افسانہ: انکشاف، قسط نمبر 1۔
”اے اللہ! اس میت کے سب گناہ فرما۔ اے اللہ! ہمیں موت سے پہلے موت کی تیاری کرنے کی توفیق عطا فرما“ امام مسجد نے عبدالشکور کے بیٹے کو سپرد خاک کرنے کے بعد جب دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے، تو ہر آنکھ اشکبار تھی۔ دعا کے بعد تمام لوگ عبدالشکور سے رسماً ملے اور پھر ایک ایک کر کے ستر سالہ عبدالشکور کو وہیں چھوڑ کر جب رخصت ہو گئے، تو وہ ایک لاچار اور بے بس انسان کی طرح اپنے اکلوتے جواں سالہ بیٹے کی قبر کے سرہانے غم کی تصویر بنے بیٹھ گیا۔ اس نے ایک خشک ٹہنی ہاتھ میں پکڑی اور پھر قبر کی مٹی کو جب کریدنا شروع کیا تو بیٹے کی زندگی سے جڑے تمام واقعات رفتہ رفتہ آنکھوں کے سامنے یوں نمودار ہو گئے، جیسے وہ کل کی بات ہو۔
اگرچہ اس سے قبل وہ اسی قبرستان میں اپنے ہاتھوں اپنی بیوی اور بیٹی کی میت اتار چکا تھا، مگر آج بیٹے کی قبر کے سرہانے جس حال میں وہ کھڑا تھا، ویسی حالت پہلے کبھی بھی نہیں ہوئی تھی۔ وہ ایک ایسے درخت کی طرح محسوس ہو رہا تھا، جس کا تنا خشک اور جڑیں سوکھ چکی ہوں اور جو گرنے کے لئے بس معمولی سے ہوا کے جھونکے کا محتاج ہو۔ ”اے کاش! میں نے شہاب احمد کی بات مان لی ہوتی اور تجھے ہسپتال لے گیا ہوتا، تو آج شاید تو اس قبر کی بجائے میرے پاس ہوتا۔“ ۔ وہ بیٹے کی قبر پہ ہاتھ ملتا ہوا، آنسو بہا رہا تھا اور ساتھ ہی اپنی بربادی پہ ماتم کر رہا تھا۔
یہ عصر کا وقت تھا اور پرندوں کے جھنڈ تمام دن دانا دنکا چگنے کے بعد ، اب واپس اپنے گھونسلوں میں جا رہے تھے۔ جبکہ قبرستان کے مغربی کنارے سے سورج اب افق کی جانب سفر کرتا ہوا، تیزی سے غروب ہوتا جا رہا تھا۔ ایک پراسرار سی خاموشی اور وحشت کا عالم تھا، اور یوں محسوس ہوتا تھا کہ گویا پورا قبرستان شہاب احمد کے غم میں ڈوبا ہوا ہے۔ عبدالشکور کے بیٹے کی لحد کے ساتھ ہی، اس کی بیوی ریحانہ کی قبر تھی، جس پہ اب گھاس کافی بڑی ہو چکی تھی۔ وہ ایک نظر کبھی اپنے بیٹے کی قبر کو دیکھتا، تو دوسری نظر اپنی شریک حیات کی قبر پہ ڈالتا، جس کی روح آج جواں سالہ بیٹے کی موت کا دکھ منا رہی ہوگی اور وہ بھی عبدالشکور کی مانند ایسے ہی دکھی اور بے چین ہوگی۔
”اب یہاں کس لئے بیٹھے ہو بابا؟ وہ اب واپس نہیں آئے گا۔ چلو اٹھو اور گھر چلو“ ۔ اصفہان جو عبدالشکور کا پڑوسی اور شہاب احمد کا دوست تھا، اس نے بابا کو کندھے سے جب جھنجھوڑا، تو عبدالشکور کو ایک جھٹکا سا لگا۔ اصفہان ایک بتیس برس کا نوجوان، جو کالج میں پروفیسر تھا اور ایک سلجھا ہوا سمجھدار انسان تھا۔ اس کی آنکھوں میں عزم کی روشنی اور خیالات میں رسم و رواج سے بغاوت چھلکتی تھی۔ وہ ہر روز کالج سے واپس آنے کے بعد ، کچھ دیر گھر آرام کرتا اور پھر شہاب احمد کی تیمارداری کرنے عبدالشکور کے گھر آ جاتا، جہاں وہ شہاب احمد کو دن بھر کے احوال سنانے کے ساتھ ساتھ، عبدالشکور کی گھر کے کاموں میں ہاتھ بٹاتا۔ آج مگر شہاب احمد اپنے گھر میں نہیں بلکہ قبرستان منتقل ہو چکا تھا، جہاں اس کی ابدی آرام گاہ بن چکی تھی اور وہ سکون سے قبر میں لیٹ کر آرام کر رہا تھا۔
آج شہاب احمد کو قبرستان میں دفن کرنے کے بعد ، عبدالشکور کو جب سب عزیز و اقارب چھوڑ گئے، تو ایسے میں اصفہان ہی وہ واحد سہارا تھا، جو عبدالشکور کے پاس قبرستان میں موجود تھا۔ اگرچہ اس کو گھر میں ضروری امور بھی نبٹانے تھے، اور وہ بھی دعا مانگنے کے ساتھ ہی قبرستان سے نکلنا ہی چاہتا تھا، کہ اچانک اس نے جب مڑ کر دیکھا کہ عبدالشکور اپنے بیٹے کی قبر پہ تنہا بیٹھا اشک بہا رہا ہے، تو اس نے گھر جانے کا خیال ترک کر دیا اور بابا کے پاس اس کی دلجوئی کے لئے واپس آ گیا۔
یہ شہر کا سب سے قدیم قبرستان تھا، جہاں پہ اب اکا دکا قبروں کی جگہ ہی خالی رہ گئی تھی۔ اگرچہ کاغذات کے مطابق اس کا رقبہ پانچ سو کنال تھا، مگر قبضہ مافیا کے ہاتھوں اب سکڑتے سکڑتے محض ڈیڑھ سو کنال تک محدود ہو چکا تھا۔ یہاں کئی قبریں ایسی تھیں، جو شاید مغلیہ زمانے کی یادگار تھیں، اور کچھ انگریزوں کے وقت کی۔ ان میں سے بعض قبور کی حالت سے یہ اندازہ ہوتا تھا کہ، صاحب قبر کوئی متمول ہستی تھی، جس کے مرنے کے بعد اس کی اولاد نے قبر کو یادگار اور خوبصورت بنانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی تھی، مگر امتداد زمانہ کے ہاتھوں گور غریباں کا منظر پیش کر رہی تھی۔
قبرستان میں کئی درخت ایسے تھے، جو اپنی قدامت اور خد و خال سے کافی قدیم محسوس ہوتے تھے، اور ان پہ جابجا پرندوں نے گھونسلے بنا رکھے تھے۔ ایک طرف بوہڑ کے سدابہار درخت، جن کی شاخیں اب بڑھتے بڑھتے زمیں کو چھو رہی تھیں، تو دوسری طرف کہیں کہیں چیڑھ کے سرو قامت درخت، جن کی اونچائی ماپی نہیں جا سکتی تھی۔ ان میں سے کئی درخت ایسے بھی تھے، جن کی شاخیں نہایت گھنی، تنا مضبوط اور جڑیں اس انداز سے زمین پہ بکھری پڑی تھیں، کہ گویا کسی چڑیل نے اپنے بال کھول رکھے ہیں اور شکل سے اتنے ڈراؤنے محسوس ہوتے تھے، کہ انسان کا دل وہاں سے دن کو بھی گزرتے ہوئے ڈرتا تھا۔ ان درختوں کی بابت یہ مشہور تھا کہ ان پہ جنات کا بسیرا ہے، جو راہ گزرتے افراد کے ساتھ چمٹ جاتے ہیں اور پھر ان کا خون چوس کر انہیں ہلاک کر دیتے ہیں۔
یہ سبھی درخت قبرستان کے مغربی حصے میں ایک کمان کی طرح، اس ترتیب سے لگے ہوئے تھے، کہ عصر کی نماز کے کچھ دیر بعد ہی سورج ان کی اوٹ میں آ جاتا، اور قبرستان میں بہت جلد اندھیرا چھا جاتا تھا۔ ”بابا! اب چلو بھی۔ کیوں یہاں رو رو کر اپنے آپ کو ہلکان کر رہے ہو۔ آؤ گھر چلو۔ تم نے صبح سے کچھ بھی نہیں کھایا۔“ اصفہان بابا کو گھر جانے کے لئے رضامند کر رہا تھا، جو اب اپنا سر بیٹے کی قبر پہ ٹکائے، ہچکیاں لیتے ہوئے رو رہا تھا۔
عبدالشکور کے رونے میں وہ کرب اور دکھ تھا، جو کسی صاحب دل کے دل کو چیر کر رکھ دیتا۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ گویا کوئی کونج اپنے ڈار سے بچھڑ کر اب راستہ بھول چکی ہے اور اب بے قراری کے ساتھ چیخیں مار مار کر، اپنے ساتھیوں کو بلا رہی ہے۔ ”میں کہاں جاؤں گا؟ کس کے پاس؟ اب اس بھرے شہر میں میرا رہ ہی کون گیا ہے؟“ ۔ وہ بیٹے کی قبر پہ ہاتھ پھیرتے ہوئے، رو رہا تھا اور اپنے غم کی دہائی دے رہا تھا۔ ”تم جاؤ بیٹا! جاؤ گھر جاؤ۔ میرا اللہ وارث ہے۔ اب یہی میرا گھر اور یہی پکا ٹھکانہ ہے“ ۔ اصفہان بابا کی اس بے بسی اور دکھ کی کیفیت پہ شدید بے چین تھا۔ وہ بابا کو اس اداسی کے ماحول سے نکال کر، دوسری جگہ لے جانا چاہتا تھا، تاکہ اس کا دکھ ہلکا ہو، مگر بابا وہاں سے ہلنے کا نام تک نہیں لے رہا تھا۔
- محبت کی ایک کہانی - 20/09/2023
- اشفاق احمد۔ تعلیمات، اصلیت اور افسانہ - 14/09/2023
- بھول - 09/09/2023
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).