انسانیت کی ناکامیاں


انسان محبت و شفقت اور احترام باہمی سے کس قدر دور ہوتا جا رہا ہے اور اپنے علاقوں کے اور پڑوسیوں کے ساتھ اپنے معاملات بات چیت، رواداری اور حسن خلق سے ماورا ہو کر جنگ و جدل میں مشغول ہو رہا ہے اس سے ایک ہی چیز ثابت ہوتی ہے کہ وہ ترقی، علم و فن سے نابلد ہے اور محض اپنے لالچ میں اس قدر محو ہے کہ اپنے شہر اور ملک کی تباہی کو بھی یکسر محروم کر دیا ہے۔ اقوام متحدہ میں ایک رپورٹ پیش کی گئی ہے اور کے مطابق یہ واضح ہے کہ انسان دنیا کے کسی بھی خطے سے بس ذات اور اپنی میں سے باہر نہیں نکلا۔

اقوام متحدہ کے سربراہ کے بقول یہ ایک خوفناک اور دردناک صورتحال ہے کہ دنیا اپنے کیے گئے عہد و پیماں بھول کر باہمی سر پھٹول میں اس قدر محو ہے کہ خدا کی پناہ۔ اس کے نتیجے میں عام آدمی پس رہا ہے۔ ریڈ کراس کی ایک ذیلی شاخ نے باقاعدہ ایک تفصیلی رپورٹ شائع کی ہے جو سیکریٹری جنرل کو پیش کی گئی ہے اس میں مختلف علاقوں اور خطوں میں عوامی مشکلات اور تکالیف کا احاطہ کیا گیا ہے۔ اور یہ حقیقت عیاں ہوئی کہ عام لوگوں پہ کس قدر بڑی قیامت گزر رہی ہے۔ ظاہر ہے شہریوں کو جب ہوائی حملوں، راکٹوں، توپ خانے، مارٹر گولوں سے پھول تو جھڑتے نہیں شعلہ و بارود سے محض شہر اجڑتے ہیں اور لوگ پھر محفوظ تر پناہ گاہوں کے متلاشی ہوتے ہیں۔

افریقی ساحل، سوڈان، مشرق وسطیٰ،

یوکرائن، لوگ خوراک اور ادویات کے لیے مارے مارے پھرتے ہیں۔ انسانیت تڑپ رہی ہے۔ انتونیو گوتریس کے مطابق سیکورٹی کونسل کو ایسے اقدامات لینے کی ضرورت ہے کہ آئندہ ایسے واقعات کی پیش بندی کی جا سکے اور ان کو روکا جائے، اور دنیا کو جنگ کے اصولوں کے مطابق لڑنے کی کوئی تدبیر کی جا سکے۔ حکام کو چاہیے کہ وہ باغی افواج کے جوانوں کو احترام آدمیت کا درس دیں کہ دوران جنگ وہ انسانی حقوق کی پامالی سے گریز کریں۔ ان کو مسائل کے حل کے لیے زیادہ سے زیادہ سیاسی حل کی جانب بڑھنا چاہیے۔

اسلحہ سازوں کو بھی ایسے گروہوں کے ساتھ تجارت نہ کرنے کی بھی ہدایت کی گئی ہے جو عالمی قوانین کی روگردانی کے مرتکب پائے جائیں۔ دنیا میں کم وبیش اس وقت بھی 100 علاقائی تنازعات چل رہے ہیں جہاں عوامی نقصانات کی بناء نفرت اور پریشانی بڑھ رہی ہے۔ ایسے تنازعات آج کل انتہائی طویل المدت بھی ہوتے ہیں اور اکثر 30 سال سے بھی زائد عرصہ چلتے ہیں۔ نئے بچے پیدائش سے لے کر سن بلوغت تک پہنچ جاتے ہیں اور وہ خود بھی ایسے تنازعات میں ایندھن بننے کے لئے داخل ہو جاتے ہیں۔

پچھلے سال سے ایسے ماحول میں 53 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ 17000 افراد ہلاک ہوئے ہیں جن میں صرف 8000 افراد کا تعلق تو یوکرائن سے ہے۔

مشرق وسطیٰ کے ممالک یمن، سوڈان، لیبیا، عراق اور کئی دیگر علاقوں میں انسانیت کی پامالی انتہائی خوفناک حد تک بڑھ چکی ہے۔ اس کے علاوہ افغانستان، ہیٹی، کانگو، میانمار وغیرہ میں کم از کم 25 کروڑ 80 لاکھ افراد شدید پریشانیوں میں مبتلا ہیں یہ تعداد نیویارک کی مجموعی آبادی سے 30 گنا زیادہ لوگ ہیں، جہاں غذائی قلت کا سامنا ہے اور ادویات کی کمیابی کا سامنا ہے۔ اس اجلاس میں چونکہ روس اور یوکرائن کے نمائندے بھی شامل تھے تو جب ذکر ان کا ہوا تو خوب گرما گرمی دیکھی گئی۔

دراصل نقطہ یہ تھا کہ خوراک کو بطور ہتھیار استعمال نہ کیا جائے کیونکہ جب ان کا پچھلے سال تنازعہ شروع ہوا تھا تو مڈل ایسٹ جانے والی تین کروڑ ٹن گندم روک لی گئی تھی جو بعد از خرابیٔ بسیار ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوغان کی کوششوں کی بدولت بحال ہوئی مگر تب تک گندم کی عالمی مارکیٹ میں بے پایاں اضافہ ہو چکا تھا۔

نہ جانے کب ہوں کم اس دنیا کے غم۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments