کیا اسی لئے ”پاکستان“ حاصل کیا تھا؟


تاریخ یہ بتاتی ہے کہ ابتدائی برسوں میں ہی ”جیو اور جینے دو “ کی بات دفن کر کے لاٹھی پکڑ لی گئی تھی اور سب کو ہانکنا شروع کر دیا گیا تھا۔ اس ملک کو اپنا ”ملک“ سمجھ کر نہ پہلے چلایا گیا نہ اب چلایا جا رہا ہے۔ بلکہ ایک لیبارٹری بنا رکھا ہے۔

مصنوعی سیاست دان اور مصنوعی سیاسی جماعتیں لیبارٹری میں تیار کر کے کچھ عرصہ ان کو چلانے کے بعد بعد ازاں سب کو مختلف انداز سے تلف کر دیا جاتا ہے۔ سیاسی لیبارٹری میں اگائے گئے خود کاشتہ سیاست دان اور سیاسی جماعتیں دیرپا ثابت نہیں ہوتیں اور نہ ہی ثمر آور ہو سکتی ہیں کیونکہ ان کی سیاسی عمر بھی بہت مختصر ہوتی ہے اور حکومت کرنے کا دورانیہ بھی۔ ان کو چائنہ کا مال بھی کہہ سکتے ہیں جس کی کوئی گارنٹی نہیں ہوتی۔

یہ کوئی الزام تراشی نہیں ہے، پاکستانی سیاسی تاریخ اس کی گواہی دیتی ہے۔ ترقی اور استحکام کے لئے مسلسل یکسوئی اور تسلسل لازم ہوتا ہے۔ جرمنی کے تین چانسلرز نے سولہ سولہ برس کی حکمرانی کی پھر کہیں جا کر معاشی اقتصادی اور سیاسی استحکام حاصل کیا۔ آج طاقتور جرمنی سب کے سامنے ہے۔ ہم بھی سب کے سامنے ہیں فرق صرف سر کا ہے، کسی کا اٹھا ہوا اور کسی کا جھکا ہوا ہے۔ جب ہم پیچھے جھانکتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ پاکستان بنانے والی جماعت مسلم لیگ تھی جس کے جھنڈے تلے اکٹھے ہو کر پاکستان بنایا گیا تھا۔

پاکستان کا جو حال ہوا سو ہوا، بنانے والی جماعت مسلم لیگ بھی محفوظ نہ رہ سکی تھی۔ ہر دور میں مسلم لیگ نئے گروپ بندی کا شکار اور پھر استعمال ہوئی۔ پہلے ایک سے دو ہوئی اور پھر چل سو چل۔ سب سے پہلے ایوب خان کے دور میں تحریک پاکستان والی مسلم لیگ کو خیر باد کہا گیا اور 1962 میں کنونشن مسلم لیگ کے نام سے جماعت برسر اقتدار آئی جبکہ اس کے بالمقابل اپوزیشن کونسل مسلم لیگ کے نام سے موجود تھی۔ جب کونسل مسلم لیگ میں اختلافات پیدا ہوئے تو اس کے بطن سے مسلم لیگ قیوم گروپ نے جنم لیا۔

اگلے دور میں مسلم لیگ فنکشنل گروپ بنا جس کے سربراہ پیپر پگاڑا تھے۔ ضیا ء الحق کے دور میں مسلم لیگ جونیجو گروپ تشکیل دیا گیا اور پھر انجام کو پہنچا۔ ضیاء الحق گروپ (ض ) بنا۔ ایک بار ملی مسلم لیگ بھی بنی تھی۔ متحدہ مسل لیگ کے نام سے بھی ایک گروپ بنا اور استعمال ہوا۔ منظور وٹو نے مسلم لیگ جناح بنا ڈالی۔ 1988 نواز شریف کی مسلم لیگ نون کے نام سے بنی جو سب سے طاقتور سیاسی گروہ ثابت ہوا۔ 2001 میں میاں محمد اظہر نے ق لیگ بنائی جو بعد میں گجراتی خاندان کے قبضے میں چلی گئی آج کل وہ بھی انتشار کا شکار ہے۔

اس کے علاوہ بھی اور گروہ بنے تھے۔ خود کاشتہ سیاسی جماعتوں کی جوڑ توڑ کے یہ سلسلے پرانے ہیں۔ تحریک انصاف کے ساتھ جو ہو رہا ہے وہ ماضی میں بھی ہوتا رہا ہے۔ اس جماعت نے چونکہ حد سے زیادہ نافرمانی کی تھی اور منع کرنے کے باوجود ریڈ لائن پھلانگ کر عبور کر لی تھیں لہذا اس کو سزا بھی اسی کے حساب سے دی جا رہی ہے۔ ہماری بلی اور ہمیں میاؤں میاؤں؟ جہاں بکنے اور جھکنے والوں کی کمی نہ ہو وہاں ایسے مال کی تیاری زیادہ مشکل نہیں ہوتی۔

بار بار ایسے تجربات میں کبھی ”زور دار دھماکا“ کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ 2018 کے الیکشن کے بعد کی برسراقتدار جماعت تحریک انصاف بھی اپنی آئینی مدت پوری کرنے میں ناکام و نامراد رہی تھی اور یہی دھماکا خیز ثابت ہوئی۔ لگتا ہے کہ تیاری کے فارمولے میں کہیں گڑ بڑ ہو گئی۔ اپریل 2022 میں پارلیمنٹ کے اندر سے تبدیلی لاکر ماضی کے حریفوں کو یکجا کر کے اتحادی حکومت بنا کر جمہوریت کو جاری رکھا گیا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سیاسی مسائل اور حکومت، اپوزیشن تلخیوں میں اضافہ جو شروع ہوا تو پھر بڑھتا ہی گیا یہاں تک کہ ہر قسم کی ریڈ لائنیں بھی کراس ہو گئیں۔

الیکشن کی حمایت اور مخالفت میں گھمسان کا رن پڑا ہوا ہے۔ عدالتوں اور پارلیمنٹ کے علاوہ سڑکوں پر بھی اس کے لئے جنگ لڑی جا رہی ہے۔ بالکل واضح نہیں کہ اس سال الیکشن ہوں گے کہ نہیں؟ بگڑے معاملات سڑکوں تک جا پہنچے اور لیکن اندرونی سازشیں عروج پر دکھائی دیتی ہیں۔ جس کے نتیجہ میں اتحادی حکومت اور اپوزیشن کے درمیان سیاسی عداوت، نفرت اور انتقام کی ایسی تاریخ لکھی گئی ہے کہ گزشتہ 75 سالہ اس ایک سالہ تاریخ کے آگے ماند پڑ گئی ہے۔

اخلاقی روایات کا تانچہ پانچا کر کے رکھ دیا گیا۔ قانون شکنی اور بدزبانی کرنے میں سبھی ایک دوسرے سے سبقت لے گئے۔ خوفناک دھڑے بندیاں کھل کر سامنے آئیں۔ پسند اور ناپسند کے چھپے تمام کردار پہلی بار کھل کر سامنے آئے۔ سیاست کو لگی آگ کی شدت اس قدر زیادہ تھی کہ اس کی تپش بیرون ممالک بھی محسوس ہوئی اور انہوں نے اپنے بندے بھیج کر سمجھانے کی کوشش کہ ”اپنی عقل نوں ہتھ پاؤ تے بند کرو اے تماشے“ ۔ لیکن خاطر خواہ اثر نہ ہوا۔

بھڑکی آگ تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔ آگ تو پھر آگ ہوتی ہے اس کی زد میں آنے والا پھر کوئی بھی محفوظ نہیں رہتا۔ ماضی میں نفرت کی آگ جو مذہب کے نام پر پھیلائی جاتی رہی تھی۔ اب کی بار آگ نے سیاست کو اپنی لپیٹ میں لیا۔ کوئی بھی محفوظ نہیں رہا۔ چھوٹا نہ بڑا، عام نہ خاص۔ سبھی کو آگ لگی ہوئی تھی۔ جب بھی کوئی بولتا تھا تو منہ سے آگ ہی برستی ہے۔ آگ نے اپنی برسوں کی پیاس بجھائی اور کچھ نہ چھوڑا جو راستے میں آیا وہ جل گیا۔ عمارتیں، یادگاری جہاز، بسیں ویگنیں ایمبولنس کچھ بھی نہ چھوڑا۔ جناح کے بنائے پاکستان میں انہی کا گھر ”جناح ہاؤس“ بھی محفوظ نہ رہا اور جل کر خاکستر کر دیا گیا۔ جناح ہاؤس کا ماتم کیا جا رہا ہے لیکن پورے پاکستان کی کسی کو فکر نہیں جو 75 سال سے جلایا اور لوٹا جا رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments