حق اگہی۔ جمہوری حکومتوں کی شکست و ریخت اور نو آبادیاتی نظام کے باعث عوام حق آگہی سے محروم رہ جاتے ہیں اور سیاسی عمل کا حصہ نہیں بن پاتے۔ یہی وجہ ہے کہ عوام اور عوامی نمائندے، خواہ وہ جمہوری ہوں یا غیر جمہوری ان کے درمیان خلیج حائل رہتی ہے۔ نوکر شاہی کا مزاج ہے کہ وہ صرف انہی باتوں کے لیے جواب دہ ہوتی ہے جن کا وہ جواب دینا چاہتی ہے نیوز چینلز کی بھرمار اس بات کا بین ثبوت ہے کہ لوگوں میں سچائی کو جاننے کی تڑپ اور جستجو پوری آب و تاب کے ساتھ موجود ہے۔

جب لوگ اپنے حقوق کی بابت جان جاتے ہیں تو حالات حاضرہ سے آگاہ ہونے کے ساتھ ساتھ اس کا براہ راست اثر ان کی زندگی پر بھی پڑتا ہے۔ اگر آپ دیکھیں کہ لوگوں میں آگہی کی کتنی جستجو ہے تو آپ نیوز چینلز کی ریٹنگ دیکھیں کہ لوگ انہیں کتنے شوق سے دیکھتے ہیں لیکن جب سوال آتا ہے ان کی اپنی ذات کا تو انہیں معلوم ہوتا ہے کہ ان کے حقوق کیا ہیں۔ وہ نہیں جانتے کہ زیادتیوں کو کیسے روکا جاسکتا ہے لوگ اپنے بنیادی حقوق کے حصول کا طریقۂ کار بھی نہیں جانتے۔

آئین کا آرٹیکل 19/ A اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ ملک کا ہر شہری حق آگہی رکھتا ہے۔ عوامی مفاد سے متعلق تمام امور جاننے کے حق کے ساتھ آئینی دائرۂ کار میں رہتے عوامی مفاد اور اہمیت کے تمام امور تک رسائی حاصل کرسکیں۔ حق آگہی یا جاننے کے حق کی ایک طویل تاریخ ہے۔ 1776 میں سویڈن میں سب سے پہلے اس قانون کو متعارف کروایا گیا۔ دو صدیوں کے بعد 1946 میں اقوام متحدہ نے حق آگہی اور آزادیٔ اظہار رائے کو عوام کا بنیادی حق تسلیم کیا۔

پاکستان میں 2000 میں اسے انسانی حقوق کے طور پر تسلیم کیا گیا۔ یہ خیال سب سے پہلے 1990 میں پیش کیا گیا۔ پاکستان کو بھی یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ اس حق کو تسلیم کرنے والا جنوبی ایشیا کا پہلا ملک ہے۔

پاکستان میں حق آگہی کی تاریخ: جماعت اسلامی کے نائب امیر نے یہ بل سینیٹ میں ایک پرائیویٹ بل کے طور پر پیش کیا جسے مسترد کر دیا گیا۔ 1994 میں سینیٹ کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں سینیٹر ملک قاسم کی سربراہی میں حق آگہی بل کو ایک ڈرافٹ کے طور پر پیش کیا گیا جسے نوکر شاہی نے ایک بار پھر قانون بننے سے روک دیا۔

29 جنوری 1997 میں اس وقت کی نگراں حکومت کے وفاقی وزیر قانون جناب جسٹس فخر الدین جی ابراہیم نے ملک معراج خالد کی سربراہی میں حق آگہی بل کو ایک قانون کی شکل دے دی۔ 1997 میں میاں نواز شریف کی حکومت نے اسے مسترد کر دیا۔ 2000 میں جنرل پرویز مشرف کے دور اقتدار میں حق آگہی بل کو لوگوں کی آراء قرار دیا گیا۔ 2001 میں سی آر سی پی نے جو ایک غیر حکومتی تنظیم ہے، اس ضمن میں عوامی آگہی کے لیے ایک منظم مہم کا آغاز کیا۔

2002 میں مشرف دور میں حق آگہی کو ایک آرڈیننس کی شکل دی گئی۔ اور اکتوبر 2002 میں اسے نافذ کر دیا گیا۔ لیکن یہ آرڈیننس صرف وفاق تک محدود رہا۔ صوبائی اور مقامی حکومتوں پر اس کا اطلاق نہیں کیا جا سکا۔ 2004 میں حق آگہی آرڈیننس کے قانون میں تیزی آئی۔ 2005 میں بلوچستان میں حق آگہی ایکٹ پاس کیا گیا اور 2006 میں سندھ میں بھی اسے منظور کر لیا گیا۔ 2013 میں کے پی میں اسے قانون کی شکل دے دی گئی جبکہ صوبۂ پنجاب میں اسے آرڈیننس کا نام دیا گیا۔

اسی برس میں پنجاب ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل اور آر ٹی آئی بل 2013 کو پاس کیا گیا۔ جبکہ گورنر پنجاب کی جانب سے اسے قانونی دستاویز تسلیم کیا گیا۔ 2014 میں سندھ اور پنجاب میں اس قانون کو مزید بہتر بنانے کی کوششیں جاری ہیں۔ اگر لوگوں کو یہ معلوم ہو جائے کہ انہیں جاننے کا حق ہے اور وہ اپنی پسند کے نمائندے منتخب کروانے میں بھی آزاد ہیں اور انہیں ایوانوں میں بھیجنے کے بعد ان کا احتساب کرنے کا بھی حق رکھتے ہیں یہی نہیں بلکہ اس بات پر بھی مجبور کر سکتے ہیں کہ بوقت ضرورت انہیں عوام کے کٹہرے میں لایا جاسکتا ہے۔

(Freedom of information) ایف او آئی معلومات کے حصول کا قانون ہے جب لوگ معلومات کے حصول میں کامیاب ہوجائیں تو پھر اپنے اس حق کو استعمال کریں۔ اس کی رو سے لوگوں کو مطلوبہ معلومات کی فراہمی ممکن بنائی جاتی ہے اس میں یہ جان پاتے ہیں کہ شکایات کس طرح درج کروائی جاتی ہیں اور اس کا کیا طریقۂ کار ہے اس قانون سے ہر شخص مستفید ہو سکتا ہے۔ کچھ معلومات ایسی ہیں جن سے اداروں کو مستثنیٰ قرار دیا جاتا ہے۔ مثلاً ملکی دفاع اور قانون بنانے کی عملداری اور ایک شہری کی نجی زندگی سے متعلق کسی فرد یا ادارے کو جاننے کا حق بھی مستحسن قرار نہیں دیا جاتا۔

کچھ معلومات ایسی بھی ہیں جنہیں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے ادارے تنقید کا نشانہ بناتے ہیں ان کا موقف ہے کہ حکومتیں بروقت عوام کو انصاف فراہم کرنے اور انہیں درست معلومات کے حصول کو ممکن بنانے کی پابند ہیں۔ جبکہ حکومتی نمائندے عوام کو درست معلومات مہیا نہ کرسکیں تو انہیں سزائیں بھی دی جانی چاہئیں۔ حق رائے دہی دراصل جمہوری حکومتوں میں عوام کو حاصل ہونے والا بنیادی حق ہے۔ جس کی مدد سے وہ اپنے ووٹ کا استعمال کرنے کے اہل ہوسکتے ہیں۔

یہ صرف میڈیا کے نمائندوں کے لیے نہیں بلکہ عام لوگوں کے لیے بھی ہے لوگوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ حکومت کیا کر رہی ہے۔ وہ پیسہ کہاں خرچ کر رہی ہے کن لوگوں کو ٹھیکے دے رہی ہے۔ یہ ایک طریقۂ کار ہے کہ جس سے ہر شخص جان سکتا ہے کہ کیا ہو رہا ہے۔ وزارتوں، محکموں، عدالتوں اور تنظیموں میں کیا ہو رہا ہے یہ ایک شفاف عمل ہے جس کا تعلق عام آدمی کے معاملات سے ہے۔ کوئی بھی عام آدمی کسی بھی سرکاری محکمے سے کسی بھی قسم کا ریکارڈ اور معلومات حاصل کر سکتا ہے۔

آگہی مہم نہایت اہم ہے اور یہ بنیادی قانون ہے کہ لوگوں تک معلومات کی رسائی آسان بنائی جائے جو عام آدمی سے تعلق رکھتی ہے۔ جو خواتین کے حقوق کو بھی یقینی بناتی ہے یہ قانون حکومت مختلف طریقوں سے مشتہر کر سکتی ہے۔ ٹاک شوز کے ذریعے یا کسی اشتہاری مہم کی مدد سے اسے متعارف کروایا جاسکتا ہے۔ یہ حکومت کی ذمے داری ہے کہ وہ ایسے قوانین بنائے جس سے عام آدمی کی بھلائی ہو۔ حکومت کو چاہیے کہ اپنی ذمے داریوں پر عمل کرے اور اس میں تاخیر نہ کرے ایسے لوگوں کو بھرتی کیا جائے جو اکیس دن میں درست معلومات بہم پہنچائیں۔

اس ضمن میں قانون کو بدلنا چاہیے اور ایسے دیانتدار لوگوں کو سامنے لائیں جیسے بھارت میں ہوا اور جسے سی، پی، ڈی، آئی نے بھی پیش کیا اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ اگر متعلقہ محکموں کے اہلکار عوام کو درست معلومات مہیا نہ کرسکیں تو انہیں قانون کے مطابق سزائیں بھی دی جاسکیں۔ حق آگہی یا جاننے کا حق، وہ حق ہے جس کی رو سے من حیث المجموعی اسے مفاد عامہ کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے اس کا طریقہ ء کار بھی آسان ہے۔

سب سے پہلے ہمیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ ہم کیا جاننا چاہتے ہیں۔ ہمیں کسی بھی ادارے، محکمے یا وزارت میں کس کے پاس جاکر اپنا مسئلہ بیان کرنا ہے۔ ہمیں کون متعلقہ معلومات بہم پہنچا سکتا ہے۔ ان تمام کو جاننے کے بعد ہمیں ایک پچاس روپے مالیت کا فارم پر کرنا ہوتا ہے جس کا چالان نیشنل بینک میں جمع کروا سکتے ہیں۔ شناختی کارڈ کی فوٹو کاپی بھی اپنے مسئلے یا درخواست کے ساتھ منسلک کرنا ہوتی ہے۔ اگر ہمیں اکیس دن میں جواب نہ ملے تو متعلقہ ادارے کے سر براہ کو یاد دہانی کے لیے تحریری درخواست داخل کی جا سکتی ہے۔

اگر متعلقہ شعبے کا سربراہ تیس دن میں جواب نہ دے تو وفاقی، صوبائی اور ٹیکس محتسب سے بھی رابطہ کیا جاسکتا ہے۔ اور اگر محتسب بھی شنوائی نہ کرے تو انصاف کے لیے عدالتوں کا دروازہ بھی کھٹکھٹایا جاسکتا ہے۔ معلومات حاصل کرنے ضروری ہدایات۔

نمبر ایک: اس بات کو یقینی بنائیں کہ آپ کی درخواست درست محکمے تک پہنچے۔
نمبر دو : اپنا مسئلہ یا معلومات جو آپ کو درکار ہیں اس کا پبلک ریکارڈ اور مدت بتانا بھی ضروری ہے۔
نمبر تین: عام معلومات سے متعلق سوال نہ پوچھے جائیں، یعنی وہ معلومات جن کا تعلق لوگوں کی ذاتی آراء سے ہو۔

نمبر چار: سوال یا معلومات کی نوعیت مخفی یا مبہم نہیں ہونی چاہیے
نمبر پانچ:ایک درخواست میں صرف ایک ہی سوال پوچھا جاسکتا ہے۔
نمبر چھ: جب آپ اپنی درخواست کو جمع کروا دیں تو رسید ضرور حاصل کریں۔ جس پر آپ کی درخواست کی تاریخ درج ہو، اور اسے سنبھال کر رکھیں۔

وزارت دفاع کو درخواست دی گئی ہے کہ حکومت پاکستان کی جانب سے آرمی ویلفیئر ٹرسٹ کو لیز کیے جانے والے پلاٹس کی تفصیلات فراہم کی جائیں۔ کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے مینیجنگ ڈائریکٹر کو درخواست دی گئی کہ اہل کراچی کو مہیا کیے جانے والے پانی کی تفصیلات فراہم کی جائیں۔

موجودہ دور میں معلومات حاصل کرنے میں دو مسائل درپیش رہتے ہیں ایک بڑا مسئلہ تو حکومت کا عام آدمی کے ساتھ معلومات کا تبادلہ نہ کرنا ہے۔ اور دوسرا مسئلہ ریکارڈ کو محفوظ نہ رکھنے کا ہے۔ ریکارڈ اور معلومات کو محفوظ رکھنے کے فرسودہ طریقۂ کار نے مشکلات میں اضافہ کیا ہے۔ چیزوں کو چھپا کر رکھنا اور معلومات کو متعلقہ لوگوں تک پہنچانے سے ہر کوئی ڈرتا ہے۔ یہ معاملہ دونوں متعلقین کے ساتھ ففٹی ففٹی والا ہے۔ یعنی ایک رواج ہے کہ چیزوں یا معلومات کو چھپائے رکھو اور دوسرا محکموں میں صلاحیت ہی نہیں کہ ان سے درست معلومات کے بارے میں سوال کیا جا سکے۔

شفافیت کی عدم موجودگی نے بے اعتباری اور شکوک کے کلچر کو جنم دیا ہے۔ جس نے دھیرے دھیرے ایک سرطان کی شکل اختیار کرلی ہے۔ جس سے جمہوری کلچر پروان نہیں چڑھ سکا ہم ایک تیز رفتار دور میں جی رہے ہیں۔ جس میں چھوٹی چھوٹی چیزوں کو یکجا کرنا مشکل ہو گیا ہے ماضی میں حکومتیں جس طرح معاملات کو چلاتی رہیں اب یہ طریقہ نہیں چل سکتا۔ اگہی کا حصول احساس ذمہ داری کے ساتھ مشروط ہے اپنے حقوق کو ذمے داری کے ساتھ جاننا صرف رابطوں کو بہتر بنانے سے ہی ممکن ہو سکتا ہے اور جب تک ہم جانیں گے نہیں، معلومات کا حصول ممکن نہیں ہو گا۔