رول ماڈل مصنفہ ‘جے کے رولنگ’ اور ہمارا ‘متخیل ادب’


شاید یہ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ ورلڈ ریکارڈ ہولڈر اور ہیری پورٹر کی مصنفہ ’جے کے رولنگ‘ کو 17 سال کی عمر میں کالج سے نکال دیا گیا، 25 سال کی عمر میں ادویات نہ ملنے کی وجہ سے اس کی ماں کا انتقال ہوا، 27 سال کی عمر میں اس کی شادی ہوئی تو اس کا خاوند اسے بری طرح سے پیٹنے لگا حالانکہ وہ اس کی ایک بیٹی کی ماں بن چکی تھی، 28 سال کی عمر میں اس کے خاوند نے اسے طلاق دی تو وہ بری طرح ڈپریشن کا شکار ہو گئی، 29 سال کی عمر میں وہ سوشل ویلفیئر کے خیراتی فنڈ پر گزر بسر کرنے لگی اور جب اس کی عمر 30 سال کی ہوئی تو وہ خودکشی کرنے کے بارے میں سوچتی رہی تھی۔ جب وہ 31 سال کی ہوئی تو اس نے اپنی ساری توجہ لکھنے پر مرکوز کر دی جو اس کا بنیادی شوق تھا۔ لیکن مشکلات نے ابھی بھی اس کا پیچھا نہیں چھوڑا تھا اور اس کی پہلی کتاب کو 12 پبلشرز نے چھاپنے سے انکار کیا۔ اس خاتون نے ہمت پھر بھی نہیں ہاری۔

آپ کو معلوم ہے کہ جب 12 مختلف پبلشرز کو وہ اپنی پہلی کتاب کے مسودے بھیج رہی تھی تو اس نے 400 صفحات اپنے ہاتھ سے ٹائپ رائٹر پر ٹائپ کیے تھے اور اس کے پاس اتنی رقم بھی نہیں تھی کہ وہ ان 12 پبلشرز کو بھیجنے کے لئے ان صفحات کی 12 فوٹو کاپیاں ہی کروا سکے اور انہوں نے 400 صفحات کے یہ 12 مسودات اپنے ہاتھ سے دن رات محنت کر کے خود ٹائپ کیے تھے۔

شاید آپ کو یہ بھی معلوم نہ ہو کہ لندن کے جس 13 ویں پبلشر نے ان کی پہلی 4 کتابیں شائع کیں اور وہ سال کی بہترین لکھاری قرار پائیں، شروع میں اس نے بھی ان کی کتابیں چھاپنے سے انکار کر دیا تھا مگر پبلشر کی بیٹی نے وہ مسودے پڑھے تو اسے وہ کتابیں پسند آ گئیں اور وہ پبلشر اپنی بیٹی کی ضد کے سامنے کتابیں چھاپنے پر مجبور ہو گیا۔ اس وقت جے کے رولنگ کی عمر 35 سال تھی۔ جب یہی جے کے رولنگ 42 سال کی عمر کو پہنچی تو اس نے اپنی کتابوں ہیری پوٹر سیریز کی ایک کتاب کی پہلے ہی دن 11 ملین کاپیاں فروخت کر کے ایک ورلڈ ریکارڈ قائم کیا اور پہلی ارب پتی مصنفہ بننے کا اعزاز بھی اپنے نام کیا۔ جے کے رولنگ 2004 میں دنیا کی وہ پہلی ارب پتی شخصیت بنی تھیں جو اپنی کتابوں کی فروخت سے فوربز کی ارب پتی افراد کی فہرست میں جگہ بنانے میں کامیاب ہوئی تھیں۔

برطانوی ناول نگار جے کے رولنگ کا اصل نام جوآن رولنگ  ہے جنہوں نے فینٹسی ناولز کے علاوہ کرائم اور بالغ افراد کے لیے بھی رابرٹ گالبریتھ کے نام سے کتابیں لکھیں اور ان کی وہ کتابیں بھی بہت مشہور ہوئیں۔

اگرچہ جے کے رولنگ نے دیگر کتابیں بھی لکھیں تاہم انہیں سب سے زیادہ شہرت ہیری پوٹر سے ہی ملی جس کے 7 سیکوئل ہیں، اس سیریز کی پہلی کتاب 1997 میں جب کہ آخری کتاب 2007 میں شائع ہوئی تھی۔ ان تمام کتابوں کی دنیا بھر میں 2019 تک 50 کروڑ کاپیاں فروخت ہو چکی تھیں اور مذکورہ ناول دنیا کے سب سے بہترین اور زیادہ فروخت ہونے والی کتابوں میں بھی شامل ہیں۔ ان ناولز پر ہیری پوٹر سیریز کی فلمیں، اینیمیتڈ فلمیں، اسٹیج تھیٹر اور گیمز بھی بنے ہیں۔

جے کے رولنگ کو 2001 اور 2002 میں ایڈن برگ رائل سوسائٹی فیلو شپ، یوگو اعزاز برائے بہترین ناول (برائے ہیری پوٹر اور شعلوں کا پیالہ، افیسر آف دی آرڈر آف دی برٹش ایمپائر اور کمپینین آف آنر فیلو آف دی رائل سوسائٹی آف لٹریچر کے اعزازات سے نوازا گیا۔ اس کے علاوہ انہیں کارنیگی میڈل برائے ادب ( 2008 ) ، کارنیگی میڈل برائے ادب ( 2005 ) اور کارنیگی میڈل برائے ادب ( 2003 ) سے بھی نوازا گیا۔

آج برطانوی لکھاری جے کے رولنگ، جنہوں نے غربت اور نامساعد حالات کی وجہ سے کبھی خودکشی کرنے کی کوشش کی تھی کی کتابیں ہیری پورٹر ایک عالمی برانڈ ہیں جن کی مالیت 15 بلین ڈالرز سے زیادہ ہے، اور وہ برطانوی شاہی خاندان سے بھی زیادہ امیر ہیں۔

ایک بار برطانوی اخبار ’سنڈے ٹائمز‘ میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں جے کے رولنگ کے ’ٹائم‘ میگزین کو دیے گئے ایک انٹرویو پر تبصرہ کرتے ہوئے ٹیری پریچٹ نے جے کے رولنگ کے اس بیان پر حیرت کا اظہار کیا تھا، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ اشاعت سے پہلے وہ نہیں جانتی تھیں کہ ہیری پوٹر ’فینٹسی‘ یا ’تخیلاتی‘ کہانی ہے۔ ٹائم کو دیے گئے انٹرویو میں ہیری پوٹر کی مصنفہ نے دعوٰی کیا ہے کہ وہ ’تخیلاتی ادب‘ کی دلدادہ نہیں ہیں بلکہ وہ تو اس صنف ادب کو بدلنا چاہ رہی تھیں۔ ٹائم میگزین نے یہ بھی لکھا تھا کہ تخیلاتی ادب رومانویت، آئیڈیل ازم، اور امراء کی کہانیوں میں پھنس چکا تھا اور جے کے رولنگ نے اسے بدلا ہے۔

میرا نام سرمد خان ہے، میں پاکستانی برٹش ہوں اور گزشتہ پندرہ سال سے پاکستانی لکھاریوں میں کسی ’جے کے رولنگ‘ یا ٹیری پریچٹ ’کو ڈھونڈنے کی ناکام کوشش کر رہا ہوں۔

پہلے پہل ہم دادا جی یا نانی اماں سے پریوں، بھوتوں اور جادوئی چڑیلوں وغیرہ کی کہانیاں سن سنا لیا کرتے تھے، اور مشہور رسائل سسپنس، جاسوسی، الف لیلہ ڈائجسٹ، سب رنگ اور اردو ڈائجسٹ وغیرہ میں ابن صفی وغیرہ کی جاسوسی کہانیاں بھی پڑھنے کو مل جاتی تھیں لیکن 2000 ء کے بعد جب کتابی اشاعت کو زوال آیا تو یہ رسائل بھی یکے بعد دیگرے بند ہونا شروع ہو گئے۔ اب یہ صورتحال ہے کہ تخیلاتی ادب پڑھنے کو ملنا تو کیا، اب ہمیں چاکلیٹ سے بنے اڑتے مینڈکوں، الؤوں کے ہاتھ ڈاک بھیجنے اور جادو منتروں کی بھرمار والی کہانیاں سننے کو ملتی ہیں اور نہ پڑھنے کے لئے دستیاب ہیں۔

البرٹ آئن سٹائن سے کسی نے بچوں کی ذہانت پڑھانے کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے یہ جواب دیا تھا کہ بچوں کو الف لیلوی، تخیلاتی، اور ماورائی کہانیاں پڑھنے کا عادی بنائیں۔ اول ہمارے ہاں بچوں کے لئے ایسا مافوق ادب ہی تخلیق نہیں ہو رہا اور ہو بھی رہا ہے تو وہ روایت اور قدامت پسندی پر مبنی ہے۔ جب انسان کے ذہن میں یکسانیت پیدا ہو جائے اور وہ چیزوں کو دہرانے لگے تو سمجھ لینا چاہیے کہ، ’کہانی ختم ہو گئی ہے۔ ‘ ہمارے ہاں تخلیقی ذہانت کے اس خلا کو پر کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم ’تخیلاتی‘ اور ’مافوق الفطرت‘ ادب کی حوصلہ افزائی کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments