کیا بطور پاکستانی مجھے سیاسی حقوق حاصل نہیں؟


آئین کسی بھی شہری اور ریاست کے درمیان بندھن کا نام ہے۔ جس کے تحت دونوں کے حقوق و فرائض کا تعین کیا جاتا ہے۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان میں گزشتہ 13 مہینوں سے بنیادی سیاسی حقوق کی خلاف ورزیاں جاری ہے۔ راقم جو کہ پولیٹیکل فلسفہ میں پی ایچ ڈی استاد ہونے کے ساتھ پولیٹیکل ورکر اور لکھاری بھی ہے۔ راقم الحروف کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کو ہر ہفتے بند کیا جاتا ہے۔ اخبارات میں آرٹیکلز کی اشاعت بند کر دی گئی ہے۔

صرف ڈیجیٹل فورم ہی ہے۔ جہاں میری آواز کی اشاعت ممکن ہے۔ باقی کسی بھی فورم حتیٰ کہ پاکستان تحریک انصاف کے آفیشل ویب سائٹ نے بھی میری تحریروں کی اشاعت سے معذرت کرلی ہے۔ حالانکہ بطور شہری آئین کے مطابق دیے گئے حقوق کے مطابق رائے کا اظہار میرا قانونی حق ہے۔ جس پر قدغن نہیں لگایا جا سکتی۔ تو ہم بات کر رہے تھے۔ آئین اور شہری کے درمیان رشتے کے حوالے۔ 1973 آئین کے مطابق ہر پاکستانی شہری کو بنیادی سیاسی حقوق حاصل ہیں۔

آرٹیکل 3 کے مطابق مملکت استحصال کے تمام اقسام کا خاتمہ ممکن بنائے گی۔ ہر بندے سے ان کی اہلیت کے مطابق کام لیا جائے گا۔ لیکن یہاں چاپلوسی کرنے والوں کو نوازا جاتا ہے۔ اس وجہ سے ادارے تباہ ہیں۔ استحصالی نظام کے خاتمے سے انسانی عزت نفس مجروح نہیں ہوتی۔ انسانی ترقی اس وقت ممکن ہے جب ہر انسان کو ان کی صلاحیتوں کے مطابق کام کی اجازت ہو اور ان سے ان کی اہلیت کے مطابق کام لیا جائے۔ آئین پاکستان کا آرٹیکل 4 کہتا ہے کہ ہر شہری کا بنیادی حق ہے کہ اس کے ساتھ قانون کے مطابق سلوک کیا جائے۔

خصوصاً کوئی ایسی کارروائی نہ کی جائے جو کسی شخص کی جان، آزادی، جسم، شہرت یا املاک کے لئے مضر ہو۔ صرف اگر ہم گزشتہ تیرہ مہینوں پر نظر دوڑائیں تو کتنے معصوم لوگوں کے خلاف صرف سیاسی بنیادوں پر مقدمات قائم کیے گئے ہیں۔ صرف 9 اور 10 مئی 2023 کے دو دنوں میں سینکڑوں لوگوں کے خلاف غیر قانونی کارروائیاں کی گئی۔ حتی کہ عورتوں اور بچوں کو بھی معاف نہیں کیا گیا۔ جو کہ آرٹیکل 4 کی صریح خلاف ورزی ہے۔ جو آئین پاکستان کے تحت دیے گئے حقوق کی نفی ہے۔

آئین پاکستان کا آرٹیکل 9 بہت زیادہ اہم ہے۔ اس آرٹیکل کے مطابق کسی بھی شخص کو زندگی یا آزادی سے محروم نہیں کیا جائے گا سوائے جبکہ قانون اس کی اجازت دے۔ تو کیا آج پاکستان میں شہریوں کو قانون کے مطابق زندگی گزارنے کی آزادی ہے۔ بطور ایک شہری گزشتہ تیرہ مہینوں سے مجھ سے یہ آزادی چھین لی گئی ہیں۔ گزشتہ دنوں اسلام آباد میں تحریک انصاف کے ورکروں کو دفعہ 144 کی آڑ میں چیف جسٹس آف پاکستان کے ساتھ اظہار یک جہتی کی پرامن ریلی کی اجازت نہیں ملی جبکہ پی ڈی ایم حکومتی اتحاد کو ریڈ زون میں نہ صرف جلسے بلکہ چیف جسٹس آف پاکستان کے خلاف دھرنے کی بھی اجازت اور سہولت دفعہ 144 کے باوجود ملی۔ آج میں اسلام آباد میں گاڑی پر تحریک انصاف کا جھنڈا تک نہیں لہرا سکتا ہوں۔ کیوں میں اپنے سیاسی نظریات کا اظہار نہیں کر سکتا ہوں؟ کیا یہ آزادی ہے؟ کیا یہ آرٹیکل 9 کی خلاف ورزی نہیں؟

آرٹیکل 10 کے تحت منصفانہ سماعت کا حق ہر شہری کو حاصل ہے۔ کسی بندے کو جسے گرفتار کیا گیا ہو، مذکورہ گرفتاری کی وجوہ سے، جس قدر جلد ہو سکے، آگاہ کیے بغیر نہ تو نظر بند رکھا جائے گا اور نہ اسے اپنی پسند کے کسی قانون پیشہ شخص سے مشورہ کرنے اور اس کے ذریعہ صفائی پیش کرنے کے حق سے محروم کیا جائے گا۔ ہر اس شخص کو جسے گرفتار کیا گیا ہو اور نظر بند رکھا گیا ہو، مذکورہ گرفتاری سے چوبیس گھنٹہ کے اندر کسی مجسٹریٹ کے سامنے پیش کرنا لازم ہو گا۔

لیکن 9 اور 10 مئی کو سینکڑوں پی ٹی آئی ورکروں کو غائب کر دیا گیا۔ کسی بھی عدالت میں پیش نہیں کیا جا رہا ۔ بلکہ پاکستان کے ایوان بالا سینیٹ کے رکن فلک ناز چترالی، سابق وفاقی وزیر شیریں مزاری کو ہائی کورٹ کے حکم کے باوجود بھی رہا نہیں کیا جا رہا ہے اور نہ ان کے خاندان والوں کو ان کے بارے میں پتہ ہے کہ وہ کس جرم کی پاداش میں کس عقوبت خانے میں پابند سلاسل ہے۔ سب سے دلچسپ آرٹیکل 13 ہے جس کے مطابق کسی شخص پر ایک ہی جرم کی بناء پر ایک بار سے زیادہ نہ تو مقدمہ چلایا جائے گا اور نہ سزا دی جائے گی۔

پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف ایک ہی نوعیت کے مقدمات مختلف تھانوں میں درج ہیں۔ صرف عمران خان نہیں۔ بلکہ سیاسی ورکروں کے خلاف درجنوں جعلی مقدمات درج کیے گئے ہیں۔ شہباز گل کے خلاف ہر صوبے میں ایک ہی الزام کے تحت بغیر تحقیق کے سینکڑوں مقدمات قائم کیے گئے تھے۔ جو کسی سیاسی حکومت میں ممکن نہیں۔ آئین پاکستان کا آرٹیکل 15 ہر شہری کو حق دیتا ہے کہ وہ پاکستان کے ہر حصے میں آزادانہ نقل و حرکت کرنے اور اس کے کسی حصے میں سکونت اختیار کرنے اور آباد ہونے کا حق دار ہو گا۔

تو کس قانون کے تحت پنجاب اور سندھ میں مقیم پشتون قبائل کو تنگ کیا جا رہا ہے۔ 9 اور 10 مئی کے واقعات میں صرف اسلام آباد میں سینکڑوں پشتونوں کے خلاف ایف آئی آرز درج ہیں۔ کیا وفاقی دارالحکومت میں پشتونوں کو رہنے کا حق حاصل نہیں۔ پشتونوں کے گھروں پر چھاپے مارے جا رہے ہیں۔ پشتونوں کے کاروباروں کو بند کیا جا رہا ہے۔ آرٹیکل 16 کے تحت ہر شہری کو پرامن طور پر اور اسلحہ کے بغیر جمع ہونے کا حق ہو گا۔ لیکن گزشتہ تیرہ مہینوں سے مجھ سمیت لاکھوں پاکستانیوں سے یہ حق چھین لیا گیا ہے۔

پرامن احتجاج ہمارا آئینی حق ہے۔ لیکن ہمیں یہ حق نہیں دیا جا رہا ہے۔ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں گزشتہ 13 مہینوں سے دفعہ 144 نافذ ہے۔ آئین پاکستان کے آرٹیکل 17 کے مطابق ہر شہری کو انجمن یا یونین بنانے کا حق حاصل ہو گا۔ ہر شہری کو کوئی سیاسی جماعت بنانے یا اس کا رکن بننے کا حق ہو گا۔ لیکن پھر کیوں پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف کو کالعدم قرار دینے کی کوششیں ہو رہی ہے۔ کیوں تحریک انصاف کے ورکروں کو تنگ کیا جا رہا ہے۔

یہ شہری کا بنیادی حق ہے کہ وہ کسی بھی سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کر سکتے ہیں۔ تو زبردستی کیوں خفیہ اداروں کے ذریعے سے تحریک انصاف کے ورکروں کو تھوڑا جا رہا ہے۔ سب سے اہم آرٹیکل 19 کہتا ہے کہ ہر شہری کو تقریر اور اظہار خیال کی آزادی کا حق ہو گا، اور پریس کی آزادی ہوگی۔ لیکن گزشتہ تیرہ مہینوں سے مجھے اس بنیادی حق سے محروم رکھا گیا ہے۔ میرے آئین کے تحت دیے گئے سیاسی حقوق کی خلاف ورزیوں کے ذمہ دار کون ہے؟

مجھے کیوں بنیادی سیاسی حقوق سے محروم رکھا گیا؟ مجھے کیوں اظہار رائے کی آزادی حاصل نہیں؟ مجھے کوئی سیاسی بحث و مباحثہ کی اجازت نہیں؟ میں کیوں پرامن احتجاج نہیں کر سکتا ہوں؟ مجھے کیوں سیاسی نظریات کے اظہار کا موقع نہیں دیا جاتا ہے؟ مجھے کیوں دیوار سے لگایا جا رہا ہے؟ مجھے میری حب الوطنی کی سزا کیوں دی جا رہی ہے؟ آئین پاکستان کے تحت دیے گئے سیاسی حقوق کو میں کیوں استعمال نہیں کر سکتا ہوں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments