرتی ہے کہ جب تک انسان اپنے آپ کو مادی اور نفسیاتی آرزووں و تمناؤں سے دور نہ کرے، ہماری تقدیر ہمیشہ تاریک ہی رہے گی۔

یہ افسانہ مافوق الفطرت واقعات پر مبنی ہے جس میں لوگ جو سبت کے دن مچھلیوں کے شکار سے گریز کرنے کے حکم کو نہیں مانتے انہیں بندر میں تبدیل ہو نے جیسی سزا ملتی تھی۔ کہانی کچھ الگ تھلگ واقعات سے شروع ہوتی ہے، لیکن بعد میں پوری بستی لوگوں سے تبدیل ہوئے بندروں سے بھر جاتا ہے۔ یہ تبدیلی خوفناک کیوں ہے؟ ڈارون کے مطابق، انسان بندر سے تبدیل ہوا ہے! افسانے کی مرکزی کرداری نگاری الیاسف کو یہ احساس دلاتی ہے کہ انسان کو زبانی صلاحیت کا تحفہ دیا گیا ہے جس کے ذریعے ہم ایک دوسروں کو اپنے جذبات اور پیار پہنچا سکتے ہیں۔ لیکن کیا انسان ہونا اس قدر ممتاز ہے جس قدر لوگوں نے کہا ہے؟

حسین کے نزدیک، انسان اپنے ہی جذباتی نشیب و فراز کا شکار ہے۔ الیاسف ایک ”پناہ گاہ“ بناتا ہے جس میں وہ اپنے نہ صرف اردگرد کے بندروں سے بلکہ اپنے احساس اور روح سے علیحدگی اختیار کر سکتا ہے۔ وہ اپنے شعور کو خالی کر دینا چاہتا ہے۔ الیاسف ایک اور سوال کا پیچھا کرتا ہے کہ انسانی صحبت کس قدر قیمتی ہے؟ الیاسف انسانوں کو بے وفا، منافقت اور حسابی لوگوں سے محاصرہ ہوئے دیکھ کر وہ اس بات پر شک کرنے لگتا ہے کہ انسانی صحبت محض ایک بوجھ ہے؟

حسین کی داستان جمالیات کا ایک اور پہلو کردار کے اندرونی اور بیرونی ہونے والی تناؤ کی تصویر کشی ہے۔ یہاں، حسین الیاسیف کی بیرونی سالمیت کے بکھرنے کے اندرونی خوف کی پوری طرح سے وضاحت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ لیکن زیادہ بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا چیز انسان کو مکمل بناتی ہے؟ شاید انسانی صحبت کے بغیر انسان ادھورا ہو سکتا ہے۔ لیکن حسین کے نزدیک انسانی سالمیت کی جستجو عارضی دنیا پر مبنی نہیں، ہمارے باطن پر مبنی ہے۔ اگرچہ ہمیں ایک جھیل جیسا آئین چاہیے جس کا ٹھہرا ہوا پانی ہماری شناخت کی عکاسی کرتا ہو، پر وہ کون ہے؟ جس کے پاس آئینے کو دکھنے کی ہمت ہے کہ جس میں ٹھہرا ہوا پانی ہماری خوبصورتی کی عکاسی کرنے کے بجائے، ہماری خامیوں، منافقت اور گناہوں کی عکاسی کرتا ہو۔

انتظار حسین ”آخری آدمی“ میں رنگ، منظر کشی اور آواز کے نرالے امتزاج کے ذریعے ایک خوفناک اور عجیب ماحول پیش کرتے ہیں۔ لیکن میرے لئے اس افسانے کے حوالے سے سب سے زیادہ متاثر پہلو لوگوں کے طنزیہ قہقہے ہیں جو ایک گونج کی مانند افسانے کے طنز اور وحشت کے لہجے کو بڑھاتے ہیں۔ حسین کی رائے میں، انسانی زندگی جس قدر حقیر ہے انسان بھی اسی قدر کم تر ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments