وانا جنوبی وزیرستان: واٹر ٹیبل ایک سنگین مسئلہ


جنوبی وزیرستان پچھلے 20 برس سے دنیا کے مین سٹریم میڈیا کا پاپولر ٹاپک رہا۔ کہا جاتا ہے کہ طالبان خاص کر حقانی نیٹ ورک کے ریشے یہاں کافی مضبوط تھے اور بتایا جاتا ہے کہ اب بھی طالبان کافی فعال ہیں۔ ماضی کے برعکس وزیرستان میں کافی تبدیلی آ چکی ہے۔ نظام تعلیم، نظام صحت، انفراسٹرکچر، روڈز اور امن و امان کی حالت اب کافی حد تک بہتر ہے۔ بے شک وزیرستان طالبانائزشن پراجیکٹ کا بریڈنگ گراؤنڈ رہ چکا اور جس کا خمیازہ وزیرستانیوں نے اپنے گھروں سے بے دخلی اور مختلف فوجی اپریشنوں کے نتیجے میں گھر اور بازاروں کی مسماری کی شکل میں ادا کیا۔

پاکستان کی شمال مغربی بارڈر کے ساتھ ملحقہ 6620 مربع میل پر پھیلا پہاڑوں میں گری درہ گومل جیسے درے کی وجہ سے شہرت کے حامل جنت نما سرسبز شاداب چلغوزے جیسے نعمت سے مالامال علاقہ وزیرستان نہیں تو کون سا ہو سکتا ہے۔ رقبے کے لحاظ سے پورے فاٹا کا بڑا ایجنسی تھا۔ 2017 کی مردم شماری کے مطابق جنوبی وزیرستان کی کل آبادی 680000 تھی۔ ماضی میں لوگ خانہ بدوش ہونے کے ساتھ زراعت سے وابستہ تھے۔ 2000 کے بعد لوگوں کا رجحان زراعت کی طرف بڑھ گیا۔ لوگ آہستہ آہستہ خانہ بدوش زندگی کو خیر آباد کہہ کے آباد ہونے لگے

شروع میں آبادی کم تھی۔ زراعت کے لئے لوگ کاریز سسٹم استعمال کرتا۔ حال کی نسبت ماضی میں وزیرستان کسان صرف سیب کی ایک ورائٹی جس کو مقامی زبان میں ”سرہ مانڑہ“ کہتے اگاتے۔ جدید ٹیکنالوجی کی بدولت کسان کمیونٹی نے سیب کے مختلف ورائٹی کے ساتھ آلوچہ، آڑو، ناشپاتی، خوبانی، انار اور انگور اگانا شروع کیے ۔ آمدن میں اضافے کے ساتھ لوگوں نے زراعت پر مزید انویسٹمنٹ کی۔ جدید الات، بیج اور ادویات استعمال کیے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ پانی کی سطح گر گئی۔

وزیرستان پہاڑی علاقہ ہے۔ ڈھلوان کی شکل میں سطح سمندر سے 3500 فٹ کی بلندی پر ہے۔ یہاں واٹر ٹیبل زمین کے اندر بڑے بڑے پتھروں سے بنے پلیٹ نما پلیٹوں میں ہوتے ہیں۔ لوگ ان پڑھ ہیں۔ ان کو پانی کے بارے میں روایتی علم تو ہے۔ مگر سائنسی بنیاد پر زیرزمین پانی سے ناواقف ہیں۔ کاریز سسٹم خشک ہوا۔ چونکہ لوگوں کے پاس خاصی رقم انویسٹمنٹ کے لئے تھی۔ اور تو اور تقریباً ہر تیسرے گھر میں کوئی دو تین افراد خلیج ممالک میں کام کے واسطے جا چکے تھے اور وہاں سے پیسے بھیج رہے تھے۔ لوگ بغیر پروا کیے کنویں کھودتے۔ باغات کو پانی ضرورت سے زیادہ دیتے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ واٹر ٹیبل انتہائی گر گیا۔

خوش قسمتی سے بدقسمت جنت نما سرسبز شاداب ٹکڑے کے واٹر ٹیبل کی رہی سہی کسر تب پورا ہوا جب سولر پینل کا استعمال عام کسان کی پہنچ تک اگیا۔ صبح سورج نکلتے ہی مشین سٹارٹ کر کے شام سورج ڈوبنے کے ساتھ بند ہوتا۔ چونکہ پہلے تو جنریٹرز جو ڈیزل سے چلتے سے مشین چلاتے جس کا بہت خرچ آتا۔ مفت آیا مال کی وجہ سے بے رحم وزیرستانی کسان کمیونٹی نے واٹر ٹیبل کے ساتھ وہ کچھ کیا جو کوئی اپنے دشمن کے ساتھ نہیں کرتا۔ واٹر ٹیبل سال کے حساب سے 30 اور 35 فٹ نیچے جاتا۔ پہلے پہلے یعنی آج سے کچھ سال پہلے لوگ دو سال میں ایک دفعہ بور کرنے پر مجبور ہوتے۔ پھر سال میں ایک دفعہ بور کرنا ضروری ہوا۔ اب حال یہ ہے کہ سال میں دو یا تین دفعہ بور کرنا پڑتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ایک بور پر ایک لاکھ سے اوپر خرچ اتا ہے جو ایک عام کسان کی پہنچ سے دور ہوتا جا رہا ہے۔

تاحال واٹر ٹیبل گرنے کی وجہ سے وزیرستان وانا کے کچھ کچھ جگہوں پر باغات سوکھ گئے ہیں۔ اگر واٹر ٹیبل کا یہی حال جاری رہا تو تقریباً آنے والے 5 سے 10 سال میں وزیرستان کی ادھی سے زیادہ باغات سوکھ جائیں گے۔ پہلے سے آبادی جو پانچ سال میں بڑھنا چاہیے تھی وہ بدقسمتی سے چھ مہینے میں بڑھ گئی۔ شرح خواندگی انتہائی کم۔ روایتی مذہب پر عمل پیرائی کے ساتھ اب اگر زراعت جیسا ذریعہ آمدن پانی کی قلت کی نذر ہوا تو علاقہ ایک نہ ختم ہونے والے بدامنی، قتل، ڈکیتی اور ماضی کی طرز پر پراکسی ملیشیا بنانے کی بلیک ہول بن جائے گا۔ پھر دشمن اور خود ساختہ دشمنی عناصر کے ہاتھوں بے روزگار، ان پڑھ انسان نما بھیڑ بڑی آسانی سے اپنے مفادات کے لئے ملک کے خلاف استعمال کیا جا سکے گا۔

حل کے حوالے سے اگر بات کی جائے تو حکومت اور عوام دونوں کو اپنے حصے کا کردار ادا کرنا ہے۔ مقامی کسان کمیونٹی کو جان جانی کی جگہ حکومت سے مطالبات منوانے کے لئے کسان یونین بنانا ہو گا۔ سبزی اور فروٹ منڈیوں سے منسلک تاجر اور کاروباری حضرات جن کے مستقبل زراعات سے ہے کسانوں کا ساتھ دینا ہو گا۔ ان کی مالی اور اخلاقی سپورٹ کرنا ہو گا۔ سول سوسائٹی بھی اپنا کردار نہ بھولیں کیونکہ کسان کمیونٹی کی محنت سے سالانہ اربوں اور کھربوں روپے وانا وزیرستان آتے ہیں جس کی وجہ سے ہر کس کو اپنا حصہ ملتا ہے۔ وزیرستان آباد اقوام کا مشترکہ جرگہ ہونا ہو گا جس کے ذریعے حکومت اور انتظامیہ سے ہنگامی بنیاد پر اقدامات اٹھانے کے ساتھ لانگ ٹرم پالیسی کے لئے حکومت کو پریشرائز کرنا ہو گا۔

حکومت سے گزارش ہے کہ وہ کسانوں کو ایجوکیٹ کرے۔ وانا وزیرستان میں زرعی بنک برانچ لائے اور بنک سے کسانوں کو اسان شرائط پر قرض دے۔ ان کے نقصانات کا ازالہ کرے۔

سب سے بنیادی قدم جو حکومت کو اٹھانا چاہیے تھا وہ ڈیمز اور بیراج کی تعمیر تھا اور ہے۔ وزیرستان گراس لینڈ میں اتا ہے۔ یہاں سالانہ کی بنیاد پر دو انچ بارش ہوتے ہے جن کے پانی ہر سال ضائع ہوتے ہیں۔ حکومت کو سروے کرنا چاہیے اور سروے کے نتیجہ میں ڈیمز تعمیر کرنا چاہیے۔ ڈیمز میں جو پانی جمع ہو گا اسے نہروں کے ذریعے باغات کو پانی مل سکے گا۔ ایک طرف اگر ڈیمز کی تعمیر سے واٹر ٹیبل کی سطح نیچے جانے کی بجائے واپس اوپر آئے گا تو دوسری طرف باغات کو پانی بھی ملے گا۔ حکومت کو نہروں کی وجہ سے کسانوں سے سالانہ خاصا ٹیکس بھی ملے گا۔ اسی طرح مقامی ضروریات کے لئے بجلی بھی پیدا ہو۔ مگر یہ صرف خواہش ہو سکتا ہے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments