ماسٹر حیدر بخش نے انگریزی کیسے پڑھائی؟


چھٹی جماعت میں ہوئے تو انگریزی کا ہم سے پہلی بار تعارف کروایا گیا، اس پہلے تعارف میں ہی ہمیں اس کے رویے میں سرد مہری اور آنکھوں میں بے اعتنائی واضح طور پر دکھائی دی۔ تب ہمیں یوں لگا جیسے یہ انگریزی کا مضمون نہیں بلکہ خوبرو انگریزی میم ہے جو مجھ ایسے اجڈ دیہاتی کے مقابل سمٹ سمٹ جاتی ہے۔

صاحبو! ہم نے اس بے مروت سے آشنائی پیدا کرنے اور اس کی خم دار زلف کو سنوارنے کے ہزار جتن کیے مگر بے سود۔ کئی بار تو ہم نے راتوں کر اٹھ اٹھ کر بھی اس کو منانے کی کوشش کی مگر اس بد طینت کے پایہ ثبات میں ذرا لغزش نہ آئی۔ اس عالم میں دوسرے تمام مضامین کا کسی حد تک پلے پڑ جانا بھی چنداں تشفی کا باعث نہ تھا کہ ان سے تو ہماری برسوں کی آشنائی تھی جبکہ یہ حسن نوروز ہم سے رخ پھیرے بیٹھی تھی۔

اس صورتحال میں کئی بار تو طبیعت ایسے بھرا گئی کہ اس جفا کیش سے تادم زیست کلام نہ کرنے کا عہد باندھ لیا مگر عین اگلے ہی روز ماسٹر حیدر بخش کے چلتے تمام عہد و پیمان بھلا کر ایک بار پھر اپنی طرف سے پاس وفا نبھانے میں جت جاتے۔

ماسٹر حیدر بخش تقریباً روز ہی انگریزی پڑھانے سے قبل اس مضمون کی پیچیدگی و خم داری پر ایسا وسیع و عریض لیکچر دیتے جس کے طفیل مجھ سمیت میرے قبیل کے دیگر شاگردان کے اعصاب شل ہو جاتے اور ہمارا یقین محکم ہوتا چلا جاتا کہ اس جفا سرشت کے ساتھ ہماری لائن سیدھی ہونے والی نہیں۔ بالفاظ دیگر وہ یہ کہتے تھے کہ بڑے بڑے رانجھے آئے مگر اس ہیر نے کسی کو لفٹ نہیں کرائی تم تو خیر کس باغ کی مولی ہو۔ اس پر مستزاد یہ کہ ماسٹر جی پڑھاتے کم اور ٹیسٹ زیادہ لیتے تھے اور حسب معمول کچھ نہ آنے پر سب کی باجماعت درگت بناتے۔ ماسٹر جی انگریزی پڑھانے کے لیے ایسے گر استعمال کرتے جو کم از کم ہم پر کارگر ثابت نہیں ہوتے تھے۔ اس کا نتیجہ تھا کہ سارا دن کے کھپ کھپیے اور لتر پولے کے بعد حاصل حصول کچھ بھی نہیں۔

جس دن ماسٹر حیدر بخش چھٹی پہ ہوتے، اس دن کلاس میں عید کا سا سماں ہوتا تھا، یہ الگ بات کہ یہ خوشی سال میں دو ایک بار ہی دیکھنا نصیب ہوئی تھی۔ مگر اس آواز کی رعنائی بھلائے نہیں بھولتی جس میں ماسٹر جی کے نہ آنے کی خبر پنہاں ہوتی تھی۔ ایک دن ماسٹر جی نے کلاس کو بتلایا کہ گزشتہ کل انھوں نے اس وجہ سے چھٹی کی تھی کہ ان کے عزیزوں میں ایک نوجوان کو فوڈ پوائزنگ ہوئی اور وہ آن کی آن میں ملک عدم کوچ کر گیا، تب نجانے کتنی دیر ہمیں یہ خیال کچوکے لگاتا رہا کہ ماسٹر جی بھی تو روزانہ کچھ نا کچھ کھاتے ہی ہیں۔

کبھی جو بھولے سے ایک آدھ لفظ ہمیں یاد ہوجاتا تو ماسٹر جی ہمیں شک بھری نگاہوں سے دیکھتے ہوئے فرماتے ”ہوں رٹا تو مار لیا ہے اب لکھ کے دکھاؤ تو جانوں“ ۔ اس تذبذب کے عالم میں ایک خیال بجلی کی طرح دماغ پر کوند جاتا کہ ہمارے اور انگریزی کے مابین اگر کوئی واحد رکاوٹ ہے تو وہ ہیں ماسٹر حیدر بخش۔ اگر یہ راستے سے ہٹ جائیں تو اس پھیکی کہانی میں ٹوسٹ آ سکتا ہے مگر نہ تو وہ راستے سے ہٹے اور نہ کہانی میں ٹوسٹ آیا۔

بڑے بھائی جو میرے تعلیمی معاملات کے بارے میں کسی حد تک متفکر رہتے تھے، انھیں ایک دن معمولی سی پوچھ تاچھ سے معلوم پڑ گیا کہ باقی سارے مضامین میں بالعموم اور انگریزی میں بالخصوص ہماری حالت نہایت پتلی ہے۔ انھوں نے فکرمندی کے عالم میں ماسٹر حیدر بخش سے مشورہ کیا تو انھوں نے تمام مسائل کا جو ایک حل تجویز کیا وہ تھا ”ٹیوشن“ ۔ اس تجویز نے تو ہمیں اور زیادہ رنجیدہ کر دیا کہ اب ہمیں مزید دو گھنٹے روزانہ کے لیے ماسٹر جی کے حوالے کرنے کی تیاریاں ہو چکی تھیں۔

ماسٹر حیدر بخش کے پرانے مکان کی بیٹھک میں تین چار لکڑی کی کرسیاں دیوار سے لگی رکھی تھیں اور عین وسط میں ایک موٹی دری بچھی ہوئی تھی جس پر طلباء بیٹھ کر استاد جی سے ٹیوشن پڑھتے تھے۔ عصر کی نماز کے بعد یہ بیٹھک بچوں سے بھر جایا کرتی تھی۔ بالفاظ دیگر جو کچھ کمی بیشی سکول کے چھے یا سات گھنٹوں میں رہ جاتی تھی، ٹیوشن پہ آ کر اس کو پورا کیا جاتا تھا۔ پہلے دن جب میں ڈرتے، جھجکتے ہوئے ٹیوشن پر پہنچا تو دیکھا کہ وہاں تو ہوبہو ماسٹر حیدر بخش جیسے کوئی اور استاد بیٹھے بچوں کو پڑھا رہے تھے، وہ بڑے شگفتہ لہجے میں، مسکرا کے بچوں سے بات کر رہے تھے۔

کبھی کبھی تو ان کا ہلکا سا قہقہہ بھی فضا میں بلند ہوجاتا تھا، وہ بچوں کی کاپیوں پر موجود غلطیوں کو بڑی نرمی و شفقت سے درست کروا رہے تھے، دری کے پچھلے کناروں پہ بیٹھے بچوں کی شرارتوں کو دیکھ لینے کے باوجود بڑی وسعت قلبی کے ساتھ نظر انداز کر رہے تھے، کسی بچے کے سوال پر کوئی قدغن نہ تھی۔ پہلے پہل تو مجھے یوں لگا جیسے یہ ماسٹر حیدر بخش نہیں کوئی اور ہیں کہ سکول کے اوقات میں انگارے بکھیرتی زبان باغ و بہار ہو گئی تھی، غیض و غضب کے تیر برساتی نگاہوں سے محبت کی پھوار برس رہی تھی، پتھر کی طرح سخت لہجے میں گلابوں کی سی نرمی در آئی تھی۔

چند ہی روز کی بات تھی کہ ہمیں یوں لگنے لگا کہ جیسے ہمارے اور انگریزی کے مابین جو اکلوتی رکاوٹ تھی وہ دور ہونا شروع ہو گئی ہے، اس نے ہمیں تھوڑی تھوڑی لفٹ کروانا شروع کردی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments