جمہوریت اور پاپولزم میں فرق


اگر سوال الیکشن کے طریقہ کار تک محدود کر لیں تو دونوں میں کوئی فرق نہیں، اکثریت کی رائے ہی فیصلہ کن ہے۔ لیکن اگر سطح سے نیچے دیکھنے کی سعی کریں تو دونوں متصادم معلوم ہوتے ہیں۔

جمہوریت ایک ایسے مسلسل عمل کا نام ہے جو ’درمیانی راستہ‘ نکالنے کا ہدف رکھتی ہے جبکہ پاپولزم ’واحد حل‘ کا داعی ہے۔ جمہوریت کے لیے سیاست ’گرے ایریا‘ ہے دوسری طرف پاپولزم کے لیے سیاست ’حق و باطل‘ کا معرکہ۔ اول ذکر انسانی دانش، تجربے اور غلطیوں سے مملو ہے ثانی ذکر صادق و امین مسیحا کی تلاش کا نام ہے۔ جمہوریت نظام میں رہتے ہوئے اس کی خامیوں کو قطرہ قطرہ دور کرنے کی صبر آزما جدوجہد ہے جو کئی نسلوں پر محیط ہے، پاپولزم سطحی بیانیے سے پرانی عمارت اور روایات کو روند کر لمحوں میں نئی تعمیر کا سہانہ مگر بوسیدہ خواب ہے۔ جمہوریت میں آپ اختلاف رائے رکھتے ہیں اور پاپولزم میں دشمنی۔

اگر الیکشن ہی جمہوریت کے لیے کافی ہوتے 1932 میں ہٹلر کی پارٹی نے رائخ سٹاگ جرمن پارلیمنٹ میں سب سے زیادہ نشستیں حاصل کیں لیکن صدر نہ بن سکا، چانسلر کا عہدہ لے لیا۔ اگلے سال فروری میں جب پارلیمنٹ کو جلا دیا گیا اور صدر کی موت کے بعد خلا کا فائدہ اٹھاتے ہوئے صدارت اور چانسلر کے منصب کو مدغم کر کے ’فیورر‘ بن گیا، باقی تاریخ ہے۔

اس سے دس سال پہلے 1924 میں مسولینی جس الیکشن میں اٹلی کا سب سے جوان وزیراعظم بنا وہ بھی اسی طرز کی کہانی ہے۔ الیکشن سے پہلے مسولینی نے جو ’لڑنے والوں کا گروہ‘ تشکیل دیا اس میں انارکسٹ، غیر مطمئن سوشلسٹ، ریٹائرڈ فوجی اور بے چین انقلابی شامل تھے۔ ملکی حالات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے باسشاہ وکٹر ایمانول سوم کو مجبور کیا کہ وہ مسولینی کے جتھوں سے مدد مانگے اور جب موقع ملا تو مسولینی نے روم پر چڑھائی کردی۔ 1924 کا الیکشن تو بس ایک رسمی کارروائی تھی۔ برناٹیکا میں مسولینی کی شخصیت کا خاکہ پڑھیں، پاپولسٹ اور فاشسٹ کی بہترین عکاسی ہوتی ہے :

At rallies—surrounded by supporters wearing black shirts—Mussolini caught the imagination of the crowds. His physique was impressive, and his style of oratory, staccato and repetitive, was superb. His attitudes were highly theatrical, his opinions were contradictory, his facts were often wrong, and his attacks were frequently malicious and misdirected; but his words were so dramatic, his metaphors so apt and striking, his vigorous, repetitive gestures so extraordinarily effective, that he rarely failed to impose his mood.

Mussolini

پاپولزم جمہوریت کے لبادے میں فاشزم اور انانیت کے سوا کچھ نہیں، اکثریت کا استبداد اور غالب بیانیے کو واحد حل ماننا بھی جمہوریت کی روح کے منافی ہے۔

ہنگری کے وکٹر اوربان پالولرزم کی بہترین مثال ہیں۔ مئی 2022 میں چوتھی مرتبہ دو تہائی اکثریت لینے میں کامیاب ہوئے ہیں، ان کی ’فیدیزپارٹی‘ ایک دہائی سے برسراقتدار ہے، الیکشن تواتر سے اپنے وقت پر ہو رہے ہیں لیکن 2022 میں ہی یورپی یونین ممبران کی رپورٹ کے مطابق ہنگری ایک جمہوری ملک نہیں رہا، رپورٹ کے الفاظ یہ ہیں

The country should be considered a ”hybrid regime of electoral autocracy“ in which elections are regularly held but without respecting basic democratic norms.

دھیان رہے کہ یورپی یونین کے لیے یہ پہلی دفعہ ہے کہ اس نے اپنے ممبر ملک کو جمہوریت کی پاسداری نہ کرنے پر غیرجمہوری قرار دیا ہے، اور اس کا الزام ایک دہائی سے جیتنے والے ’ اوربان‘ پر لگایا ہے۔ ان انتخابات پر غیر ملکی مبصرین کا تجزیہ بہت دلچسپ ہے :انتخابات ’آزادانہ‘ ہیں ’منصفانہ‘ نہیں۔ آزادانہ اور منصفانہ کا یہی فرق جمہوریت اور پاپولزم میں امتیاز کرتا ہے۔

viktor orban

جمہوریت میں پاپولزم کا پیدا ہونا فطری عمل ہے، بلکہ یہ جمہوریت کا امتحان بھی ہے۔ یہ جمہوریت پسند سیاست دانوں اور روایتی سیاسی پارٹیوں کا امتحان ہے کہ وہ کیسے ان عناصر کو مرکزی دھاروں سے الگ رکھتے ہیں۔ ’جمہوریتیں کیسے فنا ہوتی ہیں‘ نامی کتاب کے دیباچے میں جو امریکا میں پاپولزم کا عروج اور اس کا ڈوندلڈ ٹرمپ پر اطلاق کرتی ہے اسی نکتے پر زور دیتی ہے :

We know that extremist demagogues emerge from time to time in all societies, even in healthy democracies. The US has had its share of them, including Henry Ford, Huey Long, Joseph McCarthy and George Wallace. An essential test for democracies is not whether such figures emerge but whether political leaders, and especially political parties, work to prevent them from gaining power in the first place— by keeping them off mainstream party tickets, refusing to endorse or align with them, and when necessary, making common cause with rivals in support of democratic candidates. Isolating popular extremist requires political courage.

جمہوریت ’غالب بیانیے‘ اور ’اکثریت کے جبر‘ کے نفاذ کا نام نہیں بلکہ اختلاف رکھنے والے مختلف رائے گروہوں کے درمیان مفاہمت اور قابل قبول راستہ نکالنے کا نام ہے۔

کیا ہم کسی مسیحا کے منتظر ہیں؟ کیا ہم پیچیدہ سوالات کے آسان اور فوری حل پر ایمان رکھتے ہیں؟ کیا ہم کسی نظام کے نامیاتی ارتقا اور مسلسل جدوجہد پر یقین رکھتے ہیں یا ماضی کے سنہری دور کی طرف لوٹ جانے کے خواب دیکھنا پسند کرتے ہیں؟

وطن عزیز کی جمہوریت کا حال تو سب جانتے ہیں، چارٹر آف جمہوریت کا سنگ میل جب آیا تو امید بندھی کہ اب ناؤ سنبھل رہی ہے لیکن اس کے بعد پھر تاریک دور۔ جس طرح غربت جہالت کے لیے زرخیز میدان مہیا کرتی ہے اسی طرح ایسے معاشرے جہاں معیشت کمزور ہو، آبادی اور وسائل میں تناسب نہ ہو، خواندگی کی شرح شرمناک حد تک گری ہوئی ہو، جمہوری روایات کمزور ہوں وہاں پاپولسٹ اور جذبات انگیز راہنماؤں کے لیے ماحول بہت سازگار ہوتا ہے۔ اگر ہم نے اس سطحی نعروں اور بے بنیاد دعووں کو نہیں پہچانا تو ہماری نسلیں بھی بقول استاذی وجاہت مسعود ”اس ہجوم میں شامل ہو جائیں گے جس کی قسمت میں وزیر آباد کا مقتول معظم نواز، لاہور کا ظل شاہ اور گزشتہ ہفتے مارے جانے والے درجن بھر گمنام شہری ہونا لکھا ہے۔ ایں خانہ ہمہ ’خوناب‘ است۔“

بحیثیت قوم ہمارا رویہ ہی ’خوناب‘ اور ’آفتاب‘ کا فیصلہ کرے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments